حکومت عوام کے ساتھ کر کیا رہی ہے‘ یہ آپ کو صدیقی صاحب سے معلوم ہو جائے گا۔ صدیقی صاحب میرے ہمسائے ہیں‘ نون لیگ کے پکے ووٹر اور ایک بینک میں ملازم ہیں اور غلطی سے ایک سی این جی والی گاڑی کے مالک بھی ہیں۔ کہنے لگے‘ پندرہ روز قبل جب یہ اعلان ہوا کہ سی این جی روزانہ ملا کرے گی تو لاکھوں لوگوں کی طرح میری خوشی کا بھی ٹھکانہ نہ رہا۔ معلوم ہوا کہ ہفتے میں چھ روز صبح دس بجے سے سہ پہر چار بجے تک جبکہ اتوار کے روز صبح چھ سے رات بارہ بجے تک گیس میسر ہو گی۔ میں نے سوچا کہ لنچ کے وقت نکل کر یہ کام کر لوں گا۔ ایک بجے کے قریب بینک سے نکلا اور قریبی سٹیشن کی جانب گاڑی کا رخ کر دیا۔وہاں گاڑیوں کی ڈیڑھ میل لمبی قطار لگی تھی ۔ چاروناچار قطار میں لگ گیا۔ کچھ دیر بعد گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دو بج چکے تھے۔میں نے سوچا اب اتنی دیر سے قطار میں لگا ہوں‘ تھوڑی دیر بعد باری آ ہی جائے گی۔ میں نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور ریڈیو لگا لیا تاکہ وقت آسانی سے کٹ جائے۔ دفتر والوں کو کہہ دیا کہ گاڑی خراب ہو گئی ہے لہٰذا دیر سے آئوں گا۔ اب میرے آگے صرف نو دس گاڑیاں تھیں۔ کچھ دیر بعد میری گاڑی ٹرمینل کے بالکل قریب پہنچ گئی۔ اگلی گاڑی کے بعد میری باری تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے بہت بڑا مقابلہ جیتنے والا ہوں ۔ جیسے ہی اگلی گاڑی گیس بھروا کر روانہ ہوئی ‘ سی این جی کے عملے نے بڑے بڑے کپڑے اٹھائے اور سی این جی کے ٹرمینلز کو ڈھانپنے
لگے۔ میںنے پوچھا ‘یہ کیا کر رہے ہو ‘ تو ایک لڑکا بولا۔ ٹائم تو دیکھیں‘ چار بج چکے ہیں‘ سی این جی کا ٹائم ختم ہو چکا۔ میں نے چیختے ہوئے کہا میں تین گھنٹے سے قطار میں لگا ہوں۔کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ دیگر لوگوںنے بھی شور مچایا لیکن وہ کیا کرتے۔ گیس پیچھے سے معطل ہو چکی تھی۔ میں نے تہیہ کیا کہ اگلے روز دس بجے سے پہلے چلا جائوں گا تاکہ قطار میں لگنے سے بچ جائوں۔ اگلی صبح پونے دس بجے سی این جی سٹیشن پہنچا تو پھر وہی منظر دیکھا۔ چالیس کے قریب گاڑیاں پہلے سے انتظار میں کھڑی تھیں۔ میں بھی قطار میں لگ گیا کہ چلو آج لنچ ٹائم تک تو باری آ جائے گی۔ دفتر فون کر دیا کہ کام ہے‘ لیٹ پہنچوں گا۔قطار میں لگنا عذاب تھا لیکن پٹرول بھی افورڈ نہیں ہوتا تھا اس لیے بخوشی اس عذاب کو قبول کر لیا۔ بالآخر تین گھنٹے بعد گیس ٹرمینل کے قریب پہنچ گیا۔ دل کو اطمینان ہو رہا تھا کہ آج کا انتظار کم از کم ضائع نہیں جائے گا۔ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کچھ لوگوں کو گیس سٹیشن کے عملے کے ساتھ تکرارکرتے دیکھا۔ معلوم ہوا گیس کا پریشر انتہائی کم ہو چکا ہے۔ لوگ گاڑی فل کرنے کا کہتے ہیں لیکن بمشکل دو ڈھائی کلو گیس بھر پاتی ہے اور اب تو اتنی بھی نہیں رہی۔ دو تین گاڑیوں میں مزید گیس بھری گئی ہو گی کہ سٹیشن کا مالک آیا اور عملے کو سٹیشن
بند کرنے کا حکم دیا۔ اس نے بتایا بعض تکنیکی وجوہ کی بنا پر اتنے کم پریشر پر وہ پلانٹ آن نہیں رکھ سکتا ۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ میں دل ہی دل میںحکمرانوں کو صلواتیں سنا رہا تھا۔اسی دوران ایک رکشے والا میرے پاس آیا۔ بولا‘ بھائی صاحب‘ پریشان نہ ہوں‘میں آپ کو طریقہ بتاتا ہوں۔ کہنے لگا۔ گیس کی قطاریں علی الصبح لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ صبح چھ سے سات بجے کے درمیان آ جائیں۔ اس طرح سٹیشن کھلنے کے بعد زیادہ سے زیادہ دو چار گاڑیوں کے بعد آپ کی باری آ جائے گی۔ میں نے ہامی بھر لی۔ رات کو بیگم سے کہہ دیا کہ بچوں کو صبح رکشے پر چھوڑ آنا، میں نے سی این جی ڈلوانے جانا ہے۔ ساری رات اس ڈر سے آنکھوں میں گزر گئی کہ اگر صبح جلدی آنکھ نہ کھلی تو پھر لمبی قطار میری منتظر ہو گی۔ صبح چار بجے کے بعد نیند بالکل اُجڑ گئی۔ سوچا جلد نکل جاتا ہوں چنانچہ سورج نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔ ناشتہ ابھی بننا تھا لیکن قطار اور سی این جی نہ ملنے کا خوف اتنا تھا کہ بھوکا ہی نکل پڑا۔ سٹیشن کے قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر خوش ہوئی کہ صرف چار گاڑیاں قطار میں لگی تھیں۔ ابھی چھ بجے تھے۔ سٹیشن کھلنے میں چار گھنٹے باقی تھے۔ میں نے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔ آٹھ بجے کے قریب آنکھ کھل گئی۔شدید بھوک لگی تھی۔اس اثنا میں اگلی گاڑی والا آ گیا اور بولا‘ بھائی صاحب ناشتہ واشتہ کر آئو۔ یہاں وقت اسی طرح کٹتا ہے۔ میں نے اس سے گاڑی پر نظر رکھنے کی درخواست کی اور خود رکشے میں بیٹھ کر گھرآ گیا۔ ناشتہ کر کے صوفے پر لیٹ گیا ‘ آنکھ کھلی تو دس بجے رہے تھے۔ بھاگم بھاگ سٹیشن پر پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔ میری گاڑی جو صبح پانچویں نمبر پر تھی‘ اب اس کے آگے چوبیس گاڑیاں لگی تھیں۔ پتہ چلا کہ ہینڈ بریک کھلی تھی ‘گاڑی میں کسی کو موجود نہ پا کر لوگ اسے پیچھے دھکیلتے رہے اور درمیان میں گاڑیاں گھساتے گئے۔ اب میں کس کس سے لڑتا۔ غلطی میری ہی تھی۔ نہ میں گھر جاتا‘ نہ میری آنکھ لگتی اور نہ میرے ساتھ ایسا ہوتا۔ حکومت ‘اوگرا اور سی این جی پر چار حرف بھیجے اور سی این جی ڈلوانے سے توبہ کر کے گھر چلا آیا۔
یہ صرف صدیقی صاحب ہی نہیں‘ ہر اس شخص کی تقریباً یہی کہانی ہے جو سی این جی والی گاڑی کا مالک ہے۔ آج حالت یہ
ہے کہ اس قسم کے مسائل کی وجہ سے ہر شخص نفسیاتی مریض بنتا جا رہاہے ۔ آپ خود ہی سوچیں‘ گرمیاں آنے والی ہیں‘ بجلی کے بھاری بل لوگوں کو خوفزدہ کئے ہوئے ہیں‘ سخت گرمی میں لوڈشیڈنگ کا عذاب اس مرتبہ بھی جاری رہے گا‘ مہنگائی اتنی بڑھ چکی کہ لوگوں کے پاس بچوں کی فیسوں تک کے پیسے نہیں‘ سڑک پر نکلو تو ٹریفک وارڈن آنکھ پھوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں‘ میٹرو بس کی ایک ارب ماہانہ کی سبسڈی پوری کرنے کیلئے جبری لائف ٹائم ٹوکن ٹیکس عائد ہو رہے ہیں‘ گوشت تو چھوڑیں‘ سبزیوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کرنٹ لگتا ہے اور ان مسائل کے ساتھ ساتھ جب سی این جی ڈلوانے والا ہر شخص پندرہ روز سے قطاروں میں خوار ہو رہا ہو اور اس کے باوجود اسے سی این جی نہ ملے تو اس کا خون نہ کھولے تو اور کیا ہو؟ لوگوں نے نون لیگ کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ یہ پیپلزپارٹی نہیں بنے گی‘ یہ خدا کا خوف کرے گی اور انسانوں والے فیصلے کرے گی لیکن سی این جی کے اس قسم کے بے تُکے شیڈول جاری کر کے حکمرانوں نے ثابت کر دیا کہ اُن کے پاس بھی پلاننگ اور ویژن نام کی کوئی چیز نہیں‘ اور جب یہ بھی پانچ سال عوام کو جی بھر کے ذلیل کر لیں گے تو جھولیاں پھیلا کر ان سے ووٹ مانگنے نکل آئیں گے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہی عوام مزید پانچ سال کے لیے گدھے بننے کو تیار بھی ہو جائیں گے‘ یہ دس منٹ کا احتجاج نہیں کریں گے لیکن ساری ساری رات سی این جی سٹیشنز پر گزار دیں گے‘ واہ رے لوگو‘ لگے رہو لائنوں میں۔