میران شاہ دہشت گردوں کا اسلام آباد تھا۔ یہاں سے ان کی حکومت بھی چلتی تھی‘ ان کی عدالتیں بھی لگتیں‘ سزائیں بھی یہیں ملتیں اور خودکش بمبار تیار اور روانہ بھی یہیں سے ہوتے تھے۔ آپریشن ضرب عضب کی یہ لمحہ بہ لمحہ کہانی چند روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ سے معلوم ہوئی۔ایڈیٹرز اور کالم نگاروں کو ایسی ہی بریفنگ گزشتہ برس بھی دی گئی تھی جس میں بہت سے انکشافات ہوئے تھے۔ میجر عاصم نے الیکٹرانک چارٹس اور گراف کی مدد سے جنگ کا نقشہ واضح کیا اور آپریشن کی رفتار ‘ اس کے اہداف اور سٹریٹیجی سے آگاہ کیا۔ان کے مطابق شمالی وزیرستان دہشت گردوں کی جنت تھا۔ خاص طور پر میران شاہ‘ میر علی ‘دتہ خیل ‘ بویا اور شوال میں ان کے مضبوط ٹھکانے قائم تھے۔ 2007-08ء میں شمالی وزیرستان میں حکومت کا کنٹرول 37فیصد تھا‘ دہشت گرد32فیصد علاقے پر قابض تھے جبکہ 31فیصد علاقہ ایسا تھا جہاں فوج اور عسکریت پسندوں کے ساتھ جنگ جاری تھی۔ اس وقت سے امسال 14جون تک دہشت گردوں کے خلاف 266سے زائد چھوٹے بڑے آپریشن ہوئے جن میں 475 عسکریت پسند مارے گئے۔ ان کارروائیوںکے نتیجے میں 14جون تک فوج شمالی وزیرستان کے87فیصد حصے کو دہشت گردوں سے آزاد کرا چکی تھی‘ 10فیصد ایریا ایسا تھا جہاں لڑائی جاری تھی یعنی وہ ایریا نہ مکمل طور پر دہشت گردوں کے کنٹرول میں تھا اور نہ ہی حکومت کے‘ جبکہ فاٹا اور سوات کا صرف3فیصد علاقہ ایسا تھا جو دہشت گردوں کے قبضے میں تھا اور یہیں سے پورے ملک
میں حملوں کی منصوبہ بندی ہوتی تھی۔اس سال جب مذاکرات کا آغاز ہوا تو عسکریت پسندوں نے حملے جاری رکھے جس کے نتیجے میں 24 جنوری سے 8جون تک دہشت گردی کے 20بڑے واقعات ہوئے جن میں 195عام شہری اور جوان شہید ہوئے۔ آپریشن کا اصولی فیصلہ کراچی ایئر پورٹ پرحملے کے بعد ہوا ۔آپریشن میں فوج ‘ ایس ایس جی‘ ایف سی ‘ خاصہ داروں اور خفیہ ایجنسیوں نے حصہ لیا۔آپریشن سے قبل بویا‘ جھالر‘ شوال‘ دتہ خیل‘ میران شاہ اور میر علی کے گرد سکیورٹی فورسز نے ایک بڑا گھیرا بنا لیا۔ میر علی اور میران شاہ میں فوج کی گیریژن موجود ہے جبکہ رزمک میں بھی فوج موجود ہے۔ گھیرا لگانے کا مقصد دہشت گردوں کے فرار کو روکنا تھا۔ اس سے قبل جو دہشت گرد نکل گئے ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن میجر عاصم نے یقین سے کہا کہ 15جون کے بعد یہاں سے دہشت گردوں کے فرار کے امکانات معدوم ہو گئے تھے۔ 15جون کو مقامی مساجد میں اعلانات کئے گئے جن میں لوگوں کو نقل مکانی کے لئے کہا گیا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ زمینی آپریشن 29جون کوشروع ہوا اور ان پندرہ دنوں کے دوران لوگوں کو نکلنے کا موقع دیا گیا۔ اس دوران میں فضائی بمباری اندھا دھند نہیں ہوئی بلکہ پہاڑوں پر موجود مخصوص ٹھکانوں پر کی گئی تھی ۔لہٰذا کسی سویلین کی ہلاکت یا زخمی ہونے کا سوال ہی پیدا نہ
ہوتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کی تصاویر میڈیا میں آتیں۔ ان علاقوں سے نکلنے والے 18راستوں پر فوج کی چیک پوسٹیں بنائی گئیں۔ ہر چیک پوسٹ پر 20بوتھ بنائے گئے۔ ان میں سے دس مردوں اور دس عورتوں کے لئے مخصوص تھے۔ یہاں فوج‘ مقامی انتظامیہ اور نادرا کا عملہ تعینات تھا۔ شناختی کارڈ دکھانا لازمی تھا۔ اسی طرح تمام باشندوں کی انگلیوں کے فنگر پرنٹس بھی لئے گئے اور ہر ایک سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں جانا چاہتا ہے۔ اگر کسی نے کہا کہ وہ پشاور اپنے فلاں رشتہ دار کے ہاں جائے گا تو اس سے اس رشتہ دار کا فون نمبر پوچھا گیابلکہ اس رشتہ دار کو انتظامیہ کی طرف سے فون کر کے کنفرم بھی کیا گیا کہ آیا اس کا اس سے کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں۔ اس تمام عمل کے بعد کلیئرنس دی جاتی اور آئی ڈی پیز بنوں اور دیگر علاقوں کی طرف روانہ ہو جاتے۔ آپریشن کے صرف دس روز کے اندر اندر فوج نے میران شاہ کا علاقہ کلیئر کر لیا۔ عسکریت پسندوں نے یہاں قدم قدم پر بارودی مواد نصب کر دیا تھا جسے ساتھ ساتھ کلیئر کیا گیا۔ جس طرح ہمارے ہاں لاہور میں ہال روڈ پر الیکٹرانکس کے آلات فروخت ہوتے ہیں‘ اسی طرح میران شاہ کے بازاروں میں خطرناک اسلحہ‘ بارودی سرنگوں‘ خود کش جیکٹوں اور راکٹ لانچروں کا جمعہ بازار لگتا تھا۔ یہاں سے کوئی بھی پیسے دے کر خریداری کر سکتا تھا۔ بیس ہزار سے لے کر پانچ لاکھ روپے تک میں بارودی سرنگیں لگانے کی ڈیوائسز عام ملتی تھیں۔ دکاندار گاہک سے پوچھتا کہ آپ نے کتنے بندے مارنے ہیں‘ پانچ، دس ، بیس ، پچاس یا زیادہ۔ جتنے زیادہ بندے اڑانے ہوں‘ اتنی ڈیوائس مہنگی ملتی تھی۔ میجر عاصم نے پروجیکٹر پر ان آئی ای ڈیز کی تصاویر بھی دکھائیں۔ان میں سے سب سے چھوٹی کولڈ ڈرنکس کے کین میں بنائی گئی تھیں ۔ ظاہر ہے یہ زیادہ نقصان دہ نہ تھیں اور ان سے صرف سسرال والوں یا ہمسایوں کو ڈرایا جا سکتا تھا۔ دہشت گردوں نے ایک مکان کے دروازے پر ایک قرآن مجید میں سے صفحات نکال کر اس میں بارودی مواد چھپایا ہوا تھا اور جیسے ہی دروازہ کھلتا‘ یہ دھماکے سے پھٹ جاتا۔ میران شاہ بازار آدم خور بازار کے نام سے مشہور تھا۔ اسی بازار کی ایک دکان کے نیچے ایک پھٹہ موجود تھا جہاں لٹا کر لوگوں کو ذبح کیا جاتا اور چوبیس گھنٹے کیلئے سر بازار لٹکا دیا جاتا تاکہ زیادہ سے زیادہ دہشت پھیلے۔ عسکریت پسند جدید سامان سے لیس تھے۔ موبائل میڈیکل یونٹ اور جدید ہمر گاڑیاں بھی ملیں جن کے اوپر راکٹ نصب تھے۔ میران شاہ بازار میں شیریں زادہ جہاد پی سی او اور انٹرنیٹ کلب قائم تھا۔ ٹی ٹی پی کا ترجمان شاہد اللہ شاہد بھی یہیں سے میڈیا کو فرمان جاری کرتا اور یہیں سے پورے ملک کو بھتے کی کالیں بھی کی جاتی تھیں۔اسی بازار سے ملحقہ ایک بند گلی کے آخری مکان کے اوپر والے پورشن میں خودکش بمباروں کا ٹریننگ سنٹر قائم تھا۔ یہیں سے مختلف ممالک کی کرنسی بھی برآمد ہوئی۔ سب سے زیادہ افغان کرنسی ملی جو دو کروڑ روپے کے برابر تھی۔ جس روز یہ بریفنگ ہوئی‘میران شاہ سو فیصد کلیئر ہو چکا تھا جب کہ اس وقت میر علی کا بڑا حصہ کلیئر ہو چکا ہے اور فوج کا اگلا ہدف دتہ خیل ہے۔
بریفنگ ختم ہو گئی لیکن میں یہ مسلسل سوچتا رہا کہ یہ آپریشن تو مزید چند دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہو جائے گا لیکن اس ملک کے اُن اداروں اور ان علاقوں میں آپریشن کون اور کب کرے گا جہاں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں جہنم بن چکیں‘ جہاں عام لوگوں کو جانوروں کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے اور جہاں خواجہ آصف اور عبدالقادر بلوچ جیسے لوگ اپنی حکومتی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے سچ بول کر اچھا کیا‘ لیکن انہیں ایک کام اور کرنا چاہیے تھا‘اگر یہ لوگ ایک سادہ کاغذاور قلم پکڑتے اور اپنا استعفیٰ لکھ کر گھر چلے جاتے تو کم از کم اس بات کی تو نفی ہو جاتی کہ یہ لوگ محض اقتدار اور پیسے کی ہوس میں وزارتوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔ملک ‘ نظام اور ادارے محض دعائوں‘ معافیوں اور رونے والی شکلیں دکھانے سے نہیں چلا کرتے بلکہ اس کے لئے لیڈروں اور سیاستدانوں میں ویژن‘ کمٹمنٹ اور صلاحیت کا ہونا ضروری ہے ۔ افسوس‘ ہمارے حکمران اور سیاستدان ان تینوں خوبیوں سے محروم ہیں۔