کوئی مانے نہ مانے ‘ بیسیویں صدی کی ایجادات میں اہم ترین گلوبل پوزیشننگ سسٹم ہے۔ اس ایجاد نے پوری دنیا کی ہیئت اور انداززندگی کوسرے سے بدل کے رکھ دیا ہے۔آج اگر امریکہ میں بیٹھا شخص ایک بٹن دباتا ہے ‘ جس کے بعد ایک میزائل امریکی بحری بیڑے سے اڑتاہے اورہزاروں میل کا سفر کرتے ہوئے پاکستانی عوام کے سروں کے اوپر سے گزرتا ہواقبائلی علاقوں میں اپنے ہدف پرجا گرتا ہے تو یہ سب جی پی ایس ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔یہ سسٹم سیٹیلائٹ کے ذریعے کام کرتا ہے اور اس کی بدولت دنیا بھر میں جاسوسی کا وسیع نظام بھی چلایا جارہا ہے۔اسی طرح آئے روز پاکستان میں بمباری کرنے والے بغیر پائلٹ ڈرون طیارے بھی جی پی ایس سیٹیلائٹ سسٹم کے تحت کام کرتے ہیں۔یہ تیس ہزار فٹ کی بلندی سے تصاویربناتے ہیں‘ آوازیں ریکارڈ کرتے ہیں‘ویڈیوز بناتے ہیں‘ میزائل داغتے ہیں اور واپس اپنے اڈے پر چلے جاتے ہیں۔ جی پی ایس سسٹم نہ ہوتا‘ تو ایسا ممکن نہ تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی جی پی ایس کسی نہ کسی شکل میںوجود میں آ چکا تھا جس کاامریکہ نے بھرپوراستعمال کیا۔جی پی ایس انسانوں کی عام زندگی میں بھی استعمال ہو رہا ہے اور گاڑی کوچوری ہونے سے بچانے کیلئے عرصہ قبل جی پی ایس بیسڈٹریکر عام ہو چکے ہیں۔اس کی مدد سے کنٹرول روم میں بیٹھا
شخص گاڑی کو آن آف کر سکتا ہے۔اس کی کہیں موجودگی کا پتہ چلا سکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ گاڑی میں بیٹھے شخص کی آواز اور تصاویر بھی اس سسٹم کے ذریعے کسی جگہ سنی اور ریکارڈ کی جا سکتی ہیں اور تو اور گوگل اَرتھ سافٹ وئیر بھی اسی سسٹم کے تحت کام کرتا ہے جس کے ذریعے ہم کمپیوٹر پر بیٹھے پوری دنیا کی سیر کر لیتے ہیں۔اب میں اس سسٹم کے ایک خاص نکتے کی طرف آتا ہوں۔ گلوبل پوزیشننگ سسٹم کے تحت ایک کیپسول نماٹریکنگ ڈیوائس ایجاد ہو چکی ہے جس کی لمبائی آدھا انچ اور موٹائی چار سنٹی میٹر ہے۔یہ ڈیوائس سائز میں اتنی چھوٹی ہے کہ آدمی اسے محسوس کر سکتا ہے نہ ہی اسے ڈھونڈ سکتا ہے۔ یہ ڈیوائس جلد عام ہو جائے گی اور انسانی جلد میں آسانی سے انجیکٹ کی جاسکے گی‘اس کے ذریعے کسی شخص کی دنیا میں کسی بھی جگہ موجودگی کا پتہ چل سکے گا۔وہ سارا دن کیا کر تا رہا۔اس کا دل ایک منٹ میں کتنی بار دھڑکا‘وہ کتنے قدم چلا‘ اس نے کن لوگوں سے کیا کیا بات چیت کی‘ کتنے جھوٹ اور کتنے سچ بولے‘کس شخص سے ملا‘ کیا پلان بنائے غرض کہ دن اور رات میں ہونے والے ہر لمحے کی حرکت اس سسٹم کے ذریعے نوٹ اور ریکارڈ کی جا سکے گی۔اس کے بعد کمپیوٹر کا ایک بٹن دبانے سے کسی بھی شخص کی ایک دن‘ ایک مہینہ‘ ایک سال یا پوری زندگی کی رپورٹ پلک جھپکتے میں سامنے آ جائے گی۔ فی الحال یہ ٹریکنگ ڈیوائس پوری دنیا کی خفیہ ایجنسیوں کے زیراستعمال ہے۔ یہ ڈیوائس اہم افراد کے جسم میں انجیکٹ کردی جاتی ہے تاکہ یہ لوگ ہر لمحے خفیہ ایجنسیوں کی نظروں میں رہیں۔کچھ ڈیوائسز ایسی ہیں جو مارکیٹ میں عام مل رہی ہیں۔ ان کا سائز ماچس کی ڈبیا جتنا ہے۔ یہ پالتو جانوروںاور چھوٹے بچوں کو لگا دی جاتی ہیں تاکہ ان کی لوکیشن معلوم ہوتی رہے۔
گزشتہ روز ایک خاتون صغریٰ بی بی نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی۔صغریٰ کا کہنا تھا کہ اس کا شوہر سلیم اسے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بدکاری پر مجبور کرتا رہتا تھا ۔ کچھ عرصہ قبل صغریٰ اچانک بے ہوش ہو گئی۔ آنکھ کھلنے پر خود کو سروسز ہسپتال میں پایا۔ اسے وقتی طورپر کچھ سمجھ نہ آئی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ۔ ہسپتال سے واپس آنے کے بعد بھی اس کے شوہر نے اپنا رویہ نہ بدلا تو وہ اس سے علیحدہ ہو گئی ۔ اس کے بعد وہ جہاں بھی جاتی اس کا شوہر وہاں پہنچ جاتا۔ اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کی بیوی اس وقت کہاں موجود ہے۔ وہ اس کے پیچھے پہنچ جاتا اور اسے بدکاری کے لئے مجبور کرنے لگتا۔ صغریٰ کو کافی دیر بعد معلوم ہوا کہ سلیم نے اس کے جسم میں ایک ٹریکر چپ لگوا رکھی ہے جس کی مدد سے وہ ہر لمحے اس کی نقل و حرکت سے آگاہ رہتا تھا۔ ٹریکر چپ کی مدد سے جاسوسی کرکے وہ اسے بلیک میل کرتا رہتا۔ صغریٰ نے اپنے جسم میں نصب ٹریکر چپ نکلوانے کے لئے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے علاج کے نام پر دو لاکھ روپے کا مطالبہ کر دیا۔صغریٰ نے عدالت سے استدعا کی کہ خاوند سلیم اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے اور اس کے جسم سے چپ سرکاری خرچ پر نکلوائی جائے ۔ صغریٰ بی بی کے جسم میں چپ واقعی لگی بھی ہے یا نہیں یا اس کے ساتھ کسی نے مذاق کیا ہے‘ یہ ابھی کسی کو معلوم نہیں تاہم اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ٹیکنالوجی کا اس قدر ''شاندار‘‘ استعمال ہماری قوم سے زیادہ کوئی نہیں کر سکتا۔آپ انٹرنیٹ کی مثال لے لیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں فحش ویب سائیٹس دیکھنے میں پہلے نمبر پر ہے۔ اسی رپورٹ میں پاکستان کے ان شہروں کا بھی ذکر ہے جہاں سے لوگ ایسی ویب سائٹ وزٹ کرتے ہیں۔ ان شہروں میں بھی پشاور پہلے نمبر پرہے۔ حالت یہ ہو چکی کہ آج گلی گلی کھلے انٹرنیٹ کیفوں میں صرف اور صرف فحاشی دیکھی جا رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ایک گھنٹہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتے ہیں اور اپنی اخلاقیات تباہ کر کے اٹھتے ہیں۔ دنیا میں موبائل فون کا سب سے زیادہ غلط استعمال بھی ہم لوگ ہی کر رہے ہیں۔ کسی شخص کے پاس ایک لمحہ بھی فالتو میسر ہے وہ موبائل پر انگلیاں چلاتا نظر آئے گا اور اگر وہ فارغ نہیں بھی ہے تب بھی اس کی توجہ موبائل فون پر ہی ہو گی۔ درحقیقت یوٹیوب کو پاکستان میں بند ہی اسی مائنڈ سیٹ کی وجہ سے کیا گیا جس کی وجہ سے ہم دنیا میں بدنام ہیں۔ہم واقعتاً ایک قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا یہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا پڑے گا‘ ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنا ہو گا وگرنہ ہمارا یہ چلن یوٹیوب کے بعد ملک سے انٹرنیٹ‘ کمپیوٹر ‘موبائل فون‘ سب کچھ بند کروا دے گااور ہم گاڑیوں کی بجائے خچر اور ماچس کی جگہ پتھروں کو رگڑنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔