بجلی کا مسئلہ کیوں حل نہیں ہوتا‘ یہ مجھے اس نوجوان سے مل کر محسوس ہوا۔ یہ نوجوان الیکٹریکل انجینئر ہے‘گیارہ کے وی کے گرڈ سٹیشن کے لیے جو مشینری وغیرہ درکار ہوتی ہے‘ اس کی مکمل نگرانی اس نوجوان کے ذمے ہے۔ کس کمپنی کا سامان لگنا ہے‘ کتنی تعداد میں درکار ہے اور اس کا معیار کیا ہونا چاہیے یہ ‘ سب اس نوجوان کے دستخطوں سے فائنل ہوتا ہے۔جب وہ ہر طرح سے مشینری کی تسلی کر لیتا ہے تو پھر اسے مختلف شہروں کے متعلقہ گرڈ سٹیشنز کو بھجوا دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک انکوائری اس کے سامنے آئی۔ یہ گیارہ کے وی کے گرڈ سٹیشن کی جدید الیکٹریکل مشینری تھی جس کے ذریعے صنعتی اور رہائشی صارفین کو بجلی فراہم کی جانی تھی۔معائنے کے دوران اسے معلوم ہوا کہ اس نے متعلقہ عالمی کمپنی کو مشینری کی جو خصوصیات لکھ کر بھیجی تھیں‘ یہ اس سے تین سو فیصد مختلف اور گھٹیا درجے کی تھی۔ مشینری کی مالیت بیس کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ اتنا بڑا گھپلا ہوتے دیکھا تو نوجوان نے فوری طور پر یہ آرڈر منسوخ کردیا اور ساتھ ہی ایک انکوائری شروع کرا دی ۔ یہ قدم اس نے ادارے کو مالی نقصان سے بچانے کے لیے اٹھایا تھا لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ اس میں کتنے کرپٹ افسران ملوث ہیں۔ ان افسران نے انکوائری واپس لینے کے لیے اس پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا اور مختلف طریقوں سے خوفزدہ کرنے لگے۔ انہوں نے اسے موٹی رقم بطور رشوت بھی پیش کی ‘ دوسری صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ وہ نوجوان ان افسران کے پاپی پیٹ پر لات مارنے پر تُلا تھا‘ وہ اسے اتنی آسانی سے کیسے یہ کنٹریکٹ منسوخ کرنے دیتے۔ تاہم اس نوجوان کا ضمیر ابھی زندہ تھا چنانچہ اس نے کنٹریکٹ منسوخ نہ کرنے سے انکار کر دیا ۔
اس مسئلے پر اعلیٰ حکام نوٹس لیتے ہیں یا نہیں‘ عدالت اور نیب حرکت میں آتی ہیں یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ طے ہو گیا کہ اس ملک میں بجلی کا مسئلہ کیسے سنگین ہوا۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی دعوئوں کے چوکے چھکے لگائے کہ وہ بجلی کا مسئلہ جلد حل کر دے گی۔ اگر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب مسئلے کے حل کے لیے اتنے ہی فکر مند تھے تو وہ ایسے کرپٹ افسران کو کٹہرے میں کیوں نہ لائے جو نیک نیت ‘ دیانتدار اور محنتی نوجوانوں کو ابتدا سے ہی رشوت اور دو نمبری سکھانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ آٹھ دس راشی افسران کو الٹا لٹکا دیتے‘ تو معاملہ درست سمت اختیار کر جاتا۔ بجلی کا مسئلہ سنگین بنانے کے لیے واپڈا کے کرپٹ افسران بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا کہ بجلی چور‘ بلکہ ان سے زیادہ۔ کوئی شخص بھی ازخود بجلی چوری نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے چھوٹی سطح پر میٹر ریڈر جب کہ بڑی سطح پر ایس ڈی او‘ ایکسین اور ایس ای کی ''خدمات‘‘ درکار ہوتی ہیں۔ اس سے اوپر
خدمت وزرا کے ذمہ ہوتی ہے۔ ان خدمات کے عوض انہیں کیا ملتا ہے‘ یہ کسے معلوم نہیں؟ میں ایک ایسے شخص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو شہر آیا تو اس کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ کالج میں داخلہ تو ہو گیا لیکن فیس تھی نہ سر چھپانے کی جگہ۔ کسی رشتہ دار کو رحم آیا تو اس نے اپنے گھر رکھ لیا اور فیس بھی ادا کر دی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ لڑکا اگر
پڑھ گیا تو اپنا بھی مستقبل سنوار لے گا اور اپنے خاندان کا کفیل بھی بن جائے گا۔ ایف ایس سی میں اچھے نمبر آئے تو یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا میں داخلہ مل گیا۔ یہ داخلہ تھا یا لاٹری‘ اس نوجوان کو بھی معلوم نہ تھا۔ ڈگری لینے کے بعد اسے واپڈا میں اوورسئیر یا سب انجینئر کی ملازمت مل گئی۔تنخواہ کے علاوہ گھر کا کرایہ اور بجلی کے یونٹ وغیرہ بھی مل گئے جس کے بعد اس نے اپنی فیملی کو
گائوں سے بلا لیا اور لاہور کے ایک گنجان آباد علاقے میں کرائے پر گھر لے لیا۔ آٹھ دس بہن بھائی جب پیر تسمہ پا بن کر موصوف پر سوار ہوئے تو اخراجات بھی بڑھ گئے۔ ابھی وہ ان اخراجات کے بارے میں فکر مند تھا کہ ایک روز اسے ایک بوری موصول ہوئی۔ کھولا تو یہ ہزار ہزار کے نوٹوں سے بھری تھی۔ اسی دوران اس کے فون پر گھنٹی بجی۔ اسے آفر ہوئی کہ وہ نہ صرف یہ بوری وصول کر لے بلکہ ایسی ہی بوریاں اسے ہر ماہ ملا کریں گی۔ بس جی ٹی روڈ پر اس کے ایریا میں جو فیکٹری ہے اس کا بل بائیس لاکھ ماہانہ سے ایک لاکھ تک لانا ہے۔ موصوف جو اس وقت تک ایس ڈی او بن چکے تھے‘ نے فوراً ہامی بھر لی اور یوں ایک دیہاتی لڑکا جو کل تک سر چھپانے کا محتاج تھا‘ نوٹوں کی بوریوں سے کھیلنے لگا تھا۔ دن گزرتے رہے‘ موصوف کرائے کے مکان سے دس مرلے کے ذاتی مکان میں پہنچے۔ یہ دس مرلے چالیس مرلوں میں تبدیل ہوئے اور یہ چالیس مرلے آج کیلگری‘ کینیڈا کے خوبصورت بنگلے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی‘ موصوف نے کروڑوں روپے دے کر کینیڈا کی شہریت حاصل کر لی تاکہ برے وقتوں میں کام آئے۔ اس وقت وہ اپنے شعبے کی اعلیٰ ترین پوسٹ پر موجود ہیں اور فیملی بھی اس اندھیر نگری سے نکال کر لے جا چکے ہیں۔ ایک مہینہ کینیڈا گزارتے ہیں اور دس روز پاکستان میں ''ڈیوٹی‘‘ دیتے ہیں۔ ایک فائیو سٹار ہوٹل میں موصوف کے لیے کمرہ مستقل بک رہتا ہے۔ عام لوگوں کے لیے ان کا فون بند ملتا ہے حالانکہ بجلی کے بلوں پر ان کا موبائل نمبر بھی درج ہے‘ جسے انہیں ہر حال میں سننا ہوتا ہے۔ چند روز ملک میں قیام کے دوران چند گھنٹوں کے لیے دفتر جاتے ہیں اور جو کماتے ہیں سمندر پار بینکوں میں بھجوا دیتے ہیں یا اپنی زرعی اراضی میں چند سو ایکڑ کا اضافہ کر لیتے ہیں۔ اب تو ایسے لوگوں کے لیے وزیراعظم نے سکیم بھی نکال دی ہے کہ اتنے پیسے انویسٹ کرو‘ کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی ‘اپنا کالا دھن بھی سفید کرو اور ہمارے پیٹ بھی بھرو۔ ایسے ''عظیم ‘‘افسران کی ''عظیم خدمات ‘‘کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قوم سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ میں غرق ہے اور جھونپڑیوں تک کو آٹھ آٹھ ہزار کا بل آ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں میری واپڈا کے ایک ریٹائرڈ سینئر اکائونٹس آفیسر سے فیس بک پر چیٹ ہوئی۔ موصوف سیاستدانوں کو اس ملک کے مسائل کی وجہ قرار دے رہے تھے۔ میں نے عرض کی‘ حضور آپ بجلی کے تین‘ تین ہزار ماہانہ یونٹ مفت وصول کر رہے ہیں‘ اس میں آپ کو کوئی برائی نظر نہیں آتی لیکن سیاستدانوں میں کیڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس پر موصوف سٹپٹا اٹھے اور آف لائن چلے گئے۔
معلوم نہیں‘ اس نوجوان انجینئر کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے ۔ وہ افسران کے سامنے جھکتا ہے یا کرپشن کو بوٹ کی ٹھوکر پر رکھتا ہے؛ نوٹوں کی بوریاں قبول کرتا ہے یا پھر لوڈشیڈنگ کے اندھیروں کو لات مارتا ہے ....خدا جانے!