"ACH" (space) message & send to 7575

شکر ہے بچ گئے!

آپ نے الیکشن سے پہلے کا منظر بھی دیکھا اور بعد میںکیا ہوا، یہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ الیکشن میں تحریک انصاف کی صورت میں لوگوں کے سامنے بظاہر ایک صاف شفاف جماعت تھی‘ اگرچہ یہ ق لیگ اور دیگر جماعتوں کے سیاستدانوں کا ملغوبہ تھی، اس کے باوجود بہت سے لوگوں کے لیے یہ تبدیلی کا نشان تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں‘ ایک‘ یہ پہلے کبھی برسر اقتدار نہیں آئی تھی لہٰذا اس کی ماضی کی ناکامیوںپر انگلی اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ یہ تبدیلی کا نشان کیوں تھی‘ اس کی دوسری وجہ عمران خان کی شخصیت تھی۔ تحریک انصاف کی الیکشن مہم عمران خان تن تنہا چلا رہے تھے ۔انہوں نے بہت سے دلفریب وعدے کئے‘ چنانچہ لوگوں نے ان سے بھی امیدیں باندھ لیں تاہم الیکشن کے نتائج انتہائی مختلف نکلے۔یہ جماعت صوبہ خیبر پی کے میں تقریباًکلین سویپ کر گئی اور جس کے بعد جماعت کا اصل امتحان اور اصل کہانی شروع ہوئی۔ عمران خان نے تبدیلی پر مبنی آئیڈیل حکومت بنانے کا دعویٰ کیا‘ ساٹھ ستر روز گزر چکے لیکن تبدیلی یا آئیڈیل حکومت فی الحال تلاش گمشدہ ہیں۔ البتہ جو دل میں تھا وہ زبان پر ضرور آگیا اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے یہ کہہ کر تحریک انصاف کے چاہنے والوں کے دل چکنا چور کر دئیے کہ میں صوبے کو شہباز شریف کی طرح مثالی بنائوں گا۔ اس سے قبل مخدوم جاوید ہاشمی میاں نوازشریف کو اپنا لیڈر کہہ کر اپنے پرستاروں پر بجلیاں گرا چکے تھے۔ عمران خان کی تنقید کا دوسرا ہدف حکمرانوں کا پروٹوکول تھا۔ لیکن جب ان کے اپنے وزیراعلیٰ نے ہیلی کاپٹر استعمال کیا تو پرستاروں نے ایک بار پھر انگلیاں دانتوں میں دبا لیں اور عمران کو انہیں ڈانٹ کر دوبارہ اس عمل سے روکنا پڑا۔ عمران خان کا تیسرا نشتر حکمرانوں کے بیرونی دوروں پر چلتا تھا۔ وہ خود دو ہفتے سے برطانیہ کے دورے پر ہیں۔ پاکستانی عوام کے مسائل سے زیادہ اہم انہیں وہاں کون سی مصروفیات لے گئیں‘ اس کا اندازہ برطانوی شاہی فیملی کی تقریب میں ان کی شرکت سے ہو رہا تھا۔ مہنگے ترین لباس میں ملبوس شہزادہ چارلس کے ساتھ تقریب میں کھڑے وہ خود کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہے تھے۔ عمران خان کا چوتھا دعویٰ سخت ترین اپوزیشن کا تھا۔ وہ کہتے تھے مضبوط اپوزیشن‘ کمزور حکومت سے کہیں زیادہ مفید ہوتی ہے۔ درست‘ لیکن جناب وہ سخت ترین اپوزیشن ہے کہاں؟ یہ کیا سوچ رہی ہے اور یہ کب سامنے آئے گی؟ عوام کے ذہنوں میں اس کے علاوہ بھی بہت سے سوال کلبلا رہے ہیں۔عوام سمجھتے تھے ان کا لیڈر صحتمند ہوتے ہی اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچا دے گالیکن انہیں شاید اس سے زیادہ اہم کام ہیں۔ عمران خان نے پارٹی الیکشن میں غلطیوں پر معافی مانگ کر بہت اچھا کیا‘ انہیں چاہیے وہ الیکشن مہم کے دوران اپنے حریفوں کا جس طرح تمسخر اڑاتے رہے‘ ان سے بھی معافی مانگ لیں اور اسی سٹیٹس مین شپ کا مظاہرہ کریں جس کا اظہار میاں نواز شریف نے ہسپتال جا کر عمران خان کی عیادت کر کے کیا تھا۔ اب ہم موجودہ حکومت کی طرف آتے ہیں۔ یہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا تیسرا دور حکومت ہے۔ یہ درست ہے کہ اس حکومت کو مسائل ورثے میں ملے ہیں جیسے پیپلزپارٹی کو ملے تھے۔ لیکن ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں ایک بڑا فرق واضح ہے اور وہ فرق لیڈر شپ کا ہے۔ ن لیگ مضبوط لیڈر شپ کی بدولت کامیاب ہوئی جبکہ پیپلزپارٹی کو اقتدار ایک حادثے کی صورت میں ملا۔ اقتدار میں آنے کے بعد ن لیگ کے سامنے چار بڑے مسائل تھے۔ لوڈشیڈنگ‘ تباہ حال معیشت ‘دہشت گردی اور کرپشن۔ ان چاروں میں کرپشن کے بعد سب سے بڑا اژدہا لوڈ شیڈنگ کاتھا‘ یہ وہی اژدہا تھاجو پیپلزپارٹی کی رہی سہی ساکھ کو ہڑپ کر گیا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ جس گاڑی میں سوار ہوئی اس کی حالت ایسی تھی جیسے گاڑی کے کئی ٹائر پنکچر ہوں‘ پٹرول ختم اور ٹائی راڈ کھلنے والا ہو اور مسافر بس کے ڈرائیور سے امیدیں لگا رہے ہوںکہ وہ گاڑی کو تیز رفتاری سے بھگاتا ہوا منزل کی جانب لے جائے گا۔ جیسے خراب بس کو ٹھیک کئے بغیر چلانا ممکن نہیں‘ اسی طرح لوڈ شیڈنگ بھی چٹکی بجا کر ختم کرنا ممکن نہیں ۔ نعروں ‘ دعوئوں اور تنقید کا اپنا حسن اور اپنا مزا ہے لیکن اقتدار کے ایوانوں کی اپنی مجبوریاں اور اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا کی حکومت ملنے کے بعد یقینا اندازہ ہو گیا ہو گا کہ تنقید کے نشتر چلانا کتنا آسان اور گڈ گورننس کتنا کٹھن کام ہوتا ہے۔ چنانچہ ملک کی بہتری اور بھلائی کے لیے ضروری ہے کہ تحریک انصاف الزام در الزام کی بجائے اپنے صوبے کی بہتری کیلئے کام کرے اور مرکز سے تعاون کرے۔ جہاں تک بجلی کے بحران کا سوال ہے تو اس سے نمٹنے کیلئے سمت متعین ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں سولر سسٹم بینکوں کے ذریعے عام لوگوں کو قسطوں میں فراہم ہوتا ہے‘ اس عمل کا آغاز چند دن قبل پاکستان میں بھی ہو چکا ہے اور صرف ایک برس میں تمام بینک آسان اقساط میں سولر سسٹم فراہم کر رہے ہوں گے۔ توانائی کے دیگر متبادل ذرائع میں گنے کا پھوک اہم ترین ہے۔ سیکڑوں شوگر ملز ایسی ہیں جہاں گنے کا لاکھوں ٹن پھوک بچتا ہے جس سے بجلی بنائی جا سکتی ہے اور لاہور میں دو کارخانوں میں بنائی بھی جا رہی ہے۔ گنے کے رس کے اجزا کو فیول میں تبدیل کر کے برازیل میں پچاس لاکھ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ منصوبہ بھی حکومت کے زیر غور ہے۔ اسی طرح کوڑا کرکٹ‘ ہوا اور پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں پر تیزی سے غور جاری ہے۔ نندی پور پراجیکٹ میں لاگت کیوں بڑھی ‘ اس کی تفصیلات اور حکومتی موقف سامنے آئے بغیر میڈیا کا حکومت پر چڑھائی کرنا اس لیے مناسب نہیں کہ ن لیگ پیپلزپارٹی کے انجام سے آگاہ ہے اور یقینا ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی جس سے اس کی ساکھ پر حرف آتا ہو۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر حکومت کوئی انرجی فنڈ قائم کرے گی تو عوام ہر سال ہزاروں روپے یو پی ایس اور بیٹریوں پر خرچ کرنے کی بجائے اس فنڈ میں دینے کو تیار ہوجائیں گے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو۔ رہا سوال تحریک انصاف اور اس کے محبوب قائد کا تو شکر اس بات پر کہ انہیں حکومت نہیں مل گئی وگرنہ خدانخواستہ جناب عمران خان کی کسی غلطی سے ملکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو جاتا تو موصوف تو اتنا کہہ کر پرسکون ہو جاتے کہ ’’یہ میری غلطی تھی ‘‘لیکن عوام اور ملک کا کباڑا ہو جاتا۔ شکر ہے بچ گئے! ورنہ یہ ملک بار بار غلطیاں کرنے والوں کے حوالے کرنے کے بعد عوام کو پچھتانے کا موقع بھی نہ ملتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں