عالمی جریدہ فوربز ہر سال دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست جاری کرتا ہے۔ اس سال میکسیکو کے کارلس سلم 73بلین ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں۔ کارلس سلم نے یہ ایمپائر ٹیلی کام کے شعبے میں کھڑی کی۔ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس 67بلین ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ وہ اس وقت مائیکروسافٹ کے چیئر مین ہیں‘ اپنی بیوی کے ساتھ مل کر دنیا کی سب سے بڑی چیریٹی تنظیم بھی چلا رہے ہیں اوریہ تنظیم دنیا میں تعلیم‘ صاف پانی اور غربت کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سپین کے آرٹیگا 57بلین ڈالرز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ یہ انڈیٹیکس فیشن گروپ کے بانی ہیں اور ان کی کمپنی کا برانڈ ''زارا ‘‘دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ فوربز کی لسٹ کے دیگر 1339افراد ایسے ہیں جن کے اثاثے ایک بلین ڈالر سے لے کر 53بلین ڈالر تک ہیں ۔ ان میں بزنس مین بھی ہیں ہیں‘ سرمایہ کار بھی اور ایسے عرب شہزادے بھی جو کچھ بھی نہیں کرتے لیکن ان کی دولت پھربھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ان چند عرب شہزادوں اور سرمایہ کاروں کو اگر ہم اس فہرست سے نکال دیں‘ تو باقی ماندہ افراد وہ ہیں جو کسی نہ کسی کاروبار سے منسلک ہیں‘ جنہوں نے کسی کھوکھے‘ کسی معمولی نوکری یا پھر صرف ایک آئیڈیے سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا‘ محنت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے کاروبار دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک تک پھیل
گئے۔ ان لوگوں میں مائیکروسافٹ کے بل گیٹس بھی ہیں‘ کے ایف سی کے ہیرلینڈ سینڈر ز بھی اور سام سنگ کے لی کون ہی‘ بھی۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس دنیا کاکلچر ہی تبدیل کر دیا۔ ان کے آئیڈیاز سے دنیا کے اربوں لوگوں کی سوچنے سمجھنے سے لے کر لکھنے پڑھنے اور کھانے پینے سے لے کر بن سنورنے کی عادات تک بدل گئیں۔ انہوں نے لوگوں کو تختی کی جگہ آئی پیڈتھما دیا‘ قلم کی جگہ کی بورڈ اور ٹچ سکرین متعارف کرا دی اور معلومات کے خزانے کے لیے انٹرنیٹ کی دنیا تخلیق کر دی۔ دنیا میں اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کی زندگی میں تبدیلیاں لانے والوں کے پاس بھی ہر انسان کی طرح دو ہاتھ ‘ دماغ اور دھڑکتا ہوا دل تھا لیکن آخر وہ کیا جادو تھا‘ وہ کون سے کمالات تھے جن کی بدولت انہوں نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی‘ یہ ایسا سوال ہے ‘ جس کا جواب ہر کوئی جاننا چاہتا ہے۔
کسی نے کہا تھا ''تم کسی شخص کی کامیابی کو پرکھنے کے لیے اس کی موجودہ پوزیشن اور حیثیت کو مت دیکھو‘ بلکہ ان رکاوٹوں کو دیکھو جن سے نمٹ کر وہ شخص کامیاب ہوا‘‘۔ فوربز کے مطابق 12ایسے کام ہیں جو تمام کامیاب افراد کرتے ہیں‘ ان 12 اصولوں پر عمل کرنے سے کوئی بھی انسان کامیاب لوگوں کی فہرست میں داخل ہو سکتا ہے؛ایک‘ کامیاب افراد ناکامی کو اُستاد مانتے ہیں۔ ناکامی سے سیکھتے ہیں اور اگلی مرتبہ اس غلطی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ پہلے کر چکے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر ناکامی بالآخر انہیں ایک قدم کامیابی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ دو‘یہ لوگ چھوٹے چھوٹے ہدف سیٹ کرتے ہیں۔ ایک ایک دن کی پلاننگ کرتے ہیں اور برسوں اور عشروں کی منصوبہ بندی سے گریز کرتے ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر جب مقاصد حاصل ہونے لگتے ہیں تو بڑے مقاصد کا حصول بھی
آسان ہو جاتا ہے۔ تین‘ یہ قسمت سے زیادہ جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں مسلسل اور درست خطوط پر کی جانے والی جدوجہد ہی اصل خوش قسمتی ہے اور جو شخص مسلسل محنت کا عادی ہو جائے اس کی قسمت سنور جاتی ہے۔ چار‘ کامیاب لوگ اپنی کارکردگی سے بے پروا نہیں رہتے ‘ وہ اپنی کارکردگی پر مسلسل نظر رکھتے ہیںاور جہاں کہیں خامی نظر آئے‘ اسے خوبی میں تبدیل کر لیتے ہیں۔پانچ‘ یہ لوگ رِسک لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے‘ وہ جانتے ہیں اگر وہ خطرہ مول نہیں لیں گے تو پھر ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ چھ‘ یہ لوگ چیزوں کو ماضی‘ حال اور مستقبل کو سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں ‘ چھوٹے چھوٹے نقطے ملاتے جاتے ہیں اور یوں ایک بڑی تصویر بنا لیتے ہیں۔سات‘ یہ لوگ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہیں‘ انہیں نکھارتے ہیں اور انہیں فیول کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی صلاحیت کا مالک ہوتا ہے‘ ضرورت صرف اسے ڈھونڈنے اور پالش کرنے کی ہوتی ہے۔ آٹھ‘ یہ لوگ جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں‘ علم اور عمل کے ملاپ کو ہی کامیابی کی کنجی شمار کرتے ہیں اور یوں ہر روز ایک میل زیادہ سفر طے کرتے ہوئے منزل کے قریب پہنچتے جاتے ہیں۔نو‘ یہ ہر وقت الرٹ رہتے ہیں‘ خاص طور پر اپنی ذات‘ اپنے ادارے اور اپنی مصنوعات کے بارے میں لوگوں کی آراء کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔یہ کسی ای میل‘ خط یا رائے کو معمولی خیال نہیں کرتے‘ نہ ہی کسی بات کا برا مناتے ہیں۔ تنقید کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس طرح کے فیڈ بیک کی روشنی میں اپنا کام بہتر سے بہتر بناتے رہتے ہیں۔ دس‘ یہ کبھی ہار نہیں مانتے‘ یہ سمجھتے ہیں ایک کام دس طرح سے ہو سکتا ہے‘ ایک طریقہ اگر ناکام ہو جائے تو دوسرا اور دوسرا ناکام ہو جائے تو تیسرا آزماتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کے ایف سی کے بانی نے اپنا بنایا ہوا فرائیڈ چکن آٹھ ہزار سے زائد دکانوں کو چیک کروایا تھا لیکن سب نے اسے مسترد کر دیا لیکن اگلی دکان کو یہ آئیڈیا پسند آ گیا اور یوں وہ کلک ہو گیا۔ گیارہ‘ یہ لوگ بات چیت میں یقین رکھتے ہیں‘چیزوں کو مصنوعی رنگ دینے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ڈسکشن کے ذریعے حقیقت کو کھول کر بیان کرنے پر زور دیتے ہیں او ر بارہ‘ یہ خود کو ہر معاملے میں ذمہ دار سمجھتے ہیں کیونکہ اگر یہ ایسا نہیں کریں گے تو لوگ ان پر اعتماد نہیں کریں گے اور جس چیز پر سے اعتماد اٹھ جائے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
ہم میں سے ہر کوئی کامیاب کہلانا چاہتا ہے لیکن کامیاب بننا نہیں چاہتا‘ کیونکہ کامیاب کہلانے کے لیے صرف دو گز لمبی زبان ہی کافی ہوتی ہے جبکہ کامیاب بننے کے لیے اِن بارہ خصوصیات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جنہیں اپناتے ہوئے ہماری جان جاتی ہے۔