رضا کھرل ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نواحی گائوں کا رہائشی تھا۔پچیس سال کا یہ خوبرو نوجوان بچپن سے ہی ذہین بھی تھا اور محنتی بھی۔ اپنے گائوں کا وہ واحد نوجوان تھا جو کالج تک پہنچا ‘ محنت کی اور اچھے نمبروں میں ایم کام کا امتحان پاس کر لیا۔ یہ نہ صرف اس خاندان بلکہ پورے گائوں کے لیے بھی اعزاز تھا۔گائوں حیران تھا کہ رضا‘ ڈھور ڈنگروں سے بچ کر کالج کیسے پہنچ گیا لیکن رضا کھرل کا اصل امتحان اب شروع ہوا تھا۔ اس کے بھائی‘ والد اور پورا خاندان کھیتی باڑی کرتا تھا، وہ سال بھر محنت کرتے‘ فصل اکٹھی کرتے اور اس فصل کو بیچ کر اپنا گزر بسر چلا لیتے۔ رضا کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ نوکری کرے اوراپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے۔ اس کے علاقے میں کئی فیکٹریاں تھیںاور ان فیکٹریوں میں ہزاروں ورکر کام کرتے تھے۔ ان میں اس کے گائوں کے بیسیوں افراد بھی شامل تھے۔ وہ چاہتا تووہ بھی صرف شناختی کارڈ بننے کا انتظار کرتا اور کسی فیکٹری میں پانچ چھ ہزار پر ملازم ہو جاتا لیکن اس نے بہترراستہ چنا تاکہ بہتر روزگار حاصل کر سکے۔ اس نے اپنا سی وی تیار کیا اور تمام فیکٹریوں کو بھیج دیا۔ وہ شہر بھی گیا اور وہاں بھی اپنی قسمت آزمائی۔ اس دوران وہ شہر میں کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر گزارا کرتا رہا۔ تاہم بے روزگاری نے اسے چڑچڑا کر دیا تھا۔ اب تو گائوں والے بھی اسے باتیں کرنے
لگے تھے۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ اپنی زمین کا ٹکڑا کاشت کرتا رہتا تاکہ دو وقت کی دال روٹی تو نصیب ہوتی۔ وہ اپنا زیادہ وقت اب انٹرنیٹ پر گزارنے لگا تھا۔ اس نے فیس بک پر اپنا پیج بھی بنالیا اور گھنٹوں اسے اپ ڈیٹ کرتا رہتا۔ وہ اتنا ناامید ہو چکا تھا کہ اسے ہر کسی سے نفرت ہونے لگی تھی۔ اپنے گائوں‘ اپنی تعلیم حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی ۔ اس کی فیس بک کی وال پر موجود مواد سے اندازہ ہو سکتا تھا کہ وہ معاشرے سے کتنا مایوس ہو چکا ہے۔18نومبر کو وہ گھر میں سویا ہوا تھا کہ پولیس آئی اور اسے گرفتار کر کے لے گئی۔اس کے خلاف تحریری درخواست جامعہ مسجد کے پیش امام نے دی تھی۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک کے اپنے پیج پر کچھ نازیبا کلمات لکھے تھے ۔پیش امام کی رسائی کمپیوٹر اور پھر فیس بک تک کیسے ہوئی‘ یہ ایک معمہ ہے تاہم پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295اے اور 298اے کے تحت مقدمہ درج کرکے رضا کھرل کو گرفتار کر لیا۔پولیس کا کہنا تھا کہ گرفتار نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے مگر ان دنوں روزگار کی تلاش میں تھا۔ اس نے علاقے کی ایک شوگر مل سمیت کئی
جگہ نوکری کے لئے درخواست بھی دی ہوئی تھی۔ اس واقعے کو دو ہفتے گزر چکے ہیں اور پولیس نوجوان کے خلاف انٹرنیٹ کے غلط استعمال پر ایسے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے پر غور کر رہی ہے‘ جو ابھی بنا ہی نہیں۔
یہ سچ ہے کہ رضا کھرل صرف ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہی نہیں‘ بلکہ ہر گھر میں ایک نہ ایک ایسا رضا کھرل موجود ہے جس نے ایم اے بھی کیا ہوا ہے اور جو اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہے۔ آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کے بھائیوں‘ کزنوں اور دوستوں میں بھی کوئی نہ کوئی رضا کھرل ہو گا‘ جس کے پاس ڈگری بھی ہو گی‘ جس نے بورڈ کے امتحان کے علاوہ بھی درجنوں قسم کے ٹیسٹ پاس کر رکھے ہوں گے اور جس کے والدین نے اپنے لعل کی تعلیم کے لیے اپنا گھر تک بیچ دیا ہو گا لیکن ایسے رضا کھرل اعلیٰ ڈگری‘ اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ نمبروں کے باوجود روزگار کے لیے روزانہ جوتیاں چٹخا رہے ہوں گے‘ یہ ایک ادارے سے دوسرے ادارے کے چکر لگاتے ہوں گے‘ اپنے سی وی ڈراپ کرتے ہوں گے لیکن کسی ادارے کے روزگار کی کھڑکی ان پر نہ کھلتی ہو گی چنانچہ مایوسی ان کو اچک کر ایسے رستوں پر ڈال دیتی ہو گی جہاں ایک طرف آگ اور دوسری طرف سمندر ہو گا۔ آپ خود ہی سوچئے‘ آج کل لفظ نوجوان کا وہی استعمال ہو رہا ہے جو کبھی روٹی‘ کپڑا اور مکان کا ہوتا تھا۔کتنے ہی الیکشن پیپلزپارٹی نے اس نعرے کی آڑ میں جیت لیے لیکن عوام کو روٹی‘ کپڑا اور مکان تو نہ ملا لیکن سیاستدان ارب پتی ضرور بن گئے۔ بالکل اسی طرح آج نوجوانوں کو کیش کیا جا رہا ہے‘ تحریک انصاف تو چل ہی اس ایجنڈے پر رہی ہے جبکہ نون لیگ نے دیکھا دیکھی اپنے بالوں پر خضاب لگانا شروع کر دیا ہے‘اس کے باوجود نوجوان وہیں کے وہیں ہیں ‘ ان کی حالت نہیں بدلی‘ یہ ابھی تک فیس بک سے کھیلنے اور اس پر اپنا غبار نکالنے میں مصروف ہیں۔ہم لاکھ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کو خرافات کہہ لیں‘ نوجوانوں کی منفی سرگرمیوں پر تنقید کر لیں لیکن کم از کم اس المیے کا بیک گرائونڈ بھی تو دیکھیں ۔ آپ مانیں نہ مانیں‘ آج جب کوئی نوجوان ڈاکٹر ‘ بزنس مین یا انجینئر بنتا ہے تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں‘ ایک‘ وہ ملک میں رہے۔ یہاں کے حالات سے سمجھوتہ کرے‘ بھتہ مافیا‘ لوڈشیڈنگ‘ دہشت گردی اور لا قانونیت کو تقدیر سمجھ لے اور اس کے بعد جو ہو‘ اس پر صبر شکر کر کے جینا شروع کر دے اور دوسرا راستہ وہی ہے جو اس وقت ہماری پڑھی لکھی کلاس کر رہی ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ہر دس میں سے آٹھ ڈاکٹر ملک چھوڑ چکے ہیں اور تین سو بڑی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور یہ لوگ اپنا کاروبار سمیٹ کر دبئی‘ بنگلہ دیش اور سنگا پور کا رخ کر چکے ہیں ۔
میں نہیں جانتا کہ رضا کھرل کا کیا بنا‘ اس پر مقدمہ جھوٹا تھا یا سچا اور کیا اس نے واقعی فیس بک پر کسی کی دل آزاری کی تھی یا نہیں۔لیکن مجھے اتنا علم ہے کہ رضا کھرل نے گیارہ مئی کو جنہیں اس ملک کی تقدیر سونپی تھی‘ اگر وہ لوگ نوجوانوں کے ساتھ واقعی مخلص تھے تو انہیں اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے نوجوانوںکے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے تھا اور اگر یہ جماعتیں اور یہ سیاستدان مستقبل قریب میں بھی نوجوانوں کا المیہ نہ سمجھ سکے‘ اگر انہیں ان کا حق نہ لوٹایا گیا تو پھر یہ لاکھوں کروڑوں رضا کھرل فیس بک تک محدود نہیں رہیں گے‘ یہ آگ کمپیوٹر سکرین سے باہر نکلے گی اور اس کے بعد اس کا رخ کس کی طرف ہو گا‘ یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔