یہ پچیس برس پرانی بات ہے۔ جلال الدین نامی کلرک منسٹری آف ڈیفنس راولپنڈی میں ملازم تھا۔ ادارے کی اکائونٹس برانچ کی کسی تکنیکی غلطی کی وجہ سے اسے کچھ عرصہ ماہانہ تنخواہ چند روپے زیادہ ملتی رہی۔چند برس بعد ادارے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے ایک اور غلطی کر دی۔ اس نے ادا کی گئی اضافی رقم واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے جلال الدین کو خط لکھا کہ کسی وجہ سے تمہیںزیادہ تنخواہ ملتی رہی ہے۔ یہ رقم اب دو لاکھ روپے بن چکی ہے۔ چونکہ یہ رقم تم لے چکے ہو اس لئے یا تو اسے یکمشت ادا کردو وگرنہ ادارہ تمہاری تنخواہ سے ماہانہ کٹوتی کرے گا۔ جلال الدین نے خواب میں بھی دو لاکھ روپے اکٹھے نہیں دیکھے تھے‘ وہ یہ رقم کہاں سے لاتا ۔ چنانچہ جلال الدین کی تنخواہ سے کٹوتی شروع کر دی گئی۔کسی نے جلال الدین کو مشورہ دیا تو اس نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ اس نے موقف اختیار کیا کہ چونکہ یہ ادارے کی غلطی تھی اس لئے ادارے کو جبری کٹوتی سے روکا جائے ۔ جس پر 19جنوری 1992ء کو چیف جسٹس محمد افضل ظلہ کی سربراہی میں جسٹس عبدالقدیر چودھری اور جسٹس ولی محمد خان پر مشتمل بینچ نے فیصلہ سنایا کہ '' ادارے کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ملازم سے وہ رقم واپس لے جو ادارے کی کسی غلطی کی وجہ سے ملازم کو ملتی رہی۔ ‘‘میں نے چار سال قبل ایک قومی اخبار میں 39 بیوہ پنشنرز کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا جنہیںپنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے حکم صادر دیا کہ انہیں ادارے کے 1989ء کے کسی
فیصلے کی وجہ سے چند سو روپے ماہانہ پنشن میں لگ کر ملتے رہے ہیں لہٰذا وہ یہ رقم واپس کریں۔ میرے کالم کے بعد ان پنشنرز نے عدالت میں رٹ دائر کر دی اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی نقل بھی ساتھ لگا دی۔ اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے ادارے کو کٹوتی سے روک دیا۔ یہ پیپلزپارٹی کا دور تھا۔ آج جب مسلم لیگ ن کا دور ہے تو ایسے ہی ایک اور پنشنر خاندان نے رابطہ کیا ہے ۔ ان کا والد فوج کے ایک ادارے میں صوبیدار میجر تھا۔ 1985ء میں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کرگیا۔ ان کا کیس بھی ویسا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک بیوہ کو جو پنشن ملتی رہی اس میں چند روپے اضافی ملتے رہے ۔ اب انہیں نوٹس آ گیا ہے کہ آپ کو سوا لاکھ روپے اضافی چلے گئے ہیں لہٰذا اب تین ہزار روپے ماہانہ کٹوتی ہو گی۔ یعنی غریب خاندان کو کل ملا کر آٹھ ہزار روپے پنشن ملتی تھی جو اب پانچ ہزار ملا کرے گی۔ میں نے چیف جسٹس افضل ظلہ کے فیصلے کی وہ کاپی اس خاندان کو اس امید پر بھجوا دی ہے کہ شاید ان کا بھلا ہو جائے۔
ان دو مثالوں سے یہ ثابت ہو گیا کہ سیاستدان ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑ کر سوئس بینکوں سے پیسے واپس لانے کے دعوے تو کر سکتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کر سکتے اور یہ صرف اور صرف غریب کے حلق کا نوالہ چھیننا جانتے ہیں۔ اب اس بات پر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے کہ سابق دور میں پورے پانچ برس سارے ٹاک شوز تین چار پوائنٹس کے گرد گھومتے رہے جن میں سر فہرست سوئس بینکوں میں موجود زرداری صاحب کے ساٹھ ملین ڈالر تھے جنہیں اتنا اچھالا گیا کہ سینکڑوں قومی مسائل دب کر رہ گئے۔ ہر دوسرا ٹاک شو اسی پر ہوتا تھا اور ان میں ایسے ایسے خواب دکھائے گئے کہ اگر یہ ساٹھ ملین ڈالر واپس آ گئے تو تمام ملکی و غیر ملکی قرضے اتر جائیں گے‘ ملک میں کوئی غریب نہیں رہے گا اور یہ جو غربت موجود ہے یہ اسی لئے ہے کہ زرداری صاحب نے اپنی رقم سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی ہے اور اگر ایک مرتبہ یہ واپس آ گئی تو ملک کے وارے نیارے ہو جائیںگے اورلوگوں کو وزیراعلیٰ پنجاب کا 29اپریل2012ء کا وہ بیان ابھی بھولا نہیں جب لاہور میں مسلم ٹاؤن فلائی اوور کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی منصوبے کا افتتاح ہو،علی بابا اور چالیس چور اس کے لئے مختص بجٹ کا پچاس فیصد پہلے ہی ہڑپ کرجاتے ہیں، اس ٹولے نے عوام کی خون پسینے کی کمائی پر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے جس کے باعث عوام نڈھال اور ملک بدحال ہوچکا ہے ۔ اگر یہ بیان سچ مان لیا جائے تو جناب اب تو مسلم لیگ نون کی وفاق میں بھی حکومت ہے۔ اگر ان کے بقول علی بابا اور چالیس چور پاکستان کے کئی منصوبوں کا پچاس فیصد پہلے ہی ہڑپ کر چکے ہیں تو یہ رقم تو یقینا اربوں کھربوں میں ہو گی تو پھر آپ یہ رقم واپس لینے کا وعدہ کیوں پورا نہیں کرتے۔ آپ ان کا احتساب کیوں شروع نہیں کرتے۔ اس ڈرامے کا دوسرا کردار پیپلزپارٹی تھی۔ اس کا اپوزیشن لیڈر آج چپ سادھے بیٹھا ہے ۔کیا کسی نے کبھی سنا ہے کہ اس نے کبھی ن لیگ کے خلاف جوابی مہم چلائی ہو یا پھر شریف خاندان کے لندن‘ جدہ اور دیگر ممالک میں موجود کاروباروں اور اثاثوں پر کوئی انگلی اٹھائی ہو۔ نہیں ناں؟ تو آج اگر مسلم لیگ نون اقتدار میں ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی پر لگائے گئے الزامات پر سٹینڈ نہیں لے رہی اور اگر آج پیپلز پارٹی بھی حکومتی جماعت کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے تو پھر اس سارے کھیل میں جمہوریت کہاں ہے‘ عوام کہاں ہیں اور اس ملک کا وہ لوٹا گیا پیسہ کہاں ہے جس کو واپس لانے اور اس سے ملک سنوارنے کے خواب دکھا کر ووٹ حاصل کئے گئے۔ جو فکسڈ میچ سابق دور میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے آپس میں کھیلا‘ اس مرتبہ یہ کھیل مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان جاری ہے۔ عوام کو اب ایسے خواب دکھائے جا رہے ہیں کہ اگر تحریک انصاف اگلی مرتبہ وفاق میں آ گئی تو یہ مسلم لیگ ن کے بیرون ملک اثاثوں کو واپس لائے گی ‘ یہ ان کا کڑا احتساب کرے گی اور یوں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ یوں عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ایک مرتبہ پھر بیوقوف بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ زرداری صاحب کے ساٹھ ملین ڈالرکبھی واپس آئیں گے اور نہ ہی رائل فیملی کے غیر ملکی اثاثے‘ اگر پیسے نکلوائے جائیں گے تو صرف اور صرف کروڑوں غریب عوام کی جیبوں سے۔ کبھی پٹرولیم کی قیمتوں میں ردوبدل سے‘ کبھی سی این جی کی قیمت میں اضافے سے‘ کبھی میٹرو بس کے اخراجات پورے کرنے کے لئے گاڑیوں کے لائف ٹائم ٹوکن ٹیکس کے نام پر‘ کبھی غریب رکشہ اور موٹر سائیکل سواروں کے چالانوں کی رقم کی صورت میں‘کبھی دو دو سو فیصد پراپرٹی ٹیکس میں اضافے کی شکل میں‘ کبھی بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم سرچارج ‘فیول ایڈجسٹمنٹ اور سیلز ٹیکس کو بڑھا کر ‘کبھی گندم اور آٹے کی قیمت میں اضافہ کر کے اور کبھی جلال الدین جیسے کلرکوں اور غریب بیوہ پنشنروں سے زائد رقم کی وصولی کے نام پر۔کیا قسمت پائی ہے اس ملک کے عوام نے!