طالبان جیسی آفت اس ملک پر کیوں ٹوٹ پڑی‘ اس کا اندازہ ان تین واقعات سے لگا لیجئے‘ ریلوے کا کانٹا مین رب نواز گزشتہ برس ستمبر میں ریٹائر ہو اجس کے بعد اس نے اپنی پنشن کے حصول کے لئے متعلقہ شعبے میں کاغذات جمع کرادیئے‘ جب وہ اگلے ماہ پنشن لینے گیا تو شعبہ پرسانل کے عملے نے اس پر اعتراضات لگا دیئے اور فائل شعبہ اکاؤنٹس کو بھجوا دی جس کے بعد فائل ایک بار پھر اکاؤنٹس سے پرسانل برانچ میں پہنچ گئی اور اس کے بعد فائل مستقل طور پر اکا ئونٹس ،پنشن اور پرسانل برانچ کے درمیان فٹ بال بن کر رہ گئی ‘ رب نواز پاکپتن کا رہائشی تھا‘ وہ اپنی پنشن کے لئے ہر ہفتے لاہور آتا تھا‘ کرائے کے لیے پیسے بھی ادھار پکڑ کر آتا تھا لیکن اسے ہر بار ٹرخا کر واپس بھیج دیا جاتا یا پھر فائل پر ایک نیا اعتراض لگا دیا جاتا تھا چنانچہ پانچ ماہ بعد بھی اس کی پنشن کا فیصلہ نہ ہو سکا‘ اس نے باقاعدگی سے اخبارات کو خطوط بھی لکھے جو شائع بھی ہوئے لیکن کسی نے نوٹس لینا گوارا نہ کیا‘ ہفتہ کے روز رب نواز نے اپنے بھانجے فخر کو فون کیا کہ میں پنشن کے لئے لاہور آیا ہوں ‘ مجھے امید ہے آج پنشن ضرور مل جائے گی‘ میں تمہیں بتائوں گا‘ تم واپسی پر مجھے اڈے سے لے لینا‘ یہ کہہ کر رب نواز پنشن کا انتظار کرنے لگا لیکن افسر تو افسر‘ کلرک بھی بادشاہ ہوتا ہے‘ چنانچہ رب نواز کو اس روز بھی یہی جواب ملا کہ پنشن اس ماہ بھی نہیں مل سکتی‘ یہ سن کر رب نواز کو دل کا دورہ پڑا اور اس کا مسئلہ
ہمیشہ کے لیے حل ہو گیا‘ وہ دنیا سے رخصت ہو گیا اس نے رشوت نہیں دی چنانچہ اس کی فائل کے نیچے پہیے بھی نہ لگے اور اعتراضات بھی ختم نہ ہوئے اور وہ گھرکی بجائے قبر میں پہنچ گیا ‘ دوسرا واقعہ مناواں کے علاقہ جمشیدٹاؤن کا ہے‘ ہفتہ کے روز اڑھائی سالہ زین اقبال گھر میں کھیلتا کھیلتا دوسرے بچوں کے ساتھ باہر چلا گیا ‘ کافی دیر تک واپس نہ آیا تو اس کی والدہ اس کی تلاش میں نکلی‘تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اس کی دلدوز چیخیں بلند ہوئیں‘ اس کے جگر کا ٹکڑا مردہ حالت میں گٹر میں پڑا تھا‘ون فائیوپر اطلاع کرنے پر تھانہ مناواں اور باغبانپورہ کی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور روایت کے مطابق پولیس اہلکار حدود کے تعین پر آپس میں جھگڑنے لگے ‘ زین کا باپ اقبال ایک مقامی فیکٹری میں کام کرتا تھا‘اہل محلہ کے مطابق گلی میں 4گٹر کھلے ہوئے تھے اور اب تک 3بچے ان میں گر کر جاں بحق ہو چکے تھے ‘ متعدد بار واسا کو گٹر بند کرنے کا کہا گیالیکن کسی نے ایک نہ سنی‘ گلی کو پختہ کرنے کیلئے سوا کروڑ روپے کے سرکاری فنڈز بھی آئے تھے جن سے بارہ سو روپے کے تین ڈھکن نہ خریدے جا سکے ۔ تیسرا واقعہ شاہکوٹ،ننکانہ کا ہے ‘ گائوں کے چودھریوں کا بگڑا بیٹا دن
دیہاڑے محنت کش محمد صدیق کے گھر گھسا اور والدین کی غیر موجودگی میں7ماہ کی ننھی پری سے درندگی کر کے فرار ہو گیا۔ والدین بچی کو لے کر شاہکوٹ ہسپتال پہنچے جہاں لیڈی ڈاکٹر نے اپنی جان چھڑواتے ہوئے اہل خانہ کو یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ یہاں کوئی سہولت میسر نہیں‘یہاں سے وہ تھانہ صدر شاہکوٹ پہنچے تو ایس ایچ او نے بھی ان کی ایک نہ سنی‘24گھنٹے بعد والدین دوبارہ بچی کو علاج کیلئے ٹی ایچ کیو ہسپتال لے آئے ‘اطلاع ملنے پر میڈیا نمائندے بھی پہنچ گئے جس پر بچی کا علاج شروع کر دیا گیا‘ چونکہ ملزم کا تعلق بااثر گھرانے سے تھا چنانچہ پولیس بھی چودھریوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گئی اور پولیس کے ''فرض شناس ‘‘ڈی ایس پی اور ایس ایچ او وقوعہ کو دبانے کیلئے بچی کے غریب باپ کو 10ہزار روپے دینے کی گھٹیا کوشش کرتے رہے‘ خبر میڈیا میں آئی تو وزیر اعلیٰ کو نوٹس لینا پڑا اورہاشم گرفتار ہوگیا‘ یقینا یہ مقدمہ عدالت میں چلے گا اور قانونی سقم کا فائدہ بھی ملزم کو ملے گا چنانچہ ہاشم رہا ہو کر ایک اور زندگی برباد کرنے کے لیے نکل جائے گا۔
یہ صرف تین واقعات ہی نہیں‘ اخبارات اور میڈیا روزانہ ایسے درجنوں واقعات کی دہائی دے رہے ہوتے ہیں لیکن نہ تو ایسے واقعات میں کمی آتی ہے نہ ہی ذمہ داران کو سزا ملتی ہے‘ اب سوال یہ ہے کہ جس ملک میں روزانہ چند ماہ کی بچیوں سے لے کر بالغ خواتین تک ریپ کے واقعات ہو رہے ہوں‘ جہاں آئے روز کسی ماں کا اکلوتا ٹکڑا گٹر کی خوراک بن جاتا ہو اور جہاں پانچ پانچ ماہ تک ایک شخص اڑھائی سو میل کا سفر طے کر کے آتا ہو لیکن اسے اڑھائی ہزار روپے پنشن کی بجائے موت مل جاتی ہو‘ ایسے ملک اور ایسے معاشرے پر دہشت گردی کا عذاب مسلط نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا‘ آپ خود ہی اندازہ لگائیے کیا آپ ایسے ملک کو مہذب ملک کہہ سکتے ہیں جس میں آپ شکایت لے کر پولیس کے پاس جائیں تو وہ آپ کو ہی چور بنا ڈالے‘ آپ دل کے علاج کے لیے سرکاری ہسپتال جائیں اورپتہ چلے آپ کے آپریشن کی باری بارہ برس بعد آئے گی‘ اپنی زمین سے ناجائز قبضہ چھڑانے کے لیے عدالت میں جائیں اور آپ کی ہڈیاں قبر میں گل سڑ کر مٹی بن جائیں لیکن آپ کے پڑپوتے تک انصاف کے لیے عدالت میں جوتیاں گھساتے رہیں تو کیاآپ اس معاشرے کو معاشرہ کہہ سکتے ہیں‘ کیا یہ درست نہیں کہ آپ پٹرول کے ہر لیٹر میں سے بیس پچیس روپے حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں‘ حکومت نے سڑک کھلی کرنے کے لیے آپ کی دکان بھی بلڈوز کر دی ہے‘ آپ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول سے اٹھا کر سرکاری سکول میں داخل کرا چکے ہیں‘ مہنگی بجلی کی وجہ سے گرمیوں میں آپ اے سی چھوڑ کے پنکھا تک چلانے کی سکت نہیں رکھتے ‘ آپ نے تین کی بجائے ایک وقت کھانا کھانا شروع کر دیا ہے‘ پچھلے پانچ برس سے آپ نے کپڑوں کا ایک جوڑا تک نہیں بنایا اور آپ اور آپ کے اہل خانہ فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں‘ اس کے باوجود آپ کے حکمران قربانیاں بھی آپ ہی سے مانگ رہے ہیں اور ظلم بھی آپ ہی پر کر رہے ہیں تو بتائیے ایسے میں اس ملک پر آفتیں نازل نہ ہوں‘ عذاب نہ آئیں اور طالبان حملہ آور نہ ہوں تو کیا ہو؟ جس معاشرے میں بوڑھے رب نواز‘ اڑھائی سالہ زین اقبال اور سات ماہ کی ننھی پری کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہوں اور پورا معاشرہ تماشائی بنا رہے‘ اس کے حکمران اور اس کا قانون تک خاموش رہے‘ ایسے عوام ‘ ایسے حکمرانوں اور ایسے معاشروں کے لیے من و سلویٰ نہیں اترا کرتا ‘ ان کا مقدر ایسے ہی سنگ دل ہوا کرتے ہیں۔