سید عباس اطہر صاحب سے میری پہلی ملاقات 2005ء میں ہوئی۔ میں اس وقت ایک قومی روزنامہ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر ایڈیٹوریل کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ انہیں اپنے کالم کے لیے انٹرنیٹ سے کچھ مواد کی تلاش تھی۔ میں نے ان کی ضرورت کے مطابق وہ مواد تلاش کیا اور ترجمہ کر کے بھیج دیا۔ اس کے بعد سلسلہ چل نکلا۔ یہ تعلق زیادہ مضبوط اس طرح ہوا کہ ایک روز انہوں نے اپنے کالموں کی کتاب چھاپنے کی خواہش کی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ان کے پاس یہ کالم محفوظ نہیں ہیں۔ان کی خواہش تھی کہ میں 1996ء سے 2005ء تک کے شائع شدہ کالم اخبارات سے تلاش کروں تاکہ انہیں جمع کر کے کتابی شکل دی جا ئے۔ یہ انتہائی محنت طلب کام تھا، لیکن اُن کا خیال تھا میں یہ کام کر سکتا ہوں۔ میں نے ہامی بھر لی۔ جون کا مہینہ تھا۔ میں دفتر پہنچنے کے وقت سے چار گھنٹے پہلے گھر سے نکلتا۔ پنجاب پبلک لائبریری پہنچتا‘ اخبارات کی فائلیں کھنگالتا‘ کالم والے صفحے الگ کرتا‘ ان کی فوٹو کاپی کرواتا اور وہاں سے دفتر پہنچ جاتا۔دفتر سے واپسی پر کالموں کی ترتیب لگاتا اورکمپوزنگ کے لیے دے دیتا۔ اس کے بعد کمپیوٹر آن کر لیتااور ایک دن پہلے کمپوز کئے ہوئے کالموں کی غلطیاں درست کرنے میں رات گئے تک مصروف رہتا۔ اگلے روزپھر یہی مشق شروع ہو جاتی۔ گرمیوں کے جاتے جاتے یہ کام بھی اختتام کو پہنچ گیا۔ کالموں کی دو بھاری بھر کم فائلیں تیار کر کے میں نے شاہ جی کو پیش کر دیں۔ شاہ جی نے فائلیں دیکھیں تو خوشی سے لبریز لہجے میں کہا۔ ’’تم نے میری زندگی سمیٹ کر میرے سامنے رکھ دی ہے‘‘۔ یہ ایک جملہ ہی میری محنت کا ثمرتھا۔ جولائی 2008ء میں شاہ جی نے مجھے اپنے صحافتی ادارے سے منسلک کر لیا۔ ایڈیٹوریل سیکشن میں اس گھنے درخت کی چھائوں تلے یہ خوشگوار سفر شروع ہوا اور گزشتہ برس مئی میں میرے روزنامہ ’’دنیا‘‘میں آنے تک جاری رہا۔ ایک ہی چھت تلے دس بارہ گھنٹے ایک ایسے شخص کے ساتھ گزارنا میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا جسے دنیا صحافت کے لیجنڈ کے طور پر جانتی ہے۔ ایک روز کہنے لگے: ’’تم پہلے اخبارات میں گاہے بگاہے کالم لکھتے رہے ہو‘ یہاں کیوں نہیں لکھتے؟‘‘ میں ابھی خاموش تھا کہ انہوں نے قلم تھاما اور ایک سفید کاغذ پر کچھ لکھنے لگے۔ اپنے مخصوص سٹائل میں وہ بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلیوں کو اپنی گھنی بھنوئوں پر پھیرتے ہوئے کچھ لکھتے رہے۔ چند منٹ بعد انہوں نے وہ کاغذ میرے سامنے رکھ دیا۔اس پر تین لفظ لکھے تھے ’’ کل اور آج‘‘۔ انہوں نے میرے کالم کا نام تجویز کر دیا تھا۔ انکار کی اب گنجائش نہ تھی۔ 26اگست 2008ء کو ان کی زیرِ ادارت اخبار میں میرا پہلا کالم ’اقتدار کا کھیل‘ شائع ہوا۔ چند ہی ماہ بعد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے میرے ایک کالم پر از خود نوٹس لیا تو بے حد خوش ہوئے اور اس نوٹس کی خبر اپنے ہاتھ سے بنا کر نیوز روم میں بھجوادی۔ شاہ جی کے ساتھ پانچ سالہ رفاقت میں مجھے ان کے کئی روپ دیکھنے کا موقع ملا۔ ہر روپ انتہائی شاندار اور بے مثال ! وہ دھیمے مزاج کے انسان تھے ، بات بہت گہری کرتے ۔ ان کی اخباری سرخیوں‘ جملوں اور کالموں کی کاٹ سب سے جدا تھی۔ کم سے کم الفاظ میں کسی بڑے واقعے کو اس خوبصورتی سے سمو دیتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر انہوں نے بہت دلیرانہ موقف اختیار کیا۔ بہادر اتنے کہ فون پر دھمکیاں ملتیں تو جواب میں کہتے کہ میں دوپہر کو اتنے بجے گھر سے نکلتا ہوں‘ فلاں جگہ سے نہر کا راستہ اختیار کرتا ہوں اور فلاں چوک سے ہوتا ہوا دفتر پہنچ جاتا ہوں ‘ اگر میری موت تمہارے ہاتھوں سے لکھی ہے تو مجھے مرنا قبول ہے ،ڈر کر زندگی گزار نہیں سکتا اور سکیورٹی مجھے قبول نہیں۔ شاہ جی کا اللہ پر بھروسہ اور بے باک انداز دیکھ کر ہم سب کو حوصلہ ملتا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے انہیں عشق تھا، لیکن کھری بات ان کے سامنے کرنے سے بھی نہیںڈرتے تھے۔ ان کا خیال تھا بھٹو صاحب کو چند برس اور مل جاتے تو اس ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا۔ ضیاء الحق نے نوے روز جس طرح گیارہ برس تک طویل کر لیے اور اسلام کا نام لے کر ملک کو جس طرح تباہ کیا‘ اس کا اظہار وہ اپنے کالموں میں کرتے رہتے۔ جس رات بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی ‘ شاہ جی نے وہ رات جیل میں گزاری۔ رہا ہوئے تو آٹھ برس کے لیے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ 88ء میں امریکہ سے لوٹے تو دوبارہ صحافت سے منسلک ہوگئے۔ طویل رخصت کے بعد اس تیز گام میدان میں دوبارہ نام بنانا آسان نہ تھا۔ لیکن اپنے مخصوص سٹائل اور محنت کی بدولت کامیاب ٹھہرے۔ پانچ برس کے دوران میں نے ان کا کوئی دشمن نہیں دیکھا۔ بیوائوں‘ غریبوں اور مسکینوں کی مددکر کے خوشی محسوس کرتے۔ کوئی انجان بھی کوئی کام لے کر آتا‘ کسی کے بیٹے کو پولیس ناجائز پکڑ لیتی یا کسی کی زمین پر قبضہ ہو جاتا تو یہ نہ دیکھتے کہ یہ ہے کون۔ فوراً عینک لگاتے‘ فون اٹھاتے اور رپورٹر‘ متعلقہ محکمے یا افسر کو مسئلہ حل کرنے کا کہتے اور حل کروا کر دم لیتے۔ 27دسمبر2011ء کو محترمہ بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی تھی۔ 15دسمبر کو خواہش کی کہ کیا محترمہ پر لکھے گئے ان کے کالموں کی الگ کتاب بن سکتی ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ 27دسمبر سے پہلے یہ چھپ کر برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش پہنچ بھی جائے؟ دو تین بڑے پبلشرز سے رابطہ کیا لیکن اتنے کم وقت میں چھاپنے کو کوئی تیار نہ تھا۔ میں نے عرض کی اگر آپ مجھے صرف چار روز دے دیں تو میں یہ کام کر سکتا ہوں۔ مسکرا کر بولے۔’’ کوشش کر کے دیکھ لو‘‘۔ میں نے دفتر سے چار چھٹیاں لیں۔ لیپ ٹاپ‘ پرنٹر اور بستر پکڑا اور اُردو بازار پہنچ گیا۔ پیر سے جمعرات میں اُردو بازار اور پرنٹنگ پریس کے درمیان شٹل کاک بنا رہا۔ جمعرات کی رات میں نے شاہ جی کی خدمت میں چھپی ہوئی کتاب پیش کر دی۔ مجھے افسوس ہے کہ شاہ جی کی ایک خواہش اُدھوری رہ گئی۔ زندگی کے قافلے سے بچھڑ جانے والوں پر انہوں نے جو کالم لکھے‘ وہ ان کی علیحدہ کتاب چھاپنا چاہتے تھے۔ 2012ء میں، میں نے وہ 41کالم علیحدہ کر کے شاہ جی کے سامنے رکھ دئیے جو صحافی دوستوں‘ سیاستدانوں ‘ عالمی لیڈروں اور مشہور شخصیات کی اموات پر لکھے گئے تھے۔ یہ کتاب ٹائٹل کے انتخاب کے مرحلہ سے گزر رہی تھی کہ سرطان کا مرض انہیں برطانیہ لے گیا۔ تین ماہ وہاں زیر علاج رہے۔ واپسی پر وقفے وقفے سے کئی بار ہسپتال داخل ہوتے رہے۔یوں صحت کی خرابی کی وجہ سے یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ ان تمام کالموں کی کتابت شدہ فائل ابھی تک میرے پاس موجود ہے۔ موت کی حقیقت کے حوالے سے شاہ جی نے اس کتاب کا انتہائی دردناک پیش لفظ لکھا ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’ حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’اگر کوئی تم سے پوچھے کہ زندگی کیا ہے تو اپنی ہتھیلی پر تھوڑی سی خاک رکھ کر پھونک سے اُڑا دینا‘‘۔یہ قول پڑھ کر یوں محسوس ہوا کہ مجھے اپنے سمیت ہر ایک کی زندگی کی حقیقت سمجھ میں آ گئی ہے… میں جو تھا اور میں جو ہوں، اس کی اوقات کیا تھی اور اب کیا ہے۔ بس اتنی ۔وقت کی ہتھیلی پر رکھی ہوئی تھوڑی سی خاک ‘جو پھونک سے اڑ جاتی ہے‘‘۔ کل جب میں نے شاہ جی کے انتقال کی خبر سنی تو ان کے ساتھ گزری ہوئی اپنی زندگی کے بہت سے اہم حصے فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے۔ وہ میرے اور میرے جیسے دوسرے بہت سوں کے دلوں میں اس وقت تک دھڑکتے رہیں گے جب تک ہم زندہ ہیں۔ہم نے انہیں دیکھا، سنا اور زندگی کا کچھ حصہ ان کی قربت میں بسر کیا۔ہمارے لئے یہی فخر کیا کم ہے ؟ شاہ جی کے دوست صحافی مرحوم فخر ہمایوں نے اپنی نظم ’’میرا مزار‘‘ میں اپنے غروب ہونے کی روداد اس طرح بیان کی ہے: یہیں کہیں اِک سیاہ شب میں مجھے خود اپنے ہی دوستوں نے لپیٹ کر مجھ کو‘ حسرتوں سے، بھرے کفن میں غسل مجھے دے کے آنسوئوں میں یہیں کہیں پر دبا دیا ہے‘ مٹا دیا ہے