کبھی صحافی اسے سمجھا جاتا تھا جس کا دماغ چلتا ہو‘ لیکن اب صحافی وہ مانا جاتا ہے جس کی زبان بھی چلتی ہو۔ اس حقیقت کا عملی اندازہ مجھے دنیا ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام ''تلاش‘‘میں شرکت سے ہوا۔ یہ پروگرام 26جولائی کی رات دس بجے ٹیلی کاسٹ ہوا۔ اس سے قبل جب بھی کسی چینل نے مدعو کیا تو میں نے انکار کر دیا۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔ ایک‘ جن ٹاک شوز کی دعوت موصول ہوئی‘ ان کا موضوع میرے لئے باعث کشش نہ تھا لہٰذا ایسے پروگرام میں محض ''بُت‘‘ بن کر بیٹھنے کی بجائے میں نے پرہیز ہی بہتر سمجھا۔ انکار کی دوسری وجہ کیمرہ تھی۔ میں شروع سے ہی ''کیمرہ شائی‘‘ رہا ہوں۔ سکول میں چند مرتبہ رٹی رٹائی تقریروں کے سوا سٹیج پر جانے کی غلطی کم ہی کی۔ مجھے لگتا تھا کہ کیمرہ نہیں بلکہ کوئی آپ کی طرف بندوق کا نشانہ لے کر کھڑا ہے اور اس پر ستم یہ کہ آپ سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فر فر بولو بھی۔ ایسی سیچوایشن کسی سزا سے کم نہیں ہوتی۔ میرا خیال تھا کہ کبھی زندگی میں کسی نے زبردستی پکڑ کر کیمرے کے سامنے بٹھا بھی دیا تو یا تو میں بے ہوش ہو جائوں گایا پھر جیسے ہی کیمرہ کسی دوسرے مہمان کی طرف ہو گا‘ میں چپکے سے اُسی طرح بھاگ اُٹھوں گا جس طرح بچپن میں گرمیوں کی چھٹیوں میں بچوں کو ٹنڈ کروانے کے لئے دکان پر لے جایا جاتا ہے تو ایک کی ٹنڈ شروع ہوتے ہی باقی بھاگ اٹھتے ہیں۔اس شو کی ہامی بھرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کا
بنیادی خیال میرے 15جولائی کے کالم سے لیا گیا تھا۔ میں نے اپنے کالم میں واپڈا کا بارہ کروڑ کا ایک سکینڈل اور صحافی طارق عبداللہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان بیان کی تھی کہ کس طرح ایک ٹرانسفارمر پھٹنے سے ان کی اہلیہ جاں بحق ہو گئیں اور وہ خود شدید زخمی ہو گئے۔ ان پر ٹرانسفارمر پھٹنے سے 120ڈگری سینٹی گریڈکا کھولتا ہوا دو سو لیٹر تیل گر گیا تھا۔ محترم انیق ناجی کا خیال تھا کہ یہ عوامی ایشوہے اور اسے الیکٹرانک فورم پر بھی اٹھانا چاہیے۔ وہ اس سے قبل بھی اپنے پروگراموں کے لئے ایسے ایشوز کا انتخاب کرتے ہیں جن کا براہ راست تعلق عوامی مسائل سے ہو۔ چونکہ یہ میرا پسندیدہ سبجیکٹ تھا‘ اس لئے میں نے خود کو قدرے پراعتماد محسوس کیا ،لہٰذا نہ ہی میں بے ہوش ہوا اور نہ ہی شو کے دوران مجھے اٹھ کر بھاگنا پڑا۔ پروگرام میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے نئے نئے بہانے کیوں بناتی ہے۔ ابتدا میں کبھی گردشی قرضے کا بہانہ اور اب ایک سال بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ انفراسٹرکچر 13ہزار یا 16ہزار میگا واٹ سے زیادہ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ یعنی ایک سال تک یہ بتایا جاتا رہا کہ ملک میں بجلی کے نئے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں جن میں نندی پور ‘ قائد اعظم سولر پارک بہاولپور اور کوئلے کے پلانٹس وغیرہ شامل ہیں اور اب پتہ چلا ہے کہ جس گلاس میں پانی بھرا جا رہا ہے اس کا تو پیندا ہی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سسٹم بجلی کا لوڈ نہیں اٹھا سکتا تھا تو پھر بجلی کے نئے منصوبوںکے اعلانات کیوں کئے گئے۔ کیوں اسی وقت سمت متعین نہ کی گئی اور اگر سسٹم بجلی کا لوڈ نہیں اٹھا سکتا تو پھر عید کے تین دنوں میں بجلی چوبیس گھنٹے کیسے دستیاب ہو جاتی ہے۔ اس عید پر بھی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کیلئے حکومت نے بیس ارب جاری کئے ہیں ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ پیسے دینے سے ختم ہو سکتی ہے اور سسٹم اور ٹرانسمیشن لائن کی کمزوری ایک بہانہ ہے تاکہ کرپشن اور ناقص مشینری کی سپلائی کا ایک نیا راستہ کھولا جا سکے۔
جس ''سنجیدگی ‘‘ کے ساتھ سیاستدان ملک چلا رہے ہیں‘ ٹاک شوز میں بھی یہ لوگ اسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا کوئی بھی نمائندہ ہو‘ اور ٹاک شو کا موضوع لوڈشیڈنگ ‘ فلسطین میں اسرائیلی مظالم یاامریکی صدارتی الیکشن ہو ‘ وہ بات یہاں سے شروع کرے گا کہ میرے قائد میاں نواز شریف و میاں شہباز شریف و حمزہ شہباز شریف...اور اس کے بعد رونا شروع کر دے گا کہ ہمیں مسائل ورثے میں ملے ہیں اور اگر 99ء میں ہماری حکومت نہ گرائی جاتی تو ہم یہ کر دیتے وہ کر دیتے‘ پیپلزپارٹی کا ترجمان بھٹو کے کارنامے اور شہادتیں گنوائے گا لیکن یہ نہیں بتائے گا کہ اس کے وارثین نے اپنی تین حکومتوں میں کون سا کارنامہ انجام دیا‘ پی ٹی آئی کے مہربان بھی اپنے لیڈر کے قلابے آسمان سے ملاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ تین سو کنال کے گھر میں رہنے والا اور صرف دیسی مرغی کھانے والا غریبوں کا درد کیسے محسوس کر سکتا ہے‘ انہی باتوں میں موضوع پیچھے رہ جاتا ہے ‘بات کہیں اور نکل جاتی ہے اور یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔ یہ باتیں سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے ہیں کہ ہم نے ایٹمی دھماکہ کیا‘ ہم نے فلاں کام کیا۔ او بھائی ! دھماکہ سولہ سال پہلے کیا تھا‘ جو آج کے ایشوز ہیں وہ پرانے دھماکوں سے کیسے حل ہوں گے۔ دوسرا المیہ حکمرانوں کی ڈھٹائی کی انتہا کا ہے۔ کسی زمانے میں اخبار کے پانچویں صفحے پر سنگل کالم خبر پر ایکشن ہوجاتا تھا لیکن آج سینکڑوں اخبارات کی خبروں اور کالموں اور ستر ٹی وی چینلز کے سینکڑوں پروگراموں میں آئے روز سکینڈلز سامنے لائے جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگے۔ ایسی ایسی خبریں اور ٹی وی رپورٹس چلتی ہیں کہ ایم پی اے تھانے پر حملہ کر رہا ہے‘ پولیس افسران گلو بٹوں کو شاباش دے رہے ہیں اور ثبوتوں کے ساتھ سکینڈل سامنے لائے جاتے ہیں لیکن کیمرے کی آنکھ میں آ جانے کے باوجود کوئی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک جنگل ،بیابان یا صحرا میں موجود ہیں‘ چیخ چلا رہے ہیں اور اپنی ہی آوازوں کی بازگشت سننے پر مجبور ہیں۔دیگر ہزاروں ٹاک شوز کی طرح اس شو میں بھی یہی ہوا۔ پی ٹی آئی کی ناز بلوچ اور مسلم لیگ ن کے جاوید لطیف موضوع پر رہنے کی بجائے ایک دوسرے کے ''لیڈروں‘‘ اور ''کارناموں ‘‘پر الزام تراشی میں لگے رہے اور ہم ان کا منہ دیکھتے رہے کہ کب یہ لوگ سنجیدہ ہو ں گے۔
حکمران اگر کچھ کر سکتے ہیں تو عوام کے ساتھ صرف مذاق ہی کر سکتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال نیپرا کا بجلی کے نرخوں میں آٹھ پیسے فی یونٹ کمی کا اعلان ہے ۔ یعنی تین سو یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کر نے والوں کے لئے بائیس روپے اور چھ سو یونٹ والوں کے لئے چالیس روپے کی چھوٹ۔ عوام کو حکومت کی طرف سے یہ ''عیدی‘‘ بہت بہت مبارک!