رات کے دس بجے تھے۔ میں نے مال روڈ سے گاڑی شاہراہِ ایوان صنعت و تجارت کی طرف موڑ دی۔ ایم ایم عالم کے جہاز کے قریب ٹریفک وارڈن نے دو موٹر سائیکلوں کو روک رکھا تھا۔ ایک پر دو نوجوان جبکہ دوسری پرایک فیملی سوارتھی۔ ایک خاتون شیر خوار بچے کو کمبل میں لپیٹے موٹر سائیکل کے ساتھ کھڑی ٹھٹھررہی تھی۔ تمام سگنل آف تھے۔ ٹریفک بھی خال خال تھی۔ ایسے میں ان سے کیا غلطی ہوئی ہو گی‘ یہ جاننے کے لیے میں نے گاڑی پارک کی اور خاموشی سے ان کے قریب آ کر یوں کھڑا ہو گیا جیسے بس کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں نے غور کیا‘ ٹریفک وارڈن معمول سے زیادہ سختی دکھا رہا تھا۔ اسی اثنا میں دوسرے موٹر سائیکل سوار نے وارڈن کی کسی سے فون پر بات کرادی جس کے بعد وارڈن نے انہیں جانے دیا۔ یہ دیکھ کر دوسرے شخص نے وارڈن کی منت کی کہ اس کے بچے کی طبیعت خراب ہو گئی تھی جس پر وہ اسے سرکاری ہسپتال لایا اور جلدی میں اس کا لائسنس گھر رہ گیا ۔ وہ فیملی کو چھوڑ کر فوراً واپس آ جائے گا اور اسے گھر سے لا کر لائسنس دکھا دے گا لہٰذا وہ اسے جانے دے۔وارڈن نے کہا تم چالان کروا لو اور گھر چلے جائو۔ تم اپنی مرضی سے رکے ہوئے ہو۔ جبکہ وہ شخص اسی نکتے پر اڑا ہوا تھا کہ جب اس نے اشارہ کاٹا، نہ کوئی اور جرم کیا تو پھر اسے کیوں روکا گیا چنانچہ وہ ہرگز چالان نہیں
کرائے گا۔وارڈن پر اس کی منت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اتنے میں سیاہ شیشوں والی ایک گاڑی قریب آ کر رکی جس میں اونچی آواز میں گانے لگے ہوئے تھے۔ تاہم وارڈن کو یہ گاڑی دکھائی دے رہی تھی نہ گانے سنائی دے رہے تھے۔ چند لمحوں بعد گاڑی سکریچ مارتی ہوئی نکل گئی۔ یہ دیکھ کر اس شخص کو غصہ آ گیا۔ اس نے وارڈن سے پوچھا کہ اس نے سیاہ شیشوں والی گاڑی کو کیوں نہیں روکا ۔ وارڈن بولا اگر وہ گاڑی کے کاغذات یا کوئی اور دستاویز رکھوا کر چالان نہیں کرائے گا تو وہ اسے موٹرسائیکل سمیت حوالات میں بند کرا دے گا۔ اس دوران میں بچے کی سانسیں اکھڑنا شروع ہو گئیں اور اس نے رونا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر بچے کا باپ جذباتی ہو گیا۔ بولا‘ اگر میرے بچے کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دارتم ہو گے۔ یہ دیکھ کر وہاں شور برپا ہو گیا۔ میں وارڈن کے قریب گیا اور اسے سمجھایا کہ وہ انہیں جانے دے تاہم اب وارڈن نے بھی اسے انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ وہ غالباً اپنے چالانوں کا ٹارگٹ پورا کرنا چاہتا تھا۔ اتنی دیر میں کچھ اور لوگ بھی وہاں رک گئے۔ وہ بھی وارڈن کو معاملہ رفع دفع کرنے کا کہنے لگے۔ دوسری طرف بچے کی والدہ بچے کو لے کر سڑک پر بیٹھ گئی ۔ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے وارڈن نے اسے موٹر سائیکل کی چابی تھمائی اوراپنی موٹر سائیکل پکڑ کر رفو چکر ہو گیا۔
جب میں گاڑی میں شادمان چوک پر پہنچا تو وہاں پر بھی یہی کچھ ہو رہا تھا۔ دو وارڈن مسجد کے قریب اندھیرے میں شکار کی تاک میں چھپ کر کھڑے تھے۔ جیسے ہی کوئی شخص اشارہ کاٹتا‘ وہ جھٹ سے سڑک کے درمیان آ جاتے اور اس کے بعد یہ دیکھے بغیر کہ یہ فیملی ہے یا بزرگ‘ اس کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ جبکہ ٹریفک کی روانی کی طرف کسی کی توجہ ہی نہ تھی۔ شادمان چوک اور جیل روڈ کے وارڈن ایسے کارناموں کے لیے مشہور ہیں۔ یہ بہت زیادہ اکڑنے والوں کو ہاتھوں ، لاتوں اور مکوں سے سبق تک سکھانے سے بھی باز نہیں آتے۔ کچھ عرصہ قبل جیل روڈ پر ہی ایک انٹرنیشنل فوڈ چین کے ملازم پر چھ سات وارڈن پل پڑے تھے۔ اسے اتنا مارا گیا کہ وہ شخص خون میں لت پت ہو گیا اور آئی سی یوتک پہنچ گیا لیکن ان وارڈنز کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی نہ باز پرس۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ٹریفک وارڈنز شیر کی حکومت آتے ہی اتنے شیر ہو گئے کہ انہیں اخلاقیات کا پاس رہا نہ بیماروں ‘ فیملیوں اور بزرگوں کا خیال۔
دیکھا جائے ‘ تو وارڈنز کچھ بھی غلط نہیں کر رہے۔ یہ وہی کر رہے ہیں جیسا وہ اپنے حکمرانوں کو کرتا دیکھ رہے ہیں۔ آپ بجلی کی مثال لے لیں۔ حکومت کو اقتدار میں آئے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ کیا اس عرصے میں حکومت کا نشانہ صرف غریب عوام نہیں بنے؟ حکومت نے آتے ہی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لیے ڈھنڈورا پیٹا کہ اب بلا امتیاز بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون ہو گا‘ لیکن ہوا کیا؟ یہ چھاپے اور یہ کریک ڈائون اس طبقے کے خلاف ہی رہا جس کے پاس رشوت تھی نہ سفارش چنانچہ بڑے بڑے مگرمچھوں کو جانے دیا گیا مگر چھوٹے دکانداروں اور عام رہائشیوں پر چن چن کر مقدمات بنائے جانے لگے۔ ستم یہیں تک محدود نہیں‘ سردیاں اپنے عروج پر پہنچے والی ہیں لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کے دبائو میں آکر سفید پوش اور غریب عوام کو دی جانے والی سبسڈی بھی واپس لے لی ہے جس کے بعد بجلی کے بلوں میں دوگنا اضافہ ہوگیا ہے۔پرانے ریٹس کے مطابق 300یونٹ تک بجلی کابل 2761روپے آتا تھا جو نئے ریٹس کے مطابق 4539 روپے آ رہا ہے۔ 1778روپے کا یہ 64فیصد اضافہ آئین کے آرٹیکل 25کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس سے کچھ لوگوں کو رعایت اور دوسروں کے ساتھ صریحاً زیادتی ہو رہی ہے۔ لیکن حکومت بھی ٹریفک وارڈنز کی طرح غریب عوام کو زدوکوب کرنے میں مصروف ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہی وہ انقلاب ہے جس کی بازگشت جناب نواز شریف اور شہباز شریف کی انتخابی تقاریر میں سنائی دیتی تھی اور کیا وارڈنز سے لے کر اعلیٰ ترین حکمران عوام سے اس مینڈیٹ کا بدلہ لے رہے ہیں جو انہوں نے 11مئی کو خطرات کے باوجود گھروں سے نکل کر مسلم لیگ ن کو دیا تھا؟
اس واقعے کے بعد جب میں نہر کے قریب پہنچا تو گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں‘ پندرہ منٹ بعد معلوم ہوا کہ شاہی سواری گزرنے والی ہے۔بیس منٹ تک ایمبولنسیں چیختی رہیںلیکن راستہ نہ ملا۔ اتنے میں ایک ادھیڑ عمر شخص گاڑی سے باہر نکلا اور وارڈنز سے الجھنے لگا‘کچھ دیر بعد واپس آیا اور اونچی آواز میں حکمرانوں کو صلواتیں سنانے لگا۔ اسے دیکھ کر موٹر سائیکل پر بیٹھے دو منچلوں نے آواز لگائی۔ شیر نوں ووٹ دِتا ای تے ‘شیر بن شیر...