کسی ملک پرایک رات دشمن نے حملہ کر دیا اور وہاں کے بادشاہ کو قید میں ڈال دیا ۔ ایک روز قیدی بادشاہ نے سوچا آخر اس سے ایسی کونسی غلطی ہوئی ہے جس کی وہ سزا کاٹ رہا ہے۔ اس دوران وہ ایک اور عجیب صورتحال سے دوچار ہو گیا۔ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا تو بادشاہ کو شاہی چاولوں کی خوشبو آنے لگتی۔ ایک دن بادشاہ بھوک سے بے حال تھا کہ اْسے وہی خوشبو آنے لگی۔اْس نے روشندان سے آواز دی ’’ اگر کوئی اللہ کا بندا اْس طرف ہے تو کچھ کھانے کو دے‘ مجھے سخت بھوک لگی ہے‘‘ قید خانے کے باہر ایک آدمی موجود تھا۔اْس نے کپڑے میں کھانا باندھا اور روشندان سے اندر پھینک دیا۔بادشاہ حیران رہ گیا کہ یہ تو وہی شاہی چاول ہیں جس کی خوشبو روزانہ اْسے تڑپاتی تھی۔بادشاہ نے پوچھا ’’اے مہربان ! تم کون ہو؟‘‘ آواز آئی ’’میں اِک فقیر ہوں اور بھیک مانگنے کیلئے یہاں بیٹھتا ہوں‘‘ بادشاہ نے حیرانگی سے پوچھا ’’ ایک فقیر کے پاس شاہی چاول... یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ فقیر نے بتایا ’’ وہ اس وقت جس دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اْس دیوار سے ایک نالی نکل رہی ہے جو محل کے شاہی باورچی خانے سے منسلک ہے۔ وہ روزانہ یہاں آتا ہے‘ اس نالی کے آگے ایک کپڑا باندھ دیتاہے جس کی وجہ سے بہہ کر آنے والا کھانا اور چاول اس کپڑے میں جمع ہو جاتے ہیں اور پانی آگے نکل جاتا ہے۔وہ یہ کھانا گھر لیجاتا ہے۔چاول الگ کر کے اْن کو دھوتا ہے اور چاولوں کو سکھا کر جمع کر لیتا ہے‘ خود بھی کھاتا ہے اور اردگرد کے غریبوں اور مسکینوں میں بھی بانٹ دیتا ہے‘‘ فقیر نے بتلایا کہ اب وہ مزید کھانا جمع نہیں کر پارہا کیونکہ اب بادشاہ بدل چکا ہے اور شاید وہ بچا ہوا کھانا پھینکنے نہیں دے رہا۔یہ سنتے ہی بادشاہ سمجھ گیا کہ اسے کس گناہ کی سزا ملی ہے۔فقیر نے بادشاہ سے پوچھاکہ وہ کون ہے اور یہاں کیوں قیدہے؟یہ سن کر بادشاہ کی آنکھیں بھیگ گئیں‘ آنسو صاف کرتے ہوئے بولا ‘ ’’ میں وہی بدنصیب بادشاہ ہوںجو نعمتوں کو ضائع کرتا تھا اور آج اس جرم کی سزا کاٹ رہا ہوں‘‘۔ یہ تو ایک بادشاہ کی بات تھی ‘ آج اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر شخص اللہ کی نعمتوں کو پائوں تلے مسلتا نظر آتا ہے۔ ہم لوگ صبح سے شام تک کام کرتے ہیں‘ کوئی نوکری کرتا ہے‘ کوئی کاروبار کرتا ہے اور کسی کو بغیر کچھ کئے ہی بہت کچھ مل جاتا ہے لیکن ہم سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے رزق کی بے حرمتی۔ ہم رزق کو بے دردی سے پامال کر رہے ہیں اور یہ کا م صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے ۔ آپ برطانیہ جیسے ملک کو ہی دیکھ لیں۔اکیلے برطانیہ میں ہر سال 1.2ملین ٹن کھانا ایسا ہے جو پلیٹوں میں بچارہتا ہے۔ آپ آسٹریلیا کو لے لیجئے۔ آسٹریلیا میں ہر سال 5 ملین آلو‘28لاکھ ٹماٹر‘ڈبل روٹی کے 70 لاکھ سالم ٹکڑے‘دہی کے بند13لاکھ ڈبے اور82 ہزار کیک کوڑے کی نذر کر دئیے جاتے ہیں۔ آپ امریکہ کو دیکھ لیجئے۔ امریکہ میں ہر سال 10بلین ڈالر کی خوراک ضائع کر دی جاتی ہے جبکہ اس ضائع شدہ خوراک سے 70کروڑ بھوکے پیٹ کی آگ بجھا سکتے ہیں اور آپ پاکستان کو دیکھ لیجئے۔آپ اپنا حال بھی دیکھ لیجئے۔ ہم شادیوں ‘ دعوتوں اور آئوٹنگ میں بے تحاشا کھانا ضائع کرتے ہیں اور اگر اس دوران کوئی غریب‘ کوئی بھوکا ‘کوئی سائل ہم سے کھانا مانگ لے تو ہم اُسے جھاڑ پلا دیتے ہیں‘ اسے ایک نوالہ تک دینے کو تیار نہیں ہوتے اور اُسے اس ’’گستاخی‘‘ کی خوب سزا دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان اور ان جدید ممالک میں ایک فرق ضرور ہے۔ ان ممالک میں ایسی کئی تنظیمیں اور ادارے بن چکے ہیں جو ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کا بچا ہوا کھانا ڈبوں میں پیک کرتے ہیں اور غریب لوگوں تک بھجوا دیتے ہیں لیکن اسلام کے دعوے دار ہم اور ہمارے علماء رزق کی حرمت کو صرف باتوںاور کتابوں تک ہی محدود رکھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں‘ اگر کافر کھانے کی قدر کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں اور ہم ایسے ادارے اور ایسے گروپ کیوں نہیں بناسکتے جو ہوٹلوں‘ ریسٹورنٹس اور شادی گھروں سے بچا ہوا کھانا لیں‘ اسے صاف کریں‘ الگ الگ ڈبوں میں پیک کریں اور غریب لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ ماہِ رمضان شروع ہوچکا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب ہم‘ ہمارے وزیر‘ سیاستدان اور بیوروکریٹس شاہی قسم کی افطار پارٹیاں ارینج کرتے ہیں جبکہ ان شاہی پارٹیوں کے میزبان اور مہمان زیادہ تر بغیر روزے کے ہوتے ہیں۔ افطاری کروانا ثواب کا کام ہے لیکن جب ایک ایک افطاری پر لاکھوں روپیہ خرچ کر دیا جائے‘ جب سب کچھ دکھاوے کیلئے کیا جائے‘ جب درجنوں ڈشز کو چھوا ہی نہ جائے اور جب بہت سا کھانا پلیٹوں میں ہی ضائع ہو جائے تو یہ روزے کے ساتھ انصاف نہیں‘ یہ اُن غریبوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں جو افطاری کیلئے ایک کھجور‘ ایک سموسہ اور ایک گلاس شربت بھی افورڈ نہیں کر سکتے چنانچہ میری حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور اشرافیہ سے درخواست ہے کہ وہ اس رمضان کو الگ طریقے سے گزارنے کا فیصلہ کریں۔ یہ اعلان کر دیں کہ اس مرتبہ نمائشی افطارپارٹیوں کی بجائے غریبوں کیلئے لنگر چلائے جائیں گے‘ اپنے اپنے علاقوں میں سحری اور افطاری کا مفت انتظام کیا جائیگا اور اس مہینے کو غریبوں کی فلاح و بہبود کے نام کر دیا جائے گا۔ یقین کیجئے کہ اگر ہمارے حکمرانوں ‘ سیاستدانوں اور ہم نے دکھاوے کی یہ افطار پارٹیاں ترک کر دیں تو پھر رمضان کا مہینہ اور عید نہایت مختلف اور پر مسرت ہو گی۔ لیکن عام طور پر ہم اپنا چلن تبدیل نہیں کرتے‘ یہی وجہ ہے کہ جب ہم پر مصیبتیں آتی ہیں اور ہم طرح طرح کی آزمائشوں کا شکار ہو جاتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہماری مصیبت‘ ہمارے مسئلے کی وجہ کیا ہے اور ہم اس حال کو کیوں پہنچے۔ شاید ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب بادشاہ کی طرح ہم بھی کسی قید خانے میں پڑے ہوں اور ان کھانوں کی خوشبو ہمیں اُسی طرح تڑپا رہی ہو جنہیں ضائع کرنے میں ہم ذرا سی بھی شرم اور ندامت محسوس نہیں کرتے۔ کیا ہمیں واقعی اس دن کا انتظار ہے ؟