ہر ڈکٹیٹر اور مفاد پرست کو کندھا دینے کیلئے معروف مولانا فضل الرحمن ‘ جن پر سابق دور میں ہزاروں ایکٹر اراضی حاصل کرنے کا الزام ہے اور جو ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل طالبان کے خیر خواہ جانے جاتے ہیں‘نے گزشتہ روز کہا کہ رات کو دھرنوں میں مجرے ہوتے ہیں۔ مولانا صاحب کی سیاست اور سیاسی مفادات تک سے تو عوام بخوبی واقف ہو چکے تھے لیکن ان کی ذات کا اتنا احترام ابھی تک لوگوں میں موجود تھا کہ وہ ایک بڑی مذہبی شخصیت کے صاحبزادے ہیں اور کسی نہ کسی طور دینی خدمات انجام دے رہے ہیں‘ مگر ایسا لگتا ہے وہ نہیں چاہتے کہ لوگ ان کا اتنا بھی احترام کریں جو کسی بھی باریش شخص کا کیا جاتا ہے۔ مولانا صاحب نے چونکہ کوئی ثبوت پیش نہیں کیا تو پھر کل کو کوئی بھی اُٹھ کے کہہ سکتا ہے کہ مولانا صاحب کے فلاں مدرسے میں طالبعلم بچوں کے ساتھ فلاں سلوک ہوتا ہے‘ انہیں مناسب خوراک‘ صحت اور رہائش کی سہولتیں میسر نہیں اور کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ان کے مدارس میں جو پیسہ آتا ہے ‘ چونکہ اس کا آڈٹ نہیں ہوتا‘ وہ دہشت گردی کیلئے استعمال ہورہا ہے یا مذہبی لیڈران کی ذاتی ضروریات اور آسائشوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسا کہنا درست نہیں کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ جب عمران خان کے جلسے میں ڈیزل کے نعرے لگتے تھے اور عمران خان انہیں مولانا ڈیزل کہتے تھے تو میں نے خود اپنے کالموں میں لکھا کہ عمران خان کو ایسا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ جہاں عمران خان قرآن کی دیگر آیات کے حوالے دیتے ہیں‘ اسی قرآن کی آیت ہے کہ کسی کو برے القابات سے مت پکارو‘ میں نے یہ پیغام ذاتی طور پر پی ٹی آئی کے انچارج مرکزی میڈیا سیل رضوان چودھری کو بھی دیا کہ وہ عمران خان تک میرے جذبات پہنچا دیں۔ اس کے بعد عمران خان نے جلسے کے شرکا کے مطالبے کے باوجود شاذو نادر ہی مولانا صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ لیکن اب مولانا صاحب نے وہی الزام دہرا کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ قوم کی بچیوں ‘ مائوں اور بہنوں کو بھی بخشنے کو تیار نہیں اور نہ ہی اپنی مزید عزت کروانا چاہتے ہیں۔ان جیسے علما کو تو اپنے اخلاق‘ کردار اور اپنے افعال سے عام مسلمانوں کو دین کے قریب لانے کا کام کرنا تھا لیکن یہ تو دین سے قریب آئے ہوئے لوگوں کو بھی دین سے دُورکر رہے ہیں۔ سیاست اور لالچ کی کوئی انتہا اور کوئی حد تو ہوتی ہو گی؟ مولانا صاحب کو فرصت ملے تو ضرور سوچیں۔
نون لیگ کے متعلق کبھی کہا جاتا تھا کہ یہ کھمبا کھڑا کرے تو وہ بھی جیت جاتا ہے ‘ ملتان میں جاوید ہاشمی کی شکست سے ثابت ہو گیا کہ نون لیگ کھمبا تو کیا ٹرانسفارمر یا گرڈ سٹیشن بھی کھڑا کر دے تو بھی اسے آسانی سے جتا نہیں سکتی بلکہ اب تو نون لیگ کے حالات کچھ اس طرح کے ہو گئے ہیں کہ جس امیدوار پر اس کا سایہ پڑ جائے اس کی ناکامی اٹل ہو جاتی ہے۔ سعد رفیق نے درست کہا ہے کہ سو عمران اور سو قریشی جمع ہو جائیں تو ایک جاوید ہاشمی نہیں بن سکتے۔ کیونکہ نہ تو عمران خان بغاوت کے نام پر پارٹیاں بدل سکتا ہے نہ ہی ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کا عادی ہے۔ جاوید ہاشمی آمریت کے باغی کہلاتے رہے لیکن خود ساری عمر آمریت کی کوکھ سے نکلنے والی جماعت کا نمک کھاتے رہے۔ وہ آمریت کے باغی کیوں تھے ‘اس کی وجہ صرف اور صرف سیاسی جماعتوں کو لوٹ مار کی اجارہ داری دلانا تھا۔ ان کے اسی جذبے کو نون لیگ نے بڑے شاطرانہ انداز میں استعمال کیا۔ کیونکہ آمریت کے ہوتے ہوئے نہ ہی سیاسی لٹیروں کی دکان چل سکتی ہے نہ ہی یہ عوام کو بیوقوف بنا سکتے ہیں۔ تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں‘ چار فوجی ادوار میں کرپشن زیادہ ہوئی یا سیاسی ادوار میں۔ ترقی کب ہوئی اور لوٹ مار کب ہوئی۔ مہنگائی کن ادوار میں زیادہ تھی اور خوشحالی کب تھی‘ سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ آمریت کی بغاوت دراصل ایک ڈھونگ ہے تاکہ کوئی ان کے ٹھوٹھے میں ڈانگ نہ مارے۔
بلاول زرداری کی مثال سکول کے اس بچے جیسی ہے جو آدھی چھٹی کے دوران لوگوں کو چھیڑ کر بھاگ جاتا ہے ‘ سب اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور پھر شرارتی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔دو ہفتے قبل تک موصوف کی پارٹی سمیت گیارہ جماعتیں ایک طرف اور تحریک انصاف ایک طرف کھڑی تھی اور اب موصوف ساری جماعتوں کو یوں آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں جیسے سامنے اُلو کے پٹھے بیٹھے ہوں۔ وہ مشرف کے خلاف بولے‘ جنہوں نے این آر او
کرایا جس سے اُن کی والدہ کے مقدمات معاف ہوئے اور وہ پاکستان آ سکیں۔ وہ ایم کیو ایم کے خلاف بولے جو سندھ میں ان کی اتحادی ہے اور جن کے بغیر وہ چل نہیں سکتے نہ چلنا چاہتے ہیں۔ وہ شریف برداران کے خلاف بولے جنہوں نے ان کے ابا حضور کی چند روز قبل چالیس ڈشوں سے تواضع فرمائی تھی اور جن کے ساتھ میثاق لندن کے تحت باریوں کا مک مکا ہو چکا ہے۔ انہوں نے اپنی ماں کے قاتلوں کے حوالے سے سوال کیا لیکن ساتھ کھڑے والد گرامی سے نہیں پوچھا کہ پاپا جانی! پانچ برس تک آپ نے اپنی زوجہ اور میری والدہ کے قاتلوں کو پکڑنے کیلئے کیا کیا اور ایک شخص جسے میری والدہ نے خط میں نامزد کیا تھا ‘ اُسے آپ نے ڈپٹی وزیراعظم کیوں بنا دیا؟ بلاول بھٹو پہلے اپنے والد اور مشیروں سے پوچھ لیں کہ ان کی نورا کشتی کس کے ساتھ ہے اور اُن کا اصل حریف کون ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ تمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں ایک طرف اور تحریک انصاف ایک طرف ہے۔ رہ گیا بلاول زرداری اور عمران خان کا مقابلہ تو بھائی بلاول زرداری تو جمہوریت کے پہلے ٹیسٹ میں ہی فیل ہو چکا ہے کہ وہ لیڈر ہی اس بنیاد پر بن رہا ہے کہ اس کے والد صاحب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ بلاول سے قبل جتنے لوگوں نے بھی گھسی پٹی تقریریں کیں‘ انہیں دیکھ کر وہ پانچ برس یاد آ گئے کہ کس طرح یہ ملک کو لوٹتے کھسوٹتے رہے اور اب ایک مرتبہ پھر اُچھل اُچھل کر فنکاریاں دکھا رہے ہیں کہ شاید عوام کو پھر پاگل بنا سکیں۔ حقیقت میں پیپلزپارٹی کا احیااب ممکن ہے نہ نون لیگ کو فیس سیونگ ملنے کی کوئی امید باقی ہے البتہ کچھ صحافیوں کا دال دلیا ضرور ہورہا ہے ۔ مشرف صاحب نے پاکستان آتے وقت بھی دبئی میں ایسے ہی صحافیوں سے مشورہ لیا تھا جنہوں نے کہا تھا آپ ایک مرتبہ پاکستان آئیں‘ فیس بک والے لاکھوں فین آپ کو سر آنکھوں پر بٹھا لیں گے‘ لوگ آپ کی معیشت اور ترقی کو یاد کر کے روتے ہیں۔ یہ کہہ کر ان دانشوروں نے اپنی جیبیں کھری کر لیں لیکن مشرف صاحب ایئرپورٹ پر آئے تو بارہ چودہ لوگ ہی ان کے استقبال کیلئے کھڑے تھے۔ اس کے بعد مشرف لیگ کے ساتھ کیا ہوا‘ وہ سامنے کی بات ہے۔ نون لیگ تو ویسے ہی فارغ ہو چکی۔ پیپلزپارٹی کا انجام بھی مختلف نہ ہو گا۔
بغض‘ کینہ اور حسد انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے‘ یہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے ثابت کر دیا۔ عمران خان نے کبھی خود کو جوان کہا‘ نہ ہی انہیں اپنی عمر چھپانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی سر پر مصنوعی بال لگوا کر وہ جوان نظر آنا چاہتے ہیں۔ نوجوانوں سے ان کی نسبت اس طرح ہوئی کہ انہوں نے سب سے پہلے اس ملک کی یوتھ کی اہمیت بیان کی‘ ان کے مسائل کو اُجاگر کیااور بتایا کہ ساٹھ فیصد آبادی پر مشتمل نوجوان طبقہ کن مشکلات سے دوچار ہے۔ اس کے بعد نون لیگ نے نقالی شروع کی اور لیپ ٹاپ اور قرضے وغیرہ بانٹنے شروع کر دئیے۔ لیکن پھر وہی بات کہ گدھا خود پر لکیریں ڈال لے تو وہ زیبرا نہیں بن سکتا‘ گدھا ہی رہتا ہے۔
پس تحریر: عبدالستار ایدھی صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ انتہائی قابل افسوس ۔ یہ بھی خدا کا شکر کہ وہ پنجاب میں نہیں رہتے وگرنہ پنجاب پولیس کب کی انہیں اندر کر چکی ہوتی۔ البتہ جس ملک میں قبروں سے کتبے اور میتوں کے کفن چرا لئے جائیں‘ وہاں سکیورٹی کے کچھ تو اقدامات ہونے چاہئیں۔ مذکورہ ایدھی سنٹر میں کیمرے تھے نہ سکیورٹی کا خاص انتظام۔ مستقبل میں احتیاط برتی جانی چاہیے تاکہ لوگ اعتماد کے ساتھ عطیات و صدقات بھجوا سکیں۔