میں چند ہفتے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ میں موجود تھا کہ کسی نے جنرل عاصم سلیم باجوہ سے سوال کیا کہ جب سارا شمالی وزیرستان آپ نے خالی کرا لیا ہے تو جنگ کس سے لڑ رہے ہیں؟یہ سن کر ہم سب ایک دوسرے کو تکتے رہ گئے۔ جنرل صاحب نے تو انہیں خاصا تسلی بخش جواب دیا لیکن میں یہ سوچنے لگا کہ اس طرح کے سوالوںسے ہم حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ضرب ِعضب سے قبل بھی ہمارے پانچ ہزار سکیورٹی افسران و اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز بھی شمالی وزیرستان میں جھڑپ میں 3فوجی شہید ہوئے ۔ بندہ ان سے پوچھے‘ اگر وہاں دہشت گرد موجود نہیں تو پھر یہ فائر کہاں سے آتے ہیں‘ راکٹ کہاں سے داغے جاتے ہیں اور کیا وہاں کوئی خلائی مخلوق حملہ آور ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک اپنی پاک فوج کی قربانیوں کا ادراک ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کو قربانی دیکھنی ہے تو اس ماں سے پوچھیں جس کا بیٹا وطن کی مٹی پر قربان ہوا‘ اس دلہن سے پوچھیں جس کا وہ سہاگ تھا‘ ان بچوں سے پوچھیں جو یتیم ہو گئے‘ اس کے باوجود یہ سب حوصلے میں ہیں‘ انہیںان شہادتوں پر فخر بھی ہے اور ناز بھی۔ پاک فوج ہمارے سکون‘ ہماری خوشیوں اور ہمارے ارمانوں کے لئے لڑ رہی ہے‘ یہ ہمارے دن کے چین اور ہماری رات کی نیند کی محافظ ہے۔گزشتہ روز مانسہرہ کے ایک اور سپوت میجر واصف نے جام ِ شہادت نوش کیا ‘اپنی جان ہمارے کل کیلئے قربان کر دی اور ہم ابھی تک اس شش وپنج میں ہیں کہ یہ جنگ ہے کیا اور کس سے لڑی جا رہی ہے۔
گزشتہ روز تحریک انصاف کی ریلی پر گولیاں چلنے کے باوجود
خواتین اور بچوں کا بڑی تعداد میں جلسہ گاہ پہنچنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ لوگ تبدیلی کیلئے اپنی اور اپنے بچوں کی جان تک کی پروا نہیں کر رہے۔ وہ ہر قیمت پر نیا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب یہ عمران خان پر ہے کہ وہ عوام کے اس جذبے کا کتنا احترام کرتے ہیں اور ان کی توقعات پر کس قدر پورا اترتے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کا سحر ہے جو مخالفین کے ہر قسم کے الزامات کے باوجود بدستور قائم ہے اور مزید پھیلتا ہی چلاجا رہا ہے۔ ان کی جگہ کوئی اور لیڈر ہوتا اور اسے ایسی ہی کئی غلطیوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا تو کب کا تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہوتا۔ اس کے باوجود اگر عمران خان اپنی سمت درست نہیں رکھ پاتے اور لوگوں کے جذبے اور محبت کو کیش کرتے ہوئے تحریک کو کامیابی اور ملک کی ترقی میں تبدیل نہیں کرتے تو یہ ان کی اور ملک کی بدقسمتی ہو گی۔
ہر طرح کی تنقید اور حکومتی وزراء کی آنیوں جانیوں کے باوجود قومی ادارے اسی طرح بے لگام ہیں۔ ایک جانب چین سے بجلی کے نئے معاہدے کئے جا رہے ہیں دوسری طرف بجلی کے ادارے ہی ٹھیک نہیں ہو پا رہے۔ نسبت روڈ لاہور کا محمد علیم اس ملک کا بدقسمت رہائشی ہے جسے لیسکو میکلوڈ روڈ ڈویژن نے مسلسل تیسرے مہینے پانچ لاکھ روپے کا بل بھیج دیا ہے۔ اس کا ریفرنس نمبر (46-11332-1134103) میں نے انٹرنیٹ پر ڈالا تو معلوم ہوا کہ اگست سے قبل تک اسے ہر ماہ تین چار سو یونٹس کا بل آتا تھا ۔ لیکن اگست کے بل میں یکدم 31ہزار یونٹ ڈال دئیے گئے۔ اگست کا بل ٹھیک کرایا تو ستمبر میں چھ لاکھ کا بل آ گیا۔ وہ ٹھیک کرایا تو اکتوبر میں ساڑھے چھ لاکھ کا بل آ گیا۔ اب یہ بندہ پاگل ہونے کے قریب ہے۔ یہ کام کن شیروں نے کیا‘ وہ اسی زمین اور اسی شہر کی مخلوق ہیں‘ لیکن ہر کسی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ ایسا کرنے کا حکم اُنہیں اوپر سے ملا تھا۔ جب وزیراعظم ہی ستر ارب روپے کے اووربلنگ کے ڈاکے کو کمیٹیوں کی نذر کر دیں گے تو نیچے والے تو خود ہی شیر بن جائیں گے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ اس شخص نے اگر خدانخواستہ خودکشی کر لی تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا اوراس سے بھی بڑھ کر یہ‘ کہ تب بھی یہ مسئلہ اس خاندان کی جان نہیں چھوڑے گا اور بل کا یہ اژدھا لواحقین کے پیچھے لگ جائے گا۔
چند روز قبل خبر چھپی کہ نون لیگ پنجاب میں تحریک انصاف کی پیروی کرنے اور اس کے منصوبے اپنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ دو روز قبل خیبر پختونخوا اسمبلی میں نون لیگ کے ایم پی اے نے یہ بیان دیا کہ اس صوبے کی پولیس پنجاب سے کئی گنا بہتر ہے۔ چند روز قبل سینئر تجزیہ کار انجم نیاز صاحبہ نے اپنے کالم میں خیبر پختونخوا کی کامیابی کی داستانیں بیان کیں۔ یہ سب اپنی جگہ ٹھیک لیکن تحریک انصاف کو خود بھی سامنے آ کر اپنی کامیابیاں عوام کو بتانا ہوں گی۔ پنجاب اور سندھ کی گڈگورننس سب کے سامنے ہے لیکن یہ دونوں صوبے اپنے کاموں کی ایسی تشہیر کرتے ہیں جیسے وہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں جبکہ تحریک انصاف اتنی خاموشی سے کام کر رہی ہے جیسے وہاں کوئی کام شروع ہی نہ ہوا ہو۔ اوپر سے عمران خان کے چار مہینے کے مسلسل دھرنے سے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ یہ سارے تو یہاں بیٹھے ہیں‘ صوبہ کیسے چل رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان چودہ ماہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخوا میں سب سے پہلے پولیس کو ٹھیک کیا‘ صوبے کے آئی جی کو فری ہینڈ دیا اوراس کے کاموں میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی‘ تاریخ میں پہلی مرتبہ آن لائن ایف آئی آر کا اجرا کیا‘ اسی طرح سرکاری سکولوں میں دوبارہ رُوح پھونکنے کیلئے تحریک شروع کی‘ انصاف کی پاسداری اور قانون کی عملداری کیلئے احتساب کمیشن قائم کیا جو لوٹی ہوئی دولت اور مظالم کا حساب لے سکے گا‘ لینڈ ریکارڈ کے لئے گوگل اَرتھ ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جا رہا ہے‘ جاننے کے حق کا بل نومبر 2013ء میں پاس ہو چکا ہے جس کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی ادارے کے اخراجات اور کارکردگی کے بارے میں جان سکتا ہے۔ اسی طرح تنازعات کے حل کی کونسل کا قانون بھی نافذ ہو چکا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کیلئے بائیو میٹرک سسٹم پر کام ہو رہا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں۔ اس میں صرف ایک قباحت باقی ہے کہ گیارہ فیصد آبادی کے انگوٹھے کے نشانات ریکارڈ میں نہیں ہیں‘ جیسے ہی یہ اَپ ڈیٹ ہو گئے‘ ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ بائیو میٹرک سسٹم کے تحت انتخابات منعقد ہو جائیں گے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو عام آدمی آج وہاں محسوس کر رہا ہے اور اس کی گواہی مخالفین بھی دے رہے ہیں۔تاہم مصیبت یہ ہے کہ اس ملک میں آپ جب تک ڈھنڈورا نہیں پیٹتے‘ کوئی آپ کی بات پر یقین تک نہیں کرتا۔یہ درست ہے کہ ڈیڑھ برس میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی لیکن ایک سمت کا تعین تو ہو سکتا ہے اور یہ سمت آپ کی نیت کا لٹمس ٹیسٹ ہوتی ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے صوبے میں سمت متعین کر دی ہے لیکن اگر وہ ملک گیر حمایت چاہتی ہے تو اسے ان کاموں سے پوری قوم کو آگاہ کرنا ہو گا۔ دوسری جانب حکمران جماعت ہے جو پچیس برس بعد کی پلاننگ کی تشہیر ابھی سے کر رہی ہے لیکن اب تک یہ عوام کو کیا دے پائے ہیں‘ کیا اس کا جواب ان کے پاس ہے ؟
سامان سو برس کا ہے‘ پل کی خبر نہیں