’’پنڈورا باکس‘‘ کیسے بند کیا جائے؟

ہمارے ہاں آج کل مختلف جہتوں پر مباحث جاری ہیں۔ نیوز چینلز اور اخبارکے صفحات میں کرنٹ افیئرز غالب رہتے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی شاہراہ سے لے کرلیاری گینگ وار کے سربراہ عزیر بلوچ کی گرفتاری ، اس سے سندھ میں اٹھنے والے ممکنہ طوفان اور اب پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ زور شور سے موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ ادھر تبلیغی جماعت پر پابندی کے بچگانہ اقدام نے بھی دینی حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے۔پولیس اور دیگر ادارے بخوبی جانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت مکمل طور پر پُرامن جماعت ہے، جس پر ریڈیکل تنظیموں والے سب سے بڑا اعتراض ہی یہی کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت والے جہاد کی بات نہیں کرتے اور کبھی جہاد کشمیر، جہاد افغانستان وغیرہ کی حمایت نہیں کی ۔ان تمام ایشوز پر بات ہوتی رہے گی،مگر پہلے تین بنیادی غلطیوں والا سلسلہ جو پچھلے کالم (پیر،یکم فروری)سے شروع ہوا تھا،ا سے مکمل کر لیا جائے۔ 
روس کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کو سپورٹ کرنا پاکستانی تاریخ کا بہت اہم موڑ تھا، اسی سے خطے کا پورا منظرنامہ تبدیل ہوا۔ افغان جہاد کے دوران ہی سویلین گروہ اور تنظیمیں بنیں،جنہوں نے تربیت پا کر مسلح جدوجہد کی طرح ڈالی۔ پہلے یہ کام روسی فوج سے نبردآزما افغانوں کے لئے کیا گیا، پھر مقبوضہ کشمیر میں وار تھیٹر کھل گیا اور یہ لوگ بھارتی فوج سے نبرد آزما کشمیری گوریلوں کی مدد کے لئے وہاں جا پہنچے۔ اس کے بعد جو ہوا ، وہ تاریخ کاحصہ ہے۔ آگے بڑھنے کے لئے ہمیں مگر اپنی تاریخ کا مسلسل جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ جہاں کہیں غلطیاں ہوئی ہوں، ان کی نشاندہی اور اپنے بلنڈرز کے اعتراف کے بعد انہیں درست کرنے کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ تاریخ کا ایک ابدی اصول ہے کہ غلطیوں سے نہیں، غلطیوں پر اصرار سے قومیں تباہ ہوتی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں جہادی تنظیموں کی حمایت اورزیادہ کھلے الفاظ میں ان کی سرپرستی کی حکومتی اور ریاستی پالیسی ایسا بڑا بلنڈر تھا، جس کا اب ہم سب کو اعتراف کرلینا چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی سابق غلطیوں کو سدھارا جائے، انہیں ٹھیک کرنے کے ساتھ مستقبل میں ایسا کرنے سے ہر صورت گریز کا عزم کر لیا جائے۔ 
آگے بڑھنے سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے۔افغان جہاد کے حوالے سے دو نقطہ نظر ہیں۔ ایک سوچ ہمارے روایتی لیفٹ کی ہے، پاکستانی لبرلز، سیکولر اور نیو سیکولر(وہ نوجوان جو حال ہی میں سیکولرازم کو پیارے ہوئے اورجن کا'' جوش وولولہ‘‘ دیدنی ہے)یہ سب یہی کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس میں قطعی طور پر شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، وہ جو کچھ ہوا فساد تھا اور باعث فساد بنا۔ دوسرا نقطہ نظر ان لوگوں کا ہے جنہوں نے روس کے خلاف اس گوریلا جنگ میں باقاعدہ حصہ لیا یا اس کی دامے ، درمے ، سخنے مدد کی ۔یہ لوگ افغان جہاد کی حمایت میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ اس کا تجزیہ کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے اور صاف نظر آنے والی غلطیوں سے بھی صرف نظر کردیتے ہیں۔بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ توازن اور اعتدال کے ساتھ ماضی کے ان تمام بڑے تاریخ ساز واقعات اور ان کے حوالے سے اپنے قومی ردعمل کو دیکھا ، جانچا اور پرکھا جائے۔جو درست لگے، اس پر صاد اور غلط پر کراس کا نشان ڈال دینا چاہیے۔ وہ غلطیاں دوبارہ نہیں دہرانی چاہئیں۔ ہمارے نزدیک جہاد افغانستان میں حصہ لینا، افغانوں کی سپورٹ کرنا اور روس کے خلاف گوریلا جنگ کے ذریعے اسے افغانستان سے باہر نکالنا بالکل درست تھا، مگر اس کے طریقہ کار میں غلطیاں اور خامیاں رہ گئیں۔ خاص طور پر اس سب کچھ کو سمیٹتے ہوئے جو کچھ کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کیا گیا، حالانکہ اس قسم کے بڑے آپریشن میں واپسی کا راستہ (Exit) ہمیشہ پہلے سے پلان کر کے رکھا جاتا ہے۔ 
پچھلے کالم کے بعد محترم میجر(ر)عامر کا فون آیا۔میجر عامر نہایت باخبر انسان ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیوں میں بے شمار لوگوں نے کام کیا، مگر ریٹائرمنٹ کے بعدشائد ہی کوئی اتنا بااثر، باخبر اور ذہنی مستعد رہا ہو۔ میجر عامر کے پاس خبر ہوتی ہے اور بقول شخصے خبر اڑ کر پہنچتی ہے۔انہوں نے مجموعی طور پر کالم کے تاثر اور تجزیے سے اتفاق کیا ،صرف ایک اعتراض کیا کہ ان کے بقول افغان جہاد کے لئے پاکستانیوں کو ٹرینڈ کیا گیا نہ ہی وہ اس جنگ میں جھونکے گئے، ایک بھی پاکستانی اس جنگ میں شہید نہیں ہوا۔ 
میجر (ر)عامر نے دو تین اور باتیں بھی کیں، ان کا نقطہ نظر بغیر کسی تبصرے کے پیش کر رہا ہوں،میجر عامر کے بقول: ''جہاد افغانستان میں حصہ لینے پر ہم مجبور تھے کہ ہماری انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق سوویت یونین کا ارادہ افغانستان میں ٹکنے کا نہیں تھا، وہ پاکستان میںدخل اندازی کرنا اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ آگے آنا چاہتا تھا۔ یہ فیصلہ پاکستانی قیادت کا تھا، امریکی اس میں دو سال بعد داخل ہوئے ،اس وقت تک پاکستانی ادارے گوریلا تحریک کی بنیاد ڈال چکے تھے، افغان نوجوان روسی فوجوں سے نبردآزما تھے۔ امریکہ کے آنے سے البتہ یہ ہوا کہ پوری دنیا ہماری پشت پر آگئی، ایک سوچار ممالک کا اتحاد بن گیا۔یہ ہماری جنگ تھی، جس میں ہم نے امریکہ اور پوری مغربی دنیا سمیت عرب ممالک کو شامل کر لیا ، ورنہ یہ بوجھ صرف ہمیں اٹھانا پڑتا۔ امریکی بے شک یہ سمجھتے رہیں کہ یہ ان کی جنگ تھی اور انہوں نے ہمیں استعمال کیا، ورنہ حقیقت میں ہم نے انہیں استعمال کیا۔ ہمیں اس جنگ کا ضمنی فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔اس گوریلا جنگ کو محدود رکھنا ممکن نہیں تھا، جہاد کا نعرہ ایک حقیقت تھا کہ افغانستان روسی جارحیت کا شکار ہوا، جن کی مدد کرنا ہمارا شرعی اور اخلاقی فرض بھی تھا ۔ ویسے بھی جہاد کے بیانیہ کے بغیر اتنی بڑی، موثر اور بھرپور جنگ لڑی نہیں جا سکتی تھی، جس سے روسی فوجوں کو زخموں سے چور کر واپس بھیجا جا سکے۔ یہ سب کچھ البتہ اس لئے سمیٹا نہیں جاسکا کہ سپہ سالار جنرل ضیا ء الحق تھا، جسے روسی فوجوں کی واپسی کے فوراً بعد ہی نشانہ بنا دیا گیا، ورنہ اگر وہ ہوتا تو شائد بعد کا منظرنامہ مختلف ہوتا۔ بعد میں ہمارے اداروں کو بھی ویسی اہلیت کی قیادت نہیں ملی، جیسا کہ افغان جہاد کے دوران میسر تھی۔ البتہ اس حکمت عملی کو مقبوضہ کشمیر میں دہرانا غلط تھا کہ وہاں پر پاپولر سول موومنٹ اٹھانے کی ضرورت تھی۔‘‘
ہر کامیابی اور ناکامی کی کچھ وجوہ ، محرکات اور اسباب ہوتے ہیں۔ جہاد افغانستان کے حوالے سے جو غلطیاں ہوئی، ان کا ذمہ دار کوئی ایک فرد یا ادارہ ہے یا نوے کے عشرے کی سول ملٹری قیادت ... یہ ناکامی بہرحال ریاست پاکستان کے کھاتے میں لکھی گئی کہ ایک کام شروع کیا اور پھر اسے اچھے طریقے سے فنش نہیں کیا۔دو تین غلطیاں ایک ساتھ ہوئیں۔ ایک تو بیرون ملک سے آکر لڑنے والوں، خاص کر عربوں، چیچن، ازبک وغیرہ کو واپس نہیں بھیجا گیا۔ دوسرا جو لوگ جہاد افغانستان میں مصروف رہے یا روسی افواج کی واپسی کے بعد کے برسوں میں افغانستان جاتے رہے، ان پر بھی نظر نہیں رکھی گئی۔ جنہوں نے جوش جہاد میں اپنی ملازمتیں، تعلیم وغیرہ چھوڑ دیں، انہیں دوبارہ سے معاشرے کا حصہ بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔
ان سب سے زیادہ اہم فیکٹر جہاد افغانستان سے ٹرینڈ ہونے والی جہادی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر کے وار تھیٹر میں جھونک دینا تھا۔ حرکت الجہاد الاسلامی، حرکت المجاہدین اور پھر ان دونوں کے ادغام سے بننے والی حرکت الانصار ہو، کشمیریوں کی سب سے پرانی جہادی تنظیم حزب المجاہدین ، اس سے پھوٹنے والی البدر، سلفی جنگجوئوں پر مشتمل لشکر طیبہ یا نائن الیون سے سال ڈیڑھ پہلے بننے والے جیش محمد... یہ سب جہادی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر کی مسلح جدوجہد میں مختلف مراحل کے دوران شامل کی جاتی رہیں۔ یہ سب کچھ ہوتے رہنے دیا 
گیا، کسی نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ نہیں سوچا کہ ابھی جہاد افغانستان والا پنڈورا باکس تو بند نہیں ہوسکا، ایک اور پنڈورا باکس کھول رہے ہیں، اس قدر پھیلے ہوئے سامان کو کون سمیٹے گایعنی ان گنت جہادیوں کو بعد میں کون سنبھالے گا؟ایک بار پھر واضح کر دوں کہ میرے نزدیک کشمیر ایک اَن فنشڈ ایجنڈا ہے۔ کشمیریوں کے حق استصواب رائے کی ہمیں ہمیشہ حمایت کرنی چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارتی ظلم واستبداد کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست ہے ، مگر جہاد کی جو شرعی پابندیاں اور حدود وقیود ہیں، وہ ہر صورت میں سامنے رکھنی چاہیے تھی۔ انفرادی یا کسی گروہ اور تنظیم کی سطح پر جہاد نہیں ہوسکتا، ریاست کے نظم کی منظوری لازم ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ڈسپلن میں ہونا چاہیے ،ورنہ اس سے مسائل جنم لیتے اورمعاملات بری طرح الجھ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا ہی ہوا۔ میرے جیسے رائٹ ونگ کے لکھاری ان جہادی تنظیموں کو گلوری فائی کرتے رہے، جنگجوئوں کے قصیدے گاتے ، لکھتے رہے۔ ایک وقت آیا جب بدلتے حالات میں یہی جنگجو ریاست کا گلا کاٹنے پرتل گئے ، انہیں سمجھانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں۔ اب جب کہ سب کچھ آشکار ہوچکا ، ہمیں بھی اپنی غلطی مان لینا چاہیے۔ جو غلطیاں ہوئیں، ان پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔جہاد صرف ریاست اور ریاستی فوج ہی کا کام ہے۔ پاکستانی فوج جیسے منظم اور پروفیشنل ادارہ کے ہوتے ہوئے ویسے بھی بے قاعدہ گروپوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ماضی میں جو ہوا ، سو ہوا، اب اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔یہ اہم ترین بات مگر سمجھنا ہوگی کہ اس بکھرے ہوئے پنڈورا باکس کو نہایت سلیقے اور دانش مندی سے سمیٹا اور بند کیا جائے۔ جن لوگوں نے ہمارے جہادی بیانیہ کی خاطر اپنی زندگیاں صرف کر دیں، اپنی تعلیم،کیرئیر دائو پر لگا دئیے، انہیں دوبارہ سے معاشرے کا حصہ بنانے کے لئے ہمیںان کا ساتھ دینا ہوگا۔ پکڑ دھکڑ کے بجائے انہیں روزگار فراہم کیا جائے، انہیں باعزت، محفوظ واپسی کا راستہ دینا ہوگا۔ اس کے بغیرعجلت میں کوئی قدم اٹھا لینا نئے مسائل کھڑے کر دے گا،جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں