وہ 2005ء تک ایک عام نوجوان تھا۔ ایک ایسا نوجوان جو تعلیم مکمل کر چکا تھا اور عملی دنیا میں قدم رکھنے والا تھا۔ اسے یہاں تک پہنچانے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کی ماں تھی۔چار بہنوں کا یہ اکلوتا بھائی بچپن میں ہی یتیم ہو گیا تھا لیکن ماں نے اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ان کے گھر فاقے بھی ہوتے اور یہ لوگ صبح سے شام تک مشکلات بھی جھیلتے لیکن کسی نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ 2005ء میں نوجوان نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا اور ایک کیش اینڈ کیری میں جاب شروع کر دی۔ جاب کے صرف ایک ماہ بعد اسے ایک مہربان کا فون آیا۔ اس فون نے نوجوان کی دنیا بدل دی۔اس نے کہا رزق چاہتے ہو تو کاروبار کرو‘ ایک مرتبہ نوکری میں پھنس گئے تو ساری عمر کوشش کے باوجود کاروبار کی طرف نہ آ سکو گے۔تجارت میں دس میں سے نوحصے رزق ہوتا ہے اور تم ایک حصے کے پیچھے بھاگ رہے ہو۔ اس فون کے بعد اس نے ایک سفید کاغذ لیا، اپنا استعفیٰ لکھا اور مینیجر کی میز پر رکھ کر باہر نکل آیا۔ وہاں سے سیدھا بک سٹور پر پہنچا‘کاروبار کے اصولوں پر مبنی کچھ کتابیں خریدیں اور کچھ دنوں کے لیے گوشہ نشین ہو گیا۔ کاروبار کے بنیادی اصولوں کو ازبر کیا‘ والدہ سے اجازت لی اور بسم اللہ پڑھ کر کاروباری دنیا میں قدم رکھ دیا۔ مارکیٹ کا جائزہ لیا‘ اہم شعبوں اور پراڈکٹس کو ڈیمانڈ اور سپلائی کے ترازو پر رکھا اور ٹیلی کام کے شعبے کو چن لیا۔ پہلا کام کمپنی رجسٹر کروانا تھا۔ دو ہزار روپے ایک دوست سے ادھار پکڑے اور کمپنی رجسٹر کروالی‘ انٹرنیٹ پر گیا‘ ان جرمن کمپنیوں کی ویب سائیٹ کو وزٹ کیا جو دنیا بھر میں ٹیلی کام اور
سکیورٹی سے متعلقہ ڈیوائسز بناتی تھیں۔ جرمن کمپنیوں کو سلیکٹ کرنے کے دو مقاصد تھے۔ ایک‘ جرمن اشیا ٹیکنالوجی میں بہت آگے تھیں اور دو‘ ان کا معیار دنیا بھر میں اعلیٰ ترین مانا جاتا تھا۔ اس نے کچھ اشیا کے سیمپل کی درخواست کی تاکہ پاکستان میں موجود ٹیلی کام کمپنیوں کو دکھا سکے۔ ایک جرمن کمپنی نے اسے متعلقہ اشیا کے نمونے بھجوا دئیے۔ اس نے یہ چیزیں لیں اور مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کے سامنے جا کر رکھ دیں۔ ایک کمپنی نے ہامی بھر لی چنانچہ نوجوان کو پہلا آرڈر مل گیا۔ یہ پہلا قدم تھا۔پھر سلسلہ چل نکلا۔ غیر ملکی کمپنیاں اس پر اعتماد کرتیں‘ اسے مال دیتیں اور وہ آگے فروخت کر کے اپنا پرافٹ مارجن رکھ کر انہیں ان کی رقم لوٹا دیتا ۔ اس کا سارا کاروبار اعتماد کے بندھن سے جڑا تھا۔ وہ جو چیز کہتا وہی فراہم کرتا‘ بروقت کرتا اور یہی چیز اسے بلندیوں کی طرف لے گئی۔ 2008ء میں فرانس میں ٹیلی کام کی بہت بڑی نمائش ہو رہی تھی۔ اس کانفرنس نے اس پر کاروبار کے نئے دروازے کھول دئیے۔ آہستہ آہستہ وہ امریکہ‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ سوئٹزر لینڈ سمیت درجنوں ممالک سے ٹیلی کام کے علاوہ سکیورٹی کے آلات بھی امپورٹ کرنے لگا۔ 2005ء میں دو ہزار روپے قرض لے کر کاروبار شروع کرنے والا صرف چھ برس بعد اب کروڑ پتی بزنس مین بن چکا تھا۔ لیکن پھر اس کی زندگی نے ایک یو ٹرن لے لیا۔
وہ بزنس کے سلسلے میں جرمنی میں تھا کہ 24جنوری 2012ء کو اسے لاہور میں مقیم اپنی بیوی کی کال موصول ہوئی۔ اس نے کہا‘ ہمیں بھتے کی پرچی موصول ہوئی ہے کہ اگر پچاس لاکھ نہ دئیے تو تمہارا بچہ اغوا کر لیں گے۔ اگلے روز اس کی بیوی گاڑی پر اپنے اڑھائی سالہ بیٹے کے ساتھ جا رہی تھی کہ نقاب پوش افراد نے گاڑی روک کر بچہ اغوا کرلیا۔ یہ نوجوان واپس آیا‘علاقے کے تھانے سے لے کر اعلیٰ پولیس افسران تک کو اپروچ کیا‘ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تک کو درخواستیں بھیجیں لیکن کسی نے سیریس نہ لیا۔ تاوان کے لئے کالیں افغانستان کے علاوہ لوکل موبائل نمبرز سے بھی آرہی تھیں لیکن پولیس نے انہیں لوکیٹ کرنا گوارا نہ کیا۔ تنگ آ کر خود ہی خطرہ مول لیا‘ پچاس لاکھ روپے کا انتظام کیا ‘جی ٹی روڈ گوجرانوالہ کے قریب رقم اغواکاروں کو دی اور بچہ لے کر گھر آ گیا۔ اس واقعے کے بعد اس کی والدہ نے ہاتھ جوڑ کر کہا‘ بیٹا یہ ملک چھوڑ جائو‘ یہاں کسی کی جان محفوظ نہیں۔ جس ماں نے اسے پالا پوسا تھا اسے چھوڑ کر جانا آسان نہ تھا۔ تاہم حکومت‘ چیف جسٹس اورقانون نافذ کرنے والے اداروں سے مایوس ہو کر دل پر پتھر رکھا اور بیوی بچوں کو لے کر جرمنی چلا گیا۔
تیس سالہ عمران تنویر کی یہ کہانی حکمرانوں کے لیے ٹیسٹ کیس ہے ۔اس کیس کا دوسرا سرا نوجوانوں کی بزنس قرضہ سکیم کی طرف جا نکلتا ہے۔ حکومت نے یہ سکیم ایک سو ارب روپے سے شروع کی ہے اور اس میں نوجوانوں کو ایک سے بیس لاکھ روپے قرض ملے گا۔ فرض کریں ایک نوجوان محمد علی کاروبار کے لیے قرض اپلائی کرتا ہے‘ اسے فرشتے کی شکل میں کوئی گارنٹر بھی مل جاتا ہے‘ اس کا بزنس پلان بھی منظور ہو جاتا ہے اور خوش قسمتی سے قرعہ اندازی میں بھی اس کا نام نکل آتا ہے لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہ بھی فرض کر لیں کہ سولہ سولہ گھنٹے لوڈشیڈنگ اور آئے روز کے دھماکوں کی فضا میں بھی اس کا کاروبار چل نکلتا ہے‘ وہ درجنوں لوگوں کو روزگار فراہم کر دیتا ہے‘ اس کے گھر میں فاقے ختم ہو جاتے ہیںاور وہ نہ صرف باقاعدگی سے قرض کی قسط بھی جمع کرانے لگتا ہے بلکہ آٹھ فیصد سود بھی لوٹا دیتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟ کیا یہ سکیم اور حکومت دونوں کامیاب ہو جائیں گے؟ نہیں‘ ابھی قرض خواہ اور حکومت کو ایک اور امتحان سے گزرنا ہے۔ جب اس کے پاس ایک چمکیلی گاڑی آ جائے گی‘ جب وہ کرائے سے اپنے گھر میں شفٹ ہو جائے گا‘ جب اس کا بچہ اچھے سکول میں
پڑھنے لگے گا اور جب خوشحالی اس کے گھر کی باندی بن جائے گی ‘ اصل امتحان تب شروع ہو گا ۔جب وہ اپنے دفتر میں بیٹھا ہو گا‘ اسے فون آئے گا اس کے گھر بھتے کی پرچی موصول ہوئی ہے‘ اس پر مطلوبہ رقم اور عدم ادائیگی کی صورت میں اہل خانہ کی جان کو لاحق خطرات بھی درج ہوں گے‘یہ بھی لکھا ہو گا تمہاری بیوی اور تمہارے بچے فلاں وقت‘ فلاںنمبر کی گاڑی میں گھر سے نکلتے ہیں ‘ فلاں چوک سے مڑتے ہیں اور فلاں جگہ پہنچتے ہیں تو یہ نوجوان کیا کرے گا؟ کیا یہ دوبارہ اسی حکومت کے پاس نہیں جائے گا‘ اسی سے تحفظ طلب نہیں کرے گا جس نے اسے قرض دیا اور قرض دے کر اسے اس مقام پر پہنچا دیا کہ آج اس کے ایک طرف سمندر اور دوسری طرف آگ ہے۔ کیا حکومت کا فرض نہیں ہو گا کہ وہ اس کی جان اور مال کا تحفظ کرے؟کیا قرض دے کر اور سکیموں کا اعلان کر کے حکومت کی ذمہ داری ختم ہو جائے گیـ اور اگر حکومت اسے کولڈ شولڈر دے گی تو کیا وہ عمران تنویر کی طرح اپنے وطن اور اپنی ماں کو چھوڑ کر نہیں چلا جائے گا؟ اور اگر چلا جائے گا اور حکومت بھتہ خوروں کے خلاف ایکشن نہیں لے گی تو پھر اس سارے پروگرام کا فائدہ ؟ روزانہ دو سو سرمایہ کار اور بزنس مین تو پہلے ہی ملک چھوڑ رہے ہیں تو پھر نئے بزنس مین اور نئے کاروبار شروع کرنے کا مقصد؟ اگر بھتہ مافیا کو بھی پھلنے پھولنے دینا ہے‘ انہیں بھی لاہور اور اسلام آباد کے گرد آبادیاں بسانے اور پائوں جمانے کا موقع دینا ہے تو پھر کیسا قرض‘ کیسا بزنس اور کیسے نوجوان؟