ہرٹاسک اپنی جگہ اہم ہوتا ہے

ایک دو دن پہلے ایک دوست نے دلچسپ ٹیکسٹ میسج بھیجا۔ لکھتے ہیں:'' پاکستان کا کوئی کچھ نہیں کر سکتا،یہاں آوے کا آوا بگڑچکا ہے، ڈاکٹر ہسپتالوں میں ٹھیک کام نہیں کررہے ، مریض جا کرذلیل وخوار ہو رہے ہیں، مگر درزی روزانہ بیٹھ کر سوٹ سیتے رہتے ہیں۔‘‘میسیج پڑھ کر چکرا گیا کہ ا س کیا مطلب نکالا جائے۔ میسیج بھیجا کہ بات کی وضاحت کریں۔ جوابی میسیج آیا:''اس میں نہ سمجھنے والی کیا بات ہے۔انجینئر حضرات نالائقی کا مظاہرہ کرر ہے ہیں،پل اور سڑکیں درست طریقے سے نہیں بن رہیں، روزانہ کوئی نہ کوئی کرپشن سکینڈل سامنے آ رہا ہے، مگر ٹیچر ہیں کہ متواتر سکولوں میں پڑھانے پہنچ جاتے ہیں، جس کسان کو دیکھو وہ اپنی فصل کاشت کرنے، اس کی دیکھ بھال میں لگا ہوا ہے،اسے یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ فی ایکڑ پیداوار اچھی ہوجائے۔ آپ خود ہی بتائیں کہ ملک اس طرح کیسے چل پائے گا؟‘‘ان دونوں میسجز کوپڑھ کر ہکا بکا رہ گیا ۔ پریشانی سے انہیں ٹیکسٹ کیا کہ بھائی صاحب! خدانخواستہ کہیں ٹھنڈی ہوا تو دماغ پر اثر انداز نہیں ہوگئی ۔ ان بے ربط میسجز کا کیا مطلب ہے۔ اس پربڑے مزے سے موصوف نے جواب دیا کہ آج کل ایسی ہی دلیل اور منطق کا راج ہے، اس لئے اسے کسوٹی مان کر ہی اب مکالمہ آگے بڑھا کرے گا۔اگلا میسج زیادہ واضح تھا، لکھتے ہیں،''بھائی جب ہمارے سائنس دانوں کی نااہلی کا طعنہ دینی علوم کے ماہرین کو مل سکتا ہے، ٹیکنالوجی میں مغرب سے پیچھے رہ جانے پر یہ دلیل بطور الزام دی جاتی ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی، امریکی سائنس دان مریخ کو تسخیر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ، گریوی ٹیشنل ویو جانچی جا چکی ہے، مگر ہمارے مولوی حضرات آج بھی مسجدوں میںبیٹھے فقہی مسائل پر مباحث کرر ہے ہیں، جزئیات کے حوالے سے بال کی کھال اتاری جاتی ہے وغیرہ وغیرہ ... جب یہ دلائل دئیے جا سکتے ہیں تو پھر ڈاکٹروں کی نااہلی پر درزیوں کو طعنہ بھی دیا جا سکتاہے، انجینئروں کے ٹھیک کام کرنے کی ذمہ داری کسانوںپر عائد کیوں نہ کی جائے؟‘‘
یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ اس قسم کے بچکانہ موازنے اور بلا جواز تجزیے ہم بھی بلاسوچے سمجھے کرتے رہے ہیں۔ وجہ سادہ سی ہے کہ بعض چیزیں ان فیشن ہوتی ہیں، ان پر تنقید کرنا پاپولر ٹرینڈ بن چکا ہے۔ جیسے مولوی ہمارے ہاں ایک پنچنگ بیگ کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا جی چاہے، چلتے پھرتے دو چار صلواتیں ان کی طرف لڑھکا دیتا ہے۔مولوی کی شکل دیکھتے ہی ہماری حس ظرافت پھڑکنے لگتی ہے۔کوئی بھی مزاح نگار ہو، شاعر، کارٹونسٹ یا تھیٹر کے جگت باز... مولوی غریب سب سے آسان ٹارگٹ ہے،جس کا جی چاہے، اس کی پگڑی اچھا ل دے، ٹوپی اتار کر پیر تلے دے ڈالے۔ایک عرصے سے ہم پڑھتے اور سنتے آئے ہیں، کئی بار لکھا بھی دیا ہوگا کہ جب بغداد پر ہلاکو خان نے قبضہ کیا توشہر کے علما کرام میں اس پر مباحثہ ہو رہا تھا کہ مچھر کا خون کپڑوں پر لگ جائے تو نماز پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں۔ یہ بات اس انداز میں لکھی جاتی ہے،جیسے بغداد کی شکست وفتح کا تمام تر دارومدار اسی بات پر تھا۔ اگر علما کرام آپس میں یہ بحث نہ کرتے تو شائد ہلاکو خان کے لشکری ڈر کر واپس چلے جاتے۔ اس پرہم کبھی غور نہیں کرتے کہ بغداد کا دفاع بنیادی طور پر فوج نے کرنا تھا، مسجدوں اور مدارس میں زندگیاں بسر کرنیوالے دینی طلبہ اور علمامنگول لشکر سے کس حد تک مقابلہ کر سکتے تھے؟ بغداد کی شکست کے ذمہ دار اور اسباب بالکل واضح تھے۔ خلیفہ پرلے درجے کا نااہل اور عیاش تھا، سب کچھ اس نے اپنے وزیراعظم پر چھوڑا ہوا تھا، جس نے اپنے شہر اور مملکت کا دفاع کرنے کے بجائے ہلاکو خان کو بغدادپر حملے کی دعوت دی، خفیہ خط بھیج کر سلطنت کی کمزوریوں سے اگاہ کیا ا ور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلیفہ کو مشورہ دیا کہ اخراجات گھٹانے کے لئے فوج کو کم کر دیا جائے، یوں نصف سے زیادہ بلکہ تین چوتھائی تک فوجیوں کو برطرف کر دیا گیا، حالانکہ منگول حملے کے پیش نظر مزید فوجی بھرتی کرنے اور اسلحہ تیار کرنا چاہیے تھا۔ جس ملک کا وزیراعظم ہی دشمن سے مل جائے تو اسے شکست ہی ہونا ہے۔ہم لوگوں نے تاریخ کے اس سادہ سبق کو یاد رکھنے کے بجائے ۔سقوط بغداد کو دینی طبقے کے خلاف ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا۔ 
آج کل ہمارے ہاں پھر اسی قسم کے بے بنیاد دلائل اور مضحکہ خیز موازنے کا رواج عام ہو رہا ہے۔ایسے بزعم خود دانشوروں،قلم کاروں اور تجزیہ کاروں کی کمی نہیںجو غصے سے لال پیلے ہو کر، منہ 
سے جھاگ اڑاتے ہوئے ہم پاکستانیوں پر لعن طعن کرتے اور اپنے ناپسندیدہ طبقات پر زہریلے جملوں کے کوڑے برساتے ہیں۔انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہر ایک کا اپنا کام ہے۔ ڈاکٹر کا کام درزی نہیں کرسکتا ، انجینئر کی ذمہ داری کسانوں نے پوری نہیں کرنی، اسی طرح سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میںاگر ہماری کامیابیاں زیادہ نہیں،نت نئی ایجادات میں ہمارا حصہ کم ہے تو اسکی ذمہ داری دینی طبقے پر نہیں۔ وہ اپنا کام کر رہے ہیں، انہیں وہی کرنا چاہے۔ دینی علوم، فقہ کے مسائل سلجھانا، ان پر غورکرناہی ان کا کام ہے۔ان کا کام گریوی ٹیشنل ویو کی جانچ کے آلات بنانا نہیں، کوانٹم فزکس کی باریکیوںمیںدماغ کھپانا ان کے فرائض منصبی میں شامل نہیں۔اسی طرح آپریشن ضرب عضب کے جاری رہنے کے دوران ہی کرکٹرز کا کام کرکٹ کھیلنا ہی ہوگا،وہ سپرلیگ ہی کھیلیں گے، دہشت گردوں کا صفایا کرنا ان کا کام نہیں۔ ہر ایک اپنا کام اچھے طریقے سے کرتا رہے تو ملک وقوم کے آگے بڑھنے کا سفر جاری رہے گا۔
یہ تمام شعبے اور طبقات ریاست کے مختلف اجزاہیں،ایک اچھی منتخب حکومت ریاستی پالیسیاں ترتیب دیتی اور ان تمام شعبوں پر نظر رکھتی، ہر ایک کے مسائل حل کرتی اور آگے بڑھنے کالائحہ عمل تشکیل کرتی ہے۔اسے صحت کے شعبے کا خیال رکھنا ہے، شہریوں کے لئے تعلیمی نظام کو درست کرنا، سائنسدانوں کیلئے کام کرنے کاماحول بنانا اورکسانوں کی بہبود کو سامنے رکھنا ہوگا۔ یہ سب کام ریاست بیک وقت کرتی ہے۔ ایسا نہیں کہ ایک کام کرے اور باقی چھوڑ دے۔ ریاست کو ملٹی ٹاسک ورکنگ سیکھنا پڑتی ہے۔ شہریوں کی اخلاقی حالت بہتررکھنا، سماج کے بنیادی فیبرک کو درہم برہم نہ ہونے دینا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ صرف غربت دور کرنے میں لگی رہیے اور بچوں کے لئے تعلیم کا نظام ہی نہ بن پائے۔ کسان خوشحال ہوجائیں ،مگر لا اینڈآرڈر بگڑ جائے۔ ریاست خوشحال ہوجائے ،مگر لوگوں کی اخلاقی حالت بگڑ جائے، ایسا نہیں ہونا چاہییے۔ ریاست کو ایک ہی وقت میں ہر چیز پر نظر رکھنی پڑتی ہے ۔اگر ریاست یہ سمجھے کہ بسنت کا تہوار لوگوں کی جانیں لے رہا ہے تو اس پرپابندی لگانا پڑتی ہے، ویلنٹائن ڈے سے خرابیاں جنم لینے، ردعمل پیدا ہونے کا خطرہ ہے تو اس پر بھی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ ایسے میں یہ دلیل یا الزام بیکار ہے کہ غربت بہت زیادہ ہے، بچے بھوکے مر رہے ہیں، عورتیں خودکشیاں کر رہی ہیں اور ریاست ویلنٹائن پر پابندی لگا رہی ہے۔ لااینڈ آرڈر ٹھیک کرنا، غربت کی سطح کم کرنا، بچوں کو بچانا، خودکشیوں کی تعداد کم کرنا اور اس جیسے لاتعداد کاموں پر غورکرنا، ان مسائل کا حل نکالنا ریاست کے مختلف شعبوں کی ذمہ داری ہے۔ ہر ایک اپنا کام کرتا کرے تو معاملات چلتے رہتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہوتاکہ ایک دو یا تین چار شعبے ٹھیک کام نہیں کر رہے تو باقی شعبوں کو بھی تباہ ہوجانے دینا چاہیے۔ اخلاقی حالت سدھارنا بھی اتنا ہی اہم کام ہے، جتنا شہریوں کے دوسرے مسائل دور کرنا۔ ہمیں معاملات خلط ملط نہیں کرنے چاہئیںاو ر سادہ باتوں کو اپنی پسندناپسند کے چکر میں الجھانا نہیں چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں