عابد شیر علی واقعی شیر نکلے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ سے پیوستہ کالم میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ وزیرمملکت عابد شیر علی واقعتاً اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے خواہشمند ہیں اور واپڈا کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں سب سے پہلے احتساب کا عمل شروع کرنا ہو گا اور یہ احتساب اسی ادارے کے ان سینکڑوں اعلیٰ افسران سے شروع کرنا ہو گا جو اس بحران کے بہت حد تک ذمہ دار ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ اگر واپڈا کے میٹر ریڈر سے لے کر اعلیٰ افسران تک کے گزشتہ بیس برس کے اثاثے سامنے لائے جائیں تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ بجلی چوری‘ کرپشن اور لائن لاسزپر قابو پانا تو دور کی بات یہ لوگ ان برائیوں کو پھیلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس سے قبل وزیرمملکت کا دھیان اس طرف کیوں نہیں گیا اور نہ ہی میں یہ مان سکتا ہوں کہ انہیں یہ معلوم نہ ہوگا کہ واپڈا اور بجلی کی ضلعی ڈسٹری بیوشن کمپنیز میں کرپشن ہو رہی ہے اور یہ کرپشن کون کر رہا ہے۔یقینا انہیں یہ سب معلوم ہو گا لیکن ان کے اس اعلان سے واپڈا افسران کی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔خاص طور پر ان لوگوں کی جو نوٹوں کی بوریاں گاڑی کی ڈگی میں بھر کر گھر لاتے رہے۔ خود بھی حرام کھایا اور اپنی سات نسلوں تک کے لئے حرام کا پیسہ اکٹھا کر لیا۔ عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ کئی ایکسین ارب پتی بن گئے ہیں، جس کے اثاثے حیثیت سے زیادہ ہوئے‘ اس کا کیس نیب کو بھجوایا جائے گا۔قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران انہوںنے یہ بھی کہا کہ واپڈا کے تمام ملازمین کے اثاثے ڈسکوز میں چسپاں کیے جائیں گے تاکہ دنیا بھی ان کی اصلیت جان سکے۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تب بھی سرکاری اداروں کو سیدھے راستے پر لانے کے لئے بڑے زور و شور سے کام ہوا تھا۔ ریٹائرڈ فوجیوں کو واپڈا اور دیگر محکموں کے سر پر بٹھا دیا گیا اور انہوں نے بھی سب سے پہلے بجلی چوری ‘ کرپشن اور لائن لاسز سے نمٹنے کی بات کی تھی۔ابتدا میں کئی ایکسیئنز‘ ایس ڈی اوز وغیرہ کے کیس نیب کو بھجوائے گئے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو پلی بارگین کے ذریعے خلاصی کرا لی جبکہ کرپٹ افسران کی کثیر تعداد ایسی تھی جنہوں نے کرپشن کے کوئی ثبوت ہی نہ چھوڑے تھے جس کی وجہ سے یہ باعزت بری ہو ئے اور رہا ہو کر دوبارہ سے ملک کو لوٹنے لگے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک فوجی حکومت واپڈا کی بیوروکریسی کے آگے پانی نہیں بھر سکی تھی تو پھر ایک سول حکومت کیا تیر مار سکے گی۔ ایک سال قبل جب عابد شیر علی وزیر مملکت بنے تھے تب انہوں نے بھی بجلی چوروں کے خلاف بہت بڑے ایکشن کی مہم چلائی تھی‘ اخبارات اور ٹی وی پر کئی ہفتوں تک اشتہارات دئیے جاتے رہے‘درجنوں چھوٹے کارخانوں کو بجلی چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا بھی گیا اور ان کی خبریں میڈیا میں بھی آئیں لیکن یہ معاملہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہو گیا۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ جن کارخانوں پر چھاپے مارے گئے ہوں گے ان کے مالکان کی اکثریت کا تعلق نون لیگ سے ہو گا چنانچہ حکومت ان کے سامنے بے بس ہو گئی یا پھر بجلی چوروں نے کچھ دے دلا کر معاملہ سیدھا کر لیا ہو گا ۔کچھ بھی ہو یہ معاملہ اس خاموشی سے ختم نہیں ہونا چاہیے
تھا۔ کیونکہ بجلی چوری صرف موسم گرما میں نہیں بلکہ سارا سال کی جاتی ہے۔ گھریلو صارفین اگرچہ گرمیوں میں زیادہ یونٹ خرچ کرتے ہیں لیکن کمرشل ادارے تو پورا سال‘ دن رات چلتے ہیں۔ وزیرمملکت اگر یہ سمجھتے ہیں کہ صرف زور و شور سے اعلانات کر نے اور میڈیا پر خبریں آنے سے وہ کامیابی سے وزارت چلا لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ قدرت نے انہیں ایک اہم موقع دیا ہے ۔انہیں چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نہ صرف واپڈا ملازمین کے اثاثے سامنے لائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دو کام اور کریں۔ ایک‘ وہ ان افسران کی فہرست نکلوائیں جو واپڈا میں بھی ملازمت کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی نجی کمپنیاں بھی چلا رہے ہیں۔ یہ لوگ ادارے کے لیے آستین کے سانپ ہیں۔ یہ دو کشتیوں کے سوار ہیں اور ظاہر ہے ان کا نوکری کا مقصد اپنے نجی کاروباروںکو فروغ دینا ہے۔ یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں‘ اسی میں چھید کررہے ہیں۔ جو میٹریل واپڈاکے لیے
منظور کیا جاتا ہے ‘ یہ اسے اپنی کمپنی کے ذریعے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ یہ اے کلاس کا ریٹ لگاتے ہیں جبکہ مال تھرڈ کلاس سپلائی کرتے ہیں ۔یہ دونوں ہاتھوں سے ادارے کو چونا لگا رہے ہیں۔ ایسا ہی کروڑوں کے غبن کا ایک کیس میرے پاس معہ دستاویزی ثبوت موجود ہے‘ وزیرمملکت چاہیں تو انہیں بھجوا سکتا ہوں۔ یہ واپڈا ہائوس کے گریڈ انیس کے دو افسران کے حوالے سے ہے۔ ان لوگوں نے حال ہی میں ایک سودے میں سرکاری خزانے کو دس کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا اور جس نوجوان افسر نے ان کی کرپشن میں شامل ہونے سے انکار کیا‘ اسے انہوں نے ذہنی اذیت دے دے کر نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ دوسرا کام وزیر مملکت یہ کریں کہ ان افسران کی فہرست نکلوائیں جو دُہری شہریت رکھتے ہیں۔اس وقت ننانوے فیصد سب انجینئرز ‘ ایکسین اور ایس ڈی اوز کے پاس کینیڈا‘ برطانیہ اور امریکہ کی شہریت ہے۔ ان میں سے اکثر اپنی فیملیاں‘ اثاثے اور بینک اکائونٹس کئی برس قبل انہی ممالک میں لے گئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن ان کی شامت ضرور آنی ہے۔ ان لوگوں کے کام کا انداز سابق وزیراعظم شوکت عزیز سے ملتا جلتا ہے۔ یہ لوگ پندرہ روز کے لیے پاکستان آتے ہیں۔صرف چار گھنٹے کے لیے دفتر جاتے ہیں اور ان چار گھنٹوں میں جتنا ہاتھ مار سکتے ہیں مارتے ہیں‘ پھر کسی کورس کے بہانے یا کسی اور وجہ سے ایک ماہ کی چھٹی لے لیتے ہیں اور اپنی ''حلال‘‘ کمائی ڈالرز میں تبدیل کروا کر بیرون ملک لے جاتے ہیں۔
میں نے ایک روز ایک آدمی کو عجیب لباس میں دیکھا۔ یہ شخص فٹ پاتھ پر چل رہا تھا اور عجیب و غریب رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس تھا۔ میں نے ذرا غور سے دیکھا تو اس کے جسم پر موجود لباس پر مجھے کچھ الفاظ نظر آئے لیکن یہ واضح نہ تھے۔ میں نے غور سے دیکھا تو میری سٹی گم ہو گئی۔ یہ ایک مفلوک الحال شخص تھا اور اس نے اپنے جسم کو سڑکوں پر لگے کپڑے سے بنے اشتہاری بینر سے لپیٹا ہوا تھا۔ خدا کی پناہ ہے۔ ایک طرف اربوں روپے لوٹ کر دو دو ملکوں کی شہریت اور مزے لوٹنے والے سرکاری افسران ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ جن کے پاس تن ڈھانپنے کو دو گز کپڑا تک موجود نہیں۔ذرا سوچئے کہ اگر اس شخص کو سڑکوں پر لگے بینروں کا کپڑا بھی میسر نہ آتا تو کیا ہوتا۔ ایسے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جو پیٹ کاٹ کر بجلی کا بل ادا کرتے ہیں‘ اس کے باوجود لوڈشیڈنگ ان کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ لیکن حالت یہاں تک پہنچ جائے گی‘ یہ کسی نے سوچا نہ ہو گا۔ عابد شیر علی سے گزارش ہے کہ بہت ہو چکا۔ اگر آپ اپنے اعلانات پر عمل نہیں کر سکتے تو خدا کے لیے ایسے بیانات بھی مت دیا کریں جو لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا باعث بنیں اور اگر آپ واقعتاً سنجیدہ ہیں تو پھر میدان میں آئیں‘ کرپٹ افسران کے نام ویب سائٹ پر ڈالیں ‘ ان کے کیس نیب کے حوالے کریں ‘انہیں سزا دلائیں اور قوم کا لوٹاگیا پیسہ بھی واپس لائیں ۔ سوئس اکائونٹس میں جن پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر جمع ہیں‘ ان میں واپڈا کے وہ افسران بھی ہوں گے جو وائسرائے کی طرح اس ملک میں آتے ہیں‘ لوگوں کو لوڈشیڈنگ میں تڑپاتے ہیں‘خزانہ لوٹتے ہیں اور واپس تشریف لے جاتے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے پیٹ سے یہ رقم نکلوائیں اور اس رقم سے ان لوگوں کو کپڑے پہنائیں جو کپڑے کے اشتہاری بینر وں سے تن ڈھانپنے پر مجبور ہیں، لوگ آپ کو سر آنکھوں پر بٹھا لیں گے۔