ہم صحافی خود کو بڑا تیس مار خان سمجھتے ہیں لیکن شاید ہی کوئی صحافی ہو جو بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑی چلا رہا ہو۔ یہ تو ہو سکتا ہے کوئی جعلی‘ چھوٹی بڑی یا رنگ برنگی نمبر پلیٹ لگا لے ‘ لیکن بڑے سے بڑا پھنے خاںبھی بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑی سڑک پر لائے گا تو ٹریفک وارڈن چالان کر سکے یا نہ‘ لیکن ایک بار گاڑی ضرور روک لے گا اور اگر کوئی موٹر وے پر ایسا کرے گا تو اس کی جان چھٹنامشکل ہے۔ لیکن یہ کیا ؟ ہمارے چیف صاحب نے تو کمال کر دیا۔ یعنی عوام کو قانون کی سربلندی کے لیکچراور خود قانون کی سرعام خلاف ورزی۔ مجھے پاکستان کا کوئی آئین اور کوئی قانون دکھلا دیں جس میں لکھا ہو کہ ریٹائرڈ چیف جسٹس یا کوئی سرکاری یا نجی شخصیت بغیر نمبر کے گاڑی سڑک پر لا سکتی ہے۔ سکیورٹی کی بلیو بک میں بھی وی وی آئی پی شخصیات کی گاڑیوں کو نمبر الاٹ ہوتے ہیں لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔ یعنی کسی رکشے یا کسی موٹر سائیکل والے کی مونچھیں ذرا ٹیڑھی محسوس ہوں تو وارڈن اسے روکے گا بھی‘ اس کا چالان بھی کرے گا‘ ساتھ دو گالیاں اور تھپڑ بھی جڑ دے گا لیکن دوسری جانب وہ جنہیں ہم عدلیہ کا افتخار سمجھتے رہے‘ وہ ایسا کریںتو نہ آسمان ٹوٹے نہ زمین پھٹے اور جب ان سے پوچھا جائے کہ حضور یہ آپ نے کیا کیا تو جواب ملے‘ یہ میرا کام نہیں ہے‘سکیورٹی والوں سے پوچھیں۔ وہاں سے جواب ملے کہ موصوف کو سکیورٹی خدشا ت ہیں‘ تو بھائی سکیورٹی خدشات اس ملک میں کس کو نہیں؟ جو پچاس ہزار عام لوگ دہشت گردی میں قربان ہو چکے انہیں خدشات نہ تھے؟ جو باقی کروڑوں بچے ہیں انہیں خطرات نہیں ہیں؟ چلو یہ بڑی شخصیت ہیں‘ انہیں خدشات ہو سکتے ہیں تبھی تو انہیں غریبوں کے ٹیکسوں سے
اڑھائی کروڑ کی بلٹ پروف گاڑی عنایت کی گئی‘ خدشات تھے تو وہی پولیس آپ کو پروٹوکول دے رہی تھی جو عام لوگوں کو جب چاہے ‘ جہاں چاہے گولیاں ماردیتی ہے اور اس کے لواحقین پر پرچہ کاٹ دیتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نمبر لگانے میں کیا مضائقہ تھا اور سکیورٹی خدشات کس چیف جسٹس کو نہیں ہوتے؟ آسٹریلیا کا ہائی کورٹ کا حاضر چیف جسٹس ایک ٹیکسی میں آتا ہے اور ٹیکسی میں چلا جاتا ہے۔ کیا پاکستان آسٹریلیا سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس ملک میں سب سے زیادہ خطرہ اگر کسی کو ہے تو طالبان سے ہے اور طالبان کے خلاف سب سے طویل اور دبنگ فتویٰ کسی نے دیا تو ڈاکٹر قادری نے دیا۔ آپ ذرا قادری صاحب کی شخصیت کے پراسرار پہلو ایک طرف رکھیں لیکن یہ تو مانیں کہ یہی قادری صاحب دو مہینے تک کنٹینر سے باہر آ کر بغیر بلٹ پروف جیکٹ کے کئی کئی گھنٹوں تک وقت کے حکمرانوں کو للکارتے رہے‘ دھرنے میں خودکش حملہ آوروں کی اطلاعات کے باوجود وہ روزانہ درجنوں مرتبہ کھلی فضا میں خطاب کرتے رہے توپھر باقی وی آئی پیز موت سے اتنا کیوں ڈرتے ہیں؟نمبر پلیٹ لگانے سے اگر جان کو خطرہ بڑھ سکتا ہے تو پھر امریکہ کا صدر ایسا کیوں نہیں کرتا۔ اسے تو نائن الیون کے بعد لاکھوں افراد کا قاتل کہا جاتا ہے تو پھر اس کی دس لاکھ ڈالر مالیت کی کار پر 800-002نمبر کی پلیٹ کیوں لگی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے بعد دوسرا اتحادی برطانیہ تھا‘ برطانوی
وزیراعظم کے زیر استعمال جیگوار کا نمبرAG59 OHH ہے‘ اسی طرح جرمنی کے صدر کے زیراستعمال مرسڈیز کا نمبر0-1ہے‘ کیا یہ سب پاگل ہیں اور ہمارے حکمران ہی افلاطون ہیں؟ میںپوری دنیا کی اہم شخصیات کی گاڑیوں کے نمبر دے سکتا ہوں لیکن اس سے کیا فرق پڑے گا۔ عوام اپنا دل جلائیں گے اور بس۔ ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ ہمیں برسوں رُول آف لا کا سبق پڑھایا گیا۔ ہم اس کا مطلب یہی سمجھے کہ شایدقانون بالادست ہے اور سبھی کو اس کا احترام کرنا ہے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ اس سبھی میں کچھ ہستیاں شامل ہی نہیں ۔رُول آف لاء پر مہر تصدیق تو تب ثبت ہوتی جب سپریم کورٹ کے حاضر چیف جسٹس نمبر پلیٹ کی عدم موجودگی کا از خود نوٹس لیتے اور عدالت میں بلا کر پوچھتے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف قانون توڑنے کی کارروائی کی جائے۔ عتیقہ اوڈھو کے بیگ سے شراب کی بوتلیں نکلنے پر ازخود نوٹس ہو سکتا ہے تو اس پر کیوں نہیں؟ بغیر نمبر کے گاڑی قانوناً صرف پندرہ روز سڑک پر چل سکتی ہے لیکن اسے سڑک پر آئے تو کئی ماہ ہو چکے۔ کہا گیا یہ نان ایشو ہے۔ میڈیا بات کا بتنگڑ بنا دیتا ہے۔ نہیں جناب نہیں۔ یہ مرسڈیز بھی عوام کے ٹیکسوں کی اور اس کی حفاظت کرنے والی پولیس بھی عوام کے پیسوں سے چلنے والی تو پھر عوام حساب کیوں نہ مانگیں۔ جب یہی لوگ نبی اکرم ﷺ کی حدیث سنا کر فیصلے دیتے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا ‘میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دئیے جاتے تو ہم بڑا متاثر ہوتے تھے کہ ملک میں واقعی رُول آف لا نافذ ہو گیا ہے لیکن یہ کیا؟ ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی رُول آف لا بھی ریٹائر ہو گیا؟
اس قوم کے ساتھ مذاق کب ختم ہو گا۔ یعنی گلو بٹ کو گیارہ برس کی سزااور جو اسے جھپیاںڈال رہے تھے‘ جن کی سرپرستی میں توڑ پھوڑ جاری تھی وہ قانون کے شکنجے سے دور کیوں؟ وہ ایس پی ماڈل ٹائون جو گلو بٹ سے ''عید‘‘ مل رہا تھا‘ وہ سینکڑوں پولیس اہلکار جو اسے گاڑیاں توڑتے دیکھ کر انجان بنے تھے ‘ جرم کی معاونت میں انہیں سزا کیوں نہیں ملی؟ کیا گلو بٹ کا قصور یہی ہے کہ وہ وردی میں نہیں تھا؟ گلو بٹ کو جو شاباش دے رہے تھے اور شاباش دینے والوں کے جو مائی باپ تھے‘ ان کے خلاف تو پرچہ بھی کٹ چکا تو ان کی کورٹ میں پیشی کب ہو گی؟ یعنی عام بندے پر ایف آئی آر ہو تو وہ تھانے بھی جائے‘ چھتر بھی کھائے‘ اس کی ٹانگوں پر رولر بھی پھیرے جائیں اور عوام کے ٹیکس ڈکارنے اور ان سے سوئس اکائونٹس بھرنے والوں کیخلاف ایف آئی آر کٹے تو انہیں نہ پولیس پوچھنے جائے‘ نہ عدالت پولیس سے پوچھے‘ نہ عدالت خود انہیں طلب کرے تو پھر اس ملک میں
اعلانیہ جنگل کا قانون کیوں نافذ نہیں کر دیا جاتا؟
کہتے ہیں دھرنے غلط ہیں۔ کوئی لوگ جاگے واگے نہیں۔ تبدیلی اوپر سے نہیں‘ نیچے سے آئے گی۔ واہ کیا منطق ہے۔ میں پوچھتا ہوں ایک بچہ جب سکول جاتا ہے تو کیا وہ دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر کوئی تحریک چلا کر سکولوں کے اصول وضع کرتا ہے؟ کہتے ہیں عوام خود کوبدلیں حکمران بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ ماشا اللہ ‘ پھر آ گئی تبدیلی۔ یعنی ان کی منطق یہ ہے کہ سسٹم کو چلنے دیں جیسے چل رہا ہے‘ جمہوری حکومتوں کے ملاپ سے خیر نکل ہی آئے گا۔ یعنی زرداری صاحب کی جمہوری حکومت نے نوازشریف کو حکومت دی‘ نواز شریف صاحب بلاول زرداری کو دے دیں گے‘ بلاول صاحب شہباز شریف کو دے دیں گے‘ شہباز شریف آصفہ بھٹو کو تھما دیں گے‘ آصفہ زرداری حمزہ شہباز کو منتقل کردے گی اور حمزہ شہباز ابن مریم کو منتقل کر دے گا اور ابن مریم ابن بلاول کو اور ابن بلاول ابن حمزہ کو اوریوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور ایک نہ ایک روز سسٹم بن جائے گا ۔یہ ہے ان کی تبدیلی کا فلسفہ۔ ان سے کوئی پوچھے کہ موٹر وے پر عوام خود کو تبدیل کرتے ہیں یا وہاں ایک سسٹم عوام کو قابو کرتا ہے۔ یہ باقی ملک میں بھی ایسا سسٹم بنا دیں ‘ خود کو بھی قانون کے تابع کر دیں‘ عوام بھی سیدھے ہو جائیں گے اور تبدیلی بھی آ جائے گی لیکن یہ ایسا کریں گے کیوں؟
پس تحریر: فیس بک پر کچھ ایسا دیکھا جس نے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔ امریکہ اور یورپ کی گندگی ہمارے بچوں کو کس طرح اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے‘ والدین کہاں گم ہیں‘ ہمیں کیا کرنا چاہیے‘ اس حوالے سے کچھ انکشافات آئندہ کالم میں۔