حکومت نے قرضہ سکیم تو لانچ کر دی ہے لیکن نوجوانوں کی صحیح رہنمائی نہیں ہو رہی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو علم ہی نہیں ‘ انہوں نے کاروبار کس طرح کرنا ہے‘ فزیبیلیٹی کیسے بنانی ہے اور قرض کیسے لوٹاناہے۔ یہ درست ہے کہ اس سلسلے میں سمیڈا کا ادارہ رہنمائی کر رہا ہے اور اس پر تیار شدہ چھپن فزیبیلیٹی رپورٹس بھی موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جس نوجوان نے کبھی بزنس ہی نہ کیا ہو وہ ان فزیبیلیٹز کو سمجھے گا کیسے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی ریڈی میڈ فزی بیلیٹیز پرانی ہو چکی ہیں۔ آٹھ شعبوں کی رپورٹس میں سے اگر ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ہی لے لیں تو اس میں تین رپورٹس موجود ہیں‘ جن میں میڈیکل ٹرانسکرپشن ‘ اینی میشن پروڈکشن اور انٹرنیٹ کیفے شامل ہیں۔لوگ انٹرنیٹ کیفے کو آسان ترین کاروبار سمجھ کر اس کی فزیبلیٹی رپورٹ دھڑا دھڑ ڈائون لوڈ کر رہے ہیں۔ آپ یہ رپورٹ پڑھیں تو حیران رہ جائیں گے اس میں کتنی چیزوں کا حقائق سے دور پار کاواسطہ نہیں۔ایک انٹرنیٹ کیفے کے لیے گیارہ کمپیوٹر رکھے گئے ہیں اور ہر کمپیوٹر کی قیمت پچاس ہزار روپے فرض کی گئی ہے۔ جبکہ آج کے دور میں محض انٹرنیٹ برائوزنگ کے لیے تیز ترین برانڈڈکمپیوٹر آٹھ سے بارہ ہزار میں عام دستیاب ہے۔ اسی طرح پرنٹر اور دیگر اشیا کی تعداد اور قیمت کے حوالے سے بھی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ یا تو یہ رپورٹ آج سے دس پندرہ برس پرانی ہے جب برانڈڈ کمپیوٹر آتے نہیں تھے یا پھر رپورٹ بنانے والوں نے پراجیکٹ کی لاگت زبردستی پندرہ لاکھ روپے تک پہنچانے کے لیے
ہر شے کی لاگت پانچ گنا زیادہ رکھی ہے ۔ دونوں صورتوں میں نقصان قرض خواہ کا ہے۔ وہ اتنی زیادہ لاگت کمپیوٹر اور دیگر چیزیں خریدنے پرلگا دے گا اور جب اسے اس حساب سے ریٹرن نہیں آئے گا جو رپورٹ میں فرض کیا گیا ہے تو لامحالہ وہ نقصان میں جائے گا ‘قرض بھی ادا نہیں کر سکے گا اور کاروبار سے بھی جائے گا‘ یوں کاروبار کی خواہش بالآخر اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جائے گی۔ حکومت سے اس حوالے سے سنجیدگی کی توقع تھی لیکن جس طرح کا معاملہ ضامن کی شرائط کے حوالے سے دیکھنے میں آیا‘ اس سے صاف ظاہر ہے یہ سکیم ہوم ورک کئے بغیر ہی لانچ کر دی گئی۔
جو بھی نوجوان کوئی کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے اسے فزیبیلیٹی رپورٹ خود بنانی چاہیے۔ چاہے کچی پنسل اور سادہ کاغذ پر ہی کیوں نہ ہو ‘ لیکن خود بنائی جائے ۔ فزیبیلیٹی رپورٹ کوئی بہت بڑی راکٹ سائنس نہیں ۔ جس طرح آپ مری کی سیر کو نکلتے ہیں اور اس کی تیاری کرتے ہیں‘ سفر ‘کھانے پینے ، رہائش اور دیگر اخراجات کا اندازہ لگاتے ہیں اور اس کے بعد گھر سے نکلتے ہیں اسی طرح کاروباربھی مکمل تیاری کے ساتھ شروع کرنا چاہیے۔ بزنس پلان ان سات آٹھ نکات پر مشتمل ہو سکتاہے ‘ ایک‘ آپ ایک سادہ کاغذ پر اپنے کاروبار کی نوعیت کے بارے میں مختصر لکھیں۔کاروبار کا مقصد واضح کریں‘کمپنی کے بارے میں معلومات لکھیں‘ یہ بھی بتائیں کہ آپ اس کاروبار کو مستقبل میں کہاں تک دیکھنا چاہیں گے۔ دو‘ اپنی پراڈکٹس یا مصنوعات سے متعلقہ مارکیٹ کا جائزہ لے کرواضح کریں کہ آپ کی ٹارگٹ مارکیٹ کون سی ہو گی؟ آپ کے کسٹمرز کاتعلق کس طبقے سے ہو گا؟ کاروبار کس ایریا تک محدود ہو گا؟ آپ مارکیٹ میں سے اپنا حصہ کس قدر وصول کر سکتے ہیں؟ آپ جو اشیا بیچنا چاہتے ہیں وہی یا ان سے ملتی جلتی اشیا مارکیٹ میں کس قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں‘ ان کا معیار اور ان کا رسپانس کیا ہے‘ یہ سب آپ کو پہلے سے معلوم ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے شروع میں جتنی زیادہ مشقت کر لیں گے‘ اتنا ہی پھل کھائیں گے اور نقصان کا اندیشہ بھی کم ہو جائے گا۔ تین‘ آپ اپنی کمپنی کی ٹیم اور ڈھانچے کے بارے میں
لکھیں گے۔ کتنے لوگ ہوں گے؟ انہیں ہیڈ کون کرے گا؟ آپ کا کیا کام ہو گا؟ سب لوگوں کی چیدہ چیدہ اسائنمنٹس لکھیں تاکہ واضح ہو جائے کہ کون کیا کام کر رہا ہے ۔چار‘ آپ اپنی مصنوعات اور سروسز کی تفصیلات بتائیں گے۔ایک دن‘ ایک ہفتے اور ایک مہینے میں ان کی ممکنہ فروخت لکھیں گے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اعداد و شمار اگر واضح کر سکیں تو کیجئے ا ور ہو سکے تو ان کے معیار ‘ ان کی گارنٹی اور آفٹر سیل سروس وغیرہ سے بھی آگاہ کریں تاکہ رپورٹ جاندار نظر آئے۔پانچ‘ مارکیٹنگ یعنی مصنوعات اور سروسز کی تشہیر کیسے ہو گی؟ یہ سب سے اہم شعبہ ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج دنیا کا کاروبار کھڑا ہی مارکیٹنگ پر ہے۔ گھٹیا اور غیر معیاری اشیا مارکیٹنگ کے ذریعے دھڑا دھڑ فروخت ہو سکتی ہیں تو معیاری کیوں نہیں؟اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ معیار پر سمجھوتہ کر لیں‘ہر گز نہیں‘آپ معیار بھی دیں اور اس کا پیغام مناسب انداز میں لوگوں تک پہنچائیں بھی‘ غیر معیاری چیز ایک مرتبہ تو فروخت ہو جائے گی لیکن ریٹرننگ کسٹمر نہ ہونے سے کاروبار کا گراف گرتا چلا جائے گا۔ اس کے لیے انٹرنیٹ‘ موبائل ایس ایم ایس‘ ای میل سستے اور موثر ذریعے ہیں۔چھ‘ ممکنہ ماہانہ اخراجات لکھیں۔سٹاف کی تنخواہیں‘ مارکیٹنگ‘ دفتر کے کرائے‘ یوٹیلیٹی بلز‘ فرنیچر‘ سٹیشنری‘ انٹرنیٹ‘کمپیوٹرز وغیرہ کے اخراجات سے آگاہ کریں اور سات‘ آخر میں آپ کاروبار کا کل تخمینہ لکھیں۔ اس میں کم از کم ایک برس کی تنخواہیں اور ابتدائی و ماہانہ اخراجات بھی شامل کریں کیونکہ اگر آپ کاروبار کو نوکری کی طرح سمجھیں گے کہ یکم کو شروع کیا اور اکتیس تاریخ کو آمدنی شروع ہو گئی تو یہ اگر ناممکن نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں۔ کاروبار میں کئی ایسے اخراجات ہوتے ہیں جو آپ فزیبیلیٹی میں لکھ ہی نہیں پاتے‘ یہ بن بلائے مہمان کی طرح آتے ہیں اور آپ کی تجوری سے پیٹ بھر کر چل نکلتے ہیں۔
یہ رپورٹ لکھیں‘ اس کے بعد دیکھیں آپ کے پاس موجود سرمایہ کتنا ہے اور مزید کتنا چاہیے‘اس کے بعد یہ رپورٹ سمیڈا یا کسی کاروباری ماہر کو دکھلا دیجئے‘ لیکن کبھی بھی آنکھیں بند کر کے کسی پر بھروسہ نہ کیجئے۔ ہر بات کو دلیل کے تراز وپر تولئے اور پھر اگلا قدم بڑھائیے۔ اسی طرح ایک قدم حکومت کو بھی بڑھانا ہو گا‘ اسے چاہیے جس طرح اس نے ضامن کی شرائط نرم کی ہیں اسی طرح سود کو بھی مکمل طور پر ختم کرے‘ سود ی کاروبار کبھی فروغ نہیں پا سکتا‘ پندرہ برس قبل سمال بزنس فائنانس کارپوریشن سے لوگوں نے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ قرض لیا تھا یہ آج تک لاکھوں روپے ادا کر چکے ہیں لیکن اصل رقم وہیں کی وہیں کھڑی ہے‘ اگر ''اخوت‘‘ سود کے بغیر دنیا کی سب سے بڑی اور کامیاب سکیم بن سکتی ہے تو حکومت کو کس چیز کا خوف ہے‘ یہ سود سے اتنی مرعوب کیوں ہے‘ یہ بھی آگے بڑھے‘ قرض کی شرائط چاہے سخت کر دے لیکن سود ختم کرے‘ ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے کسی دیانتدار اور اہل شخص کو سکیم کا سربراہ بنائے اور اس کے بعد دیکھے یہ سکیم کتنے شاندار نتائج دکھاتی ہے۔ ہر نوجوان قرض چاہتا ہے‘ کاروبار‘ نفع اور کامیابی بھی چاہتا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ کی قیمت پر نہیں!