یہ واقعہ یکم نومبر 2009ء کو لاہور میں پیش آیا۔ ایک نجی موبائل فون کمپنی کا ملازم سیف الرحمن اپنے سسر کی عیادت کیلئے اپنی اہلیہ‘ گیارہ ماہ کے سفیان اور تین بیٹیوں سات سالہ عظمٰی‘ پانچ سالہ ماریہ اور دو سالہ عفاف کے ہمراہ میو ہسپتال پہنچا۔ بچہ وارڈ میں لے جانے کی اجازت نہیں تھی چنانچہ سیف الرحمن اکیلا ہی اندر چلا گیا جبکہ باقی فیملی وارڈ کے باہر انتظار کر نے لگی۔ اس دوران ننھے سفیان کو زمین پر کوئی چیز پڑی نظر آئی تو وہ اس جانب رینگنے لگا اور دیوار کے قریب اس جگہ پہنچ گیا جہاں اس کے سر کے عین اُوپر خستہ حال ونڈو ایئر کنڈیشنر نصب تھا۔ یہ دیکھ کر ماریہ اس کے پیچھے لپکی۔ وہ اسے پکڑنے کیلئے جھکی ہی تھی کہ ایئرکنڈیشنر جو کسی جنگلے میں فکس نہیں تھا بلکہ دیوار میں پھنسایا گیا تھا‘ اپنی جگہ سے سرک گیا اور ایک دھماکے کے ساتھ نیچے موجود ننھے سفیان پر آن گرا۔ اے سی ہٹایا گیا تو نیچے گیارہ ماہ کا سفیان خون میں لت پت پڑا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ ڈاکٹروں نے سفیان کو دیکھا تو اس کی موت کی تصدیق کر دی۔ سفیان کی ہلاکت کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے ایسے تمام اے سی فوری طور پر اتروا دئیے تاکہ انکوائری میں بچا جا سکے۔ چند روز بعد سیف الرحمن نے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر ہسپتال انتظامیہ کی غفلت کیخلاف پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کی تصاویر 19نومبر
2009ء کے اخبارات میں چھپیں تو ایم ایس بچے کے گھر پہنچ گئے‘ اپنی انتظامی غفلت تسلیم کی اور کہا وہ استعفیٰ بھی دینے کو تیار ہیں اور قتل خطا پر اسلامی قانون کے مطابق دیت بھی۔ وہاں موجود تمام لوگوں نے دیت کا مطالبہ کیا جو انہوں نے منظور کر لیا۔ دن ہفتے اور ہفتے مہینے بن گئے لیکن ایم ایس صاحب نے استعفیٰ دیا نہ ہی دیت۔سیف مسلسل چکر لگاتا رہا مگر ڈاکٹر صاحب ٹالتے رہے ۔ تھک ہار کر سیف الرحمن نے میڈیا کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے اس کے دُکھ کو کالم کی شکل دی ‘یہ کالم 20جولائی 2010ء کو ایک قومی اخبار میں چھپا ۔اگلے روز چیف جسٹس افتخار محمدچودھری نے اس کالم پر از خود نوٹس لے لیا۔ اس کے بعد کیا ہوا‘ اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
چیف جسٹس کا از خود نوٹس معمولی خبر نہ تھی‘ اب سفیان کے والد کو یقین ہو چلا تھا کہ ذمہ داروں کو سزا اور انہیں انصاف ضرور ملے گا۔ تاہم اس مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی نہ ہی سفیان کے والد کو موقف دینے کیلئے عدالت بلایا گیا۔ اس دوران اس نے اپنے طور پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل کی جانب سے محکمہ صحت پنجاب سے واقعے کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ نوٹس کے آٹھ ماہ بعد بتاریخ 20جولائی 2011ء کو ہیومن رائٹس سیل کی جانب سے سیف الرحمن کو ایک خط نمبرHRC 18487-G/2011موصول ہوا جس میں اسے واقعے کے ثبوت وغیرہ بھجوانے کی ہدایت کی گئی۔ سیف نے تمام تفصیلات بھجوا دیں۔ تاہم صوبائی محکمہ کی جانب سے جو انکوائری ہوئی اس میں ہسپتال کی انتظامیہ کو بچانے کی بھرپور کوشش کی گئی اور معاملہ ٹیکنیشن پر ڈال دیا گیا۔ ہسپتال کے ایم ایس اور دیگر انتظامیہ کو
صاف بچا لیا گیا۔ دیت کا معاملہ تو بالکل ہی گول کر دیا گیا۔ صحت کی وزارت وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس تھی اس لیے انہیں اس واقعے سے دانستہ لا علم رکھا گیا وگرنہ ممکن ہے وہ اپنے مزاج کے مطابق ایکشن لیتے۔اس دوران سیف الرحمن میرے پاس آتا اور کہتا رہا کہ اسے اور گواہان کو طلب نہیں کیا جا رہا اور یہ سراسر فرینڈلی انکوائری ہو رہی ہے۔ میں اب اسے کیا کہتا کہ اس معاملے کا نوٹس سیشن یا ہائی کورٹ نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے لیا تھا‘ میں یاددہانی ہی کروا سکتا تھا وہ میں نے کروا دی اور ایک اور کالم کے ذریعے سیف الرحمن کی استدعا چیف جسٹس تک پہنچا دی۔ چند روز بعد سیف الرحمن نے بتایا کہ اس نے بڑی مشکل سے پتہ چلایا ہے کہ ہیومن رائٹس سیل نے محکمہ صحت پنجاب سے مزید انکوائری رپورٹس طلب کر لی ہیں۔ لیکن سیف الرحمن اور سانحے کے دیگر گواہان کو پھر بھی طلب نہ کیا گیا۔ یہ میرے لیے بھی حیران کن تھا کیونکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ دیگر نوٹسز کی طرح اس ازخود نوٹس پر بھی تیزی سے کارروائی ہو گی‘ فریقین کو بلایا جائے گا‘ گواہیاں پیش ہوں گی اور ایک یا دو ماہ میں تیسری یا چوتھی پیشی پر فیصلہ ہو جائے گا۔ سیف الرحمن نے چیف جسٹس تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے پیسے ادھار پکڑے اور ایک قومی اخبار میں چیف جسٹس کے نام ایک اشتہار دے دیا ۔یہ پیسے بھی ضائع گئے۔ بالآخرسیف کو سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل کی جانب سے بتاریخ 12دسمبر 2012ء کو خط نمبرHRC-18487-G/2011موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کا کیس خارج کر دیا گیا ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں تو سیشن کورٹ میں درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ یوں ایک از خود نوٹس دو برس تک تقریباًلا پتہ رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
دو برس اور دو ماہ تک سیف الرحمن اپنے کیس کے پیچھے یوں مارا مارا پھرتا رہا جس طرح لواحقین اپنے لاپتہ افراد کی تلاش میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے چیف جسٹس کے حق میں لکھا تھا۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی اگر وہ قصیدے سچے تھے تو پھر گیارہ ماہ کے معصوم کو انصاف کیوں نہ ملا! اس سے تو بہتر تھا کہ چیف جسٹس نوٹس ہی نہ لیتے تاکہ بچے کے والدین کے دل میں امید بھی پیدا نہ ہوتی۔ اگر انہوں نے امید پیدا کی تھی تو پھر انہیں انصاف بھی کرنا چاہیے تھا۔ کم از کم لواحقین اور گواہان کو بلا کر ان کی بات تو سنی ہوتی۔ یک طرفہ کارروائی ہی کرناتھی تو پھر نوٹس کیوں لیا گیا؟ ہاں یاد آیا میر ے کالم کی اشاعت کے بعد درجنوں اخبارات اور چینلز پر یہ خبریں ضرور چل گئی تھیںکہ چیف جسٹس نے معصوم بچے کی ہلاکت پر از خود نوٹس لے لیا۔
کہیں یہی تو اس نوٹس کا مقصد نہیں تھا؟