عید کے دن میرا کالم گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے بارے میں تھا۔ میرے کالم کا فوکس اُن کا عہدہ نہیں بلکہ ان کی چھ سو کنال پر محیط وہ پرتعیش رہائش گاہ تھی جو شہر کے وسط میں کروڑوں عوام کی غربت کا منہ چڑا رہی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص جو امریکہ یا یورپی ممالک جاتا ہے‘ واپسی پر وہاں کی ترقی اور سادگی کی تعریف ضرور کرتا ہے۔ وطن واپسی پر ہماری یہی خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ ہم وہاں دیکھ کر آئے ہیں ‘ وہ سب یہاں بھی نظر آئے۔ عوام کو علاج اور سفر کی جدید سہولیات میسر ہوں‘صاف پانی اور آلودگی سے پاک ماحول دستیاب ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکمران اور عوام ایک جیسی زندگی بسر کریں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں حکمران خصوصی طیاروں پر سفر نہیں کرتے‘ علاج انہی ہسپتالوں سے کراتے ہیں جہاں عام لوگ جاتے ہیں‘ قطار میں لگنا پڑے تو لگتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہ کہ ایسی پر تعیش رہائش اختیار نہیں کرتے جس کا بوجھ عوام اٹھاتے ہوں۔ میرا خیال تھا کہ گورنر صاحب میری اس ’’ہرزہ سرائی‘‘ پر مجھ سے ناراض ہوں گے لیکن جب انہوں نے مجھے عید سے اگلے روز گورنرہائوس میں یاد فرمایا تو میرا یہ وہم دور ہو گیا۔ گورنر ہائوس کے مال روڈ کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا تو ایک مرتبہ پھر وہی قد آور درخت ‘ قسم قسم کے پودے اور پھول قطار در قطار کھڑے تھے‘ جو ہر مرتبہ نظر آتے ہیں۔ اُداسی ہر طرف سے ٹپک رہی تھی۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔ یہ درخت‘ یہ پودے اور یہ پھول سرکار کے حصار میں قید تھے۔ سال ہا سال سے یہ عوام کے دیدار سے محروم تھے کہ یہاں ہر آنے والے کو خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ گورنر صاحب بڑے تپاک سے ملے ۔ ان سے گفتگو میں اہم نکات پر بات ہوئی۔ تعلیم کافروغ ان کی ترجیح تھی۔ انہوں نے بتایا لاکھوں بچے جو سکول نہیں جا رہے ‘ اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ مل کر وہ مکمل تعاون کریں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے پانچ سالوں میں ہر بچے کو سکول بھیجنے کا جو عزم کیا ہے اس سلسلے میں وہ عالمی اداروں کے ساتھ تعلقات استعمال میں لا ئیں گے ۔ انہیں آمادہ کریں گے کہ وہ پاکستان میں تعلیم کے میدان میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ تعلیم یافتہ پاکستان دنیا کے مفاد میں بھی ہے۔ تعلیم عام ہو گی تو دہشت گردی خودبخود کم ہوتی جائے گی اور دہشت گردی کم ہو گی تو دنیا بھر میں سکون آ جائے گا۔ہم پر دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کا جو لیبل ہے وہ بھی ہٹ جائے گا۔ تاہم گورنر صاحب یہاں کی بیوروکریسی کے بارے میں فکر مند نظر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک برطانوی پاکستانی تاجرپاکستان کے اٹھائیس دیہاتی سکولوں کی مالی سرپرستی کر رہا تھالیکن اب وہ ہاتھ اٹھانے کی سوچ رہا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ کبھی کوئی محکمہ آ کر تنگ کرتا ہے اور کبھی کوئی حصہ مانگتا ہے، ان حالات میں کوئی کیا کام کرے۔ گورنر صاحب نے کہا میں نے بڑی مشکل سے اسے سمجھایا ہے ‘ میں یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کروں گا لیکن اس قسم کے رویوں سے اوورسیز پاکستانی بد دل ہو جائیںگے۔ پہلے ہی پاکستان پر اس قسم کے الزامات ہیں کہ یہاں عالمی امداد خردبرد کرلی جاتی ہے ۔ کہنے لگے پاکستانی پریس میں مجھ پر جتنی تنقید ہوئی‘ وہ برطانیہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ مجھے برطانیہ میں ممبر پارلیمنٹ بننے سے روکنے کے لیے برطانوی اخبارات نے زبردست مہم چلائی۔ کسی اخبار میں ایک بھی خبر یا کالم میرے حق میں نہیں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ کوئی پاکستانی مسلمان برطانوی ایوان میں داخل ہو۔ انہوں نے بتایا کہ عراق پر حملے سے لے کر ڈرون حملوں تک‘ میں نے برطانوی ایوانوں میں آواز اٹھائی۔ حتیٰ کہ بوسنیا کے بے گناہ مسلمانوں پر ظلم کے بارے میں بھی میں نے سب سے پہلے صدائے احتجاج بلند کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب میرے خلاف ہو گئے لیکن میں نے پروا نہ کی۔چودھری صاحب نے بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ ایمرجنسی سروس گیارہ بائیس بلوچستان میں بھی شروع ہو۔ وہ اس سلسلے میں عالمی سرمایہ کاروں سے بات کر کے انہیں آمادہ کر چکے ہیں۔ اس سروس کا آئیڈیا انہی کا تھا جو کامیاب ہوا۔ اس کی کامیابی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ ہر اگلی حکومت آ کر اسے بند نہیں کر تی۔ آخری اہم نقطہ جو انہوں نے ڈسکس کیا وہ دہشت گردی کا تھا۔ ان کے خیال میں دہشت گردی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ اگر یہ حل نہیں ہو گا تو ملک میں نہ کوئی سرمایہ کار آئے گا نہ کوئی ترقیاتی کام ممکن ہو سکے گا۔ میرے استفسار پر انہوں نے کہا کہ گورنر ہائوس یقینا بہت بڑے رقبے پر محیط ہے لیکن اسے فروخت کر نا شاید بہت زیادہ آسان نہیں تاہم انہوں نے میری تجویز سرے سے رد نہ کی۔اس دوران چائے بھی ختم ہو گئی اور گورنر صاحب کے سامنے ایک چٹ لا کر رکھ دی گئی جس کے مطابق ان کی اگلی مصروفیت کا وقت ہو چکا تھا۔ یوں گورنر محمد سرور کے ساتھ ملاقات اختتام کو پہنچی۔ گورنر سرور اس ملک کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔اس میں سب سے اہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاونت ہے۔ اسلام آباد واقعہ میں جس طرح سکیورٹی کی خامیاں نظر آئیں اگر ان کو بنیاد بنا کر گورنر صاحب وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان سے ملیں اور اگریہ دونوں مل کر برطانوی حکومت سے دہشت گردی کے خلاف جدید تربیت ‘اسلحہ اور دیگر جدید سازو سامان کے حوالے سے بات چیت کریں اور اس کے بعد پاکستان میں ایسی خصوصی فورسز قائم کی جائیں جو ہائی جیکنگ سے لے کر بلیک میلنگ جیسے واقعات پر قابو پانے کی تربیت حاصل کریں‘ تو یہ ملک کی عظیم خدمت ہو گی۔ گیارہ بائیس سروس کے افسران اور اہلکاروں نے بھی برطانیہ سے تربیت حاصل کی تھی۔ اس کے لیے پہلا قدم چودھری سرور بڑھا سکتے ہیں۔ زمرد خان نے جس طریقے سے سکندر کو قابو کرنے کی کوشش کی‘ یہ طریقہ تب اختیار کیا جاتا ہے جب آپ کے پاس اسلحہ یا خصوصی فورس موجود نہ ہو۔ یہ ایسا ہی عمل تھا کہ جیسے گھر میں کوئی ڈاکو گھس آئے اور اس کو پکڑنے کے لیے اندھادھند چھلانگ لگا دی جائے۔سکندر جیسا واقعہ برطانیہ میں پیش آیا ہوتا تو سنائپزز چند ہی منٹ بعد گولیاں مار کر سکندر کی دونوں بندوقیں ہوا میں اڑا دیتے اور اسے ہاتھ ملنے پر مجبور کر دیتے۔ اس واقعہ کو پانچ گھنٹے طول میڈیا کی وجہ سے نہیں ملا۔ حکومت کو تو میڈیا کے ان کیمروں کا فائدہ اٹھانا چاہیے تھا کہ اگر یہ کامیاب ایکشن کرتی تو پوری دنیا میں اسے براہ راست پذیرائی حاصل ہوتی۔ حکومت جس قسم کا پلان کر رہی تھی اس میں سکندر کو کسی مکان میں لے جانا شامل تھا۔ اس کے بعد کیا ہوتا‘ وہ صرف حکومتی ترجمان سے پتہ چلتا۔ سچ شاید کبھی سامنے نہ آتا۔ چنانچہ میری گورنر سرورسے درخواست ہے کہ جس طرح کا شاندار کارنامہ انہوں نے گیارہ بائیس ایمرجنسی کے قیام کی صورت میں انجام دیا‘ اسی طرح کا کردار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاونت کی صورت میں بھی ادا کریں کیونکہ جو خواب آنکھوں میں سجا کر گورنر صاحب پاکستان تشریف لائے ہیں‘ ان کی تعبیر دہشت گردی کے خاتمے کے بعد ہیممکن ہو سکے گی۔