کسی نے کیا خوب کہا‘ یعنی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ملک میں ہوتے تو ذمہ داروں کو سزا دلواتے۔ سو فیصد درست۔ وہ ملک میں ہوتے تو واقعی ذمہ دار بچ نہ پاتے۔ ہاں یاد آیا۔ سترہ جون کو بھی تو کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ تب تو وزیراعظم اسلام آباد میں تھے اور وزیراعلیٰ لاہور میں ‘اس دن کیا ہوا تھا۔ذرا یاد کریں وہ چودہ لاشیں ۔ نوے چھلنی لوگ ۔ ایک عورت کے منہ میں‘ دوسری حاملہ کے پیٹ میں گولیاں۔ بوڑھوں کے خون آلود سر ۔ باقیوں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں ! اس کے مقابلے میںتو‘ پرسوں کچھ بھی نہ ہوا۔ چالیس پچاس اندھوں کو لاٹھیاں ‘ دھکے اور گالیاں۔ یہ تو ماڈل ٹائون واقعے کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔ تو پھر واویلا کس بات کا۔ نابینائوں کو شکر کرنا چاہیے‘ دو چار ڈنڈے اور دھکے ہی پڑے‘ ورنہ شیر جوانوں کی بہادری کا تو سب کو پتہ ہے۔ طالبان کے سامنے چاہے ان کی ٹانگیں کانپتی ہوں‘ اصلی پولیس مقابلہ کرتے ہوئے ان کی پتلونیں چاہے ڈھیلی پڑ جاتی ہوں‘ مگر یہ اتنے بھی ڈرپوک نہیں کہ نابینائوں کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ اتنے بھی بزدل نہیں کہ معذوروں کو مزا نہ چکھا سکیں۔ مانا کہ پولیس جرائم کے فروغ اور جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی میں پیش پیش ہے ‘ یہ حکمرانوں اور اشرافیہ کے گھر کی باندی ہے‘ یہ عقل اور بہادری دونوں سے فارغ ہے‘ لیکن اتنی بھی فارغ نہیں کہ جس بندے کو سامنے پڑا پتھر دکھائی نہ دیتا ہو‘ وہ بھی منہ اٹھا کر آ جائے اور ''شیرجوانوں‘‘ سے ہاتھا پائی شروع کر دے اور یہ چپ چاپ سہتے رہیں۔ یہ پولیس کی عزت نفس پر حملہ نہیں تو اور کیا تھا کہ وہ لوگ جو سورج اور چاند میں تمیز نہیں کر سکتے وہ حکمرانوں سے اپنا حق مانگنے نکل پڑے۔ ان کی مجال کیسے ہوئی کہ وہ اُس جتھے سے ٹکرا جائیں جس کا قبلہ کوئی حکومت بھی درست نہ کر سکی۔ اتنی بے عزتی اور وہ بھی کیمرے کے سامنے‘ وہ کیسے برداشت کر لیتی ؟وہ
انہیں سبق نہ سکھاتی تو کیا چوڑیاں پہن لیتی؟ جس چیز کی اُسے تربیت ملی ہے‘ اس کے جوہر نہ دکھاتی تو کیا کرتی؟پولیس والے ایک لحاظ سے بے قصور ہیں۔ یہ اندھوں کو ڈنڈے نہ مارتے‘ انہیں وی آئی پی رُوٹ سے نہ ہٹاتے تو اپنے افسروں سے جھاڑیں کھاتے۔ معطل تو تب بھی ہونا تھا‘ اب بھی ہو گئے۔تنخواہ تو معطلی میں بھی ملنا تھی‘ اب بھی مل رہی ہے۔ تب اپنے ناراض ہونے تھے‘ اب غیر ناراض ہیں لیکن غیروں کا کیا ہے‘ بچانا تو اپنوں نے ہوتا ہے‘ کام تو اپنوں نے آنا ہے لہٰذا اپنوںکی نظر میں وہ سرخرو ہو گئے۔ میڈیا کو چھوڑیں‘ دو چار دن میں بھول بھال جائے گا۔ ویسے بھی جو لوگ بصارت جیسی نعمت سے محروم ہیں‘ ان سے نوکری کا حق چھین لیا گیا تو کون سی قیامت آ گئی۔ آخر یہ ملک ایسے بھی تو چل رہا ہے۔ ویسے بھی یہ لینے کیا گئے تھے اُدھر؟ احتجاج اور وہ بھی وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے سامنے؟ پتہ نہیں تھا‘ وی وی آئی پی قافلہ وہاں سے گزرنا تھا؟ کسی سڑک پر رُوٹ لگا ہو تو اندھے کو بھی نظر آ جاتا ہے۔ یہ کیسے اندھے تھے جنہیں وی وی آئی پی موومنٹ کا پتہ تک نہ چلا۔ ابھی تو یہ شکر کریں کہ ان کے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت کا پرچہ درج نہیں ہوا۔ کسی سرکاری قافلے کے راستے میں آنا کتنا بڑا جرم ہے‘ معلوم ہے ؟ دہشت گردی کا پرچہ ہو سکتا ہے۔ اُوپر سے ٹکر لے لی پولیس سے۔ اُس پولیس سے جس کے کسی ایک افسر‘ کسی ایک اہلکار پر آج تک کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ یہ کوئی جرم کریں تو ثابت ہو۔ اب ماڈل ٹائون کی مثال دو گے۔ او بھائی‘ وہاں پر بھی تشدد بے چارے
پولیس والوں پر ہوا تھا۔ اسی لئے تو عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈا پور اور چالیس کارکنوں کے خلاف فرد جرم عائد ہو چکی۔ اب کہو گے چودہ بے گناہ مارے گئے۔ تو کیوں مزاحمت کی تھی انہوں نے؟ اتنی جرأت کیوں دکھائی؟ کیوں پولیس کی براہ راست فائرنگ کے جواب میں پتھر اور ڈنڈے اٹھا لئے؟ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ چپ چاپ گولیاں کھا لیتے۔ مرنا تو ویسے بھی ہے۔ ایسے ہی مر جاتے ۔ مزاحمت کر کے لواحقین کو بھی مصیبت میں ڈال دیا جو اب تک تھانے اور کچہریاں بھگت رہے ہیں اور ''بے قصور‘‘پولیس افسراور حکمران آزاد ہیں۔ جو سبق نابیناافراد کو ملا ‘ وہ صرف انہی کے لئے نہیں‘ بلکہ پوری قوم کے لئے ہے‘ کہ آئندہ کوئی بھی اپنے حقوق مانگنے کے لئے نکلا‘ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی حشر ہو سکتا ہے۔
اب پتہ چلا‘ کیوں عمران خان انصاف انصاف کرتا ہے۔ کیوں اس نے اپنی جماعت کا نام تحریک انصاف رکھا ہے؟کیوں اس کا نام مسلم لیگ عمران نہیں رکھا؟کیوں اس نے خیبر پختونخوا میں پولیس کو سیاست سے آزاد رکھا ہوا ہے؟ کیوں وہ کہتا ہے کہ انصاف کے بغیر جمہوریت کو کوئی فائدہ ہے نہ عوام کو؟ لوگ کہتے ہیں‘ پنجاب میں اتنے پل اور سڑکیں بن رہی ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ میں نے کہا‘ اس قوم کو بھی ساری ترقی سڑکوں اور انڈرپاسز میں نظر آتی ہے۔ اللہ کے بندو۔ کچھ خدا کا خوف کرو۔یہ ترقی کا کون سا پیمانہ ہے۔ ترقی وہ ہوتی ہے جس میں انسانوں کی عزت ہو‘ انہیں انصاف ملے‘ ان کی کوئی بات سنے۔یہ کیسی ترقی ہے کہ ایک سڑک پر میٹرو بس چلا د‘و دوسری پر معذوروں اور اندھوں کو چھتر پھیر دو‘حتیٰ کہ ترانے بجانے والوں کو بھی معاف نہ کرو۔ دو مہینے قبل اسلام آباد دھرنے سے ڈی جے بٹ کو گرفتار کیا گیا تو سب حیران رہ گئے۔ اس وقت تک جمہوریت اور حکومت کو صرف ڈی جے بٹ سے خطرہ تھا۔میں ڈی جے بٹ کو پندرہ برس سے جانتا ہوں جب وہ ماڈل ٹائون کی ایک مارکیٹ میں کافی شاپ چلاتا تھا۔ اس کافی شاپ کے بالکل ساتھ میرے ایک دوست کا آفس تھا۔ میں اکثر وہاں جاتا تو کافی ہم ڈی جے بٹ سے ہی منگواتے۔ اس وقت بھی وہ بہت محنتی تھا۔ تب اس کا کام محدود تھا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں میوزک آرگنائز کرنا اور بس۔ اس کی رنگ برنگی موٹر سائیکل خاصی دلچسپ تھی۔ کچھ عرصہ بعد میرا دوست کاروبار سمیٹ کر لندن چلا گیا اور میں بھی دوبارہ وہاں نہ جا سکا۔ لاہور میں مینار پاکستان میں جلسہ کے دوران ڈی جے بٹ کو بریک تھرو مل گیا۔ اسے اس کی شناخت مل گئی۔ آج شاید وہ کروڑوں کما رہا ہو لیکن مجھے اس کا دو یا تین مرلے کا گھر بھی یاد ہے جس کے خستہ حال دروازے گھر کا اندرونی حال بیان کر رہے تھے۔ایک روز قبل لاہور میں پولیس نے جن نابینائوں پر لاٹھی چارج کیا‘ ان میں بلائنڈ کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی تھا جس نے دو مرتبہ بلائنڈ عالمی کرکٹ کپ جتوایا۔ اسے دیکھ کر مجھے ڈی جے بٹ یاد آ گیا۔ غالباً حکمران اس ملک میں ایسا کوئی آدمی ہنستا بستا نہیں دیکھ سکتے‘ جو سیلف میڈ ہو‘ اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ وہ چاہے آنکھوں والا ہو یا بغیر آنکھوں والا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کل وزیراعلیٰ پنجاب نے نابینا افراد کا کوٹہ 2فیصد سے بڑھا کر 3فیصد کر دیا ۔کیا کسی نے کبھی سوچا ہے کہ اس طرح کے اقدام پہلے کیوں نہیں کئے جاتے۔ ڈاکٹر‘ نرسیں‘معذور‘ کلرک جب تک سڑکوں پر نہ آئیں‘ پولیس کے چھتر اور ڈنڈے نہ کھائیں‘ آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیا ں نہ نگلیں‘ تب تک انہیں ان کا حق نہیں ملتا۔ یہی وہ نظام ہے جس میں نئی نسل کا کوئی بھی مستقبل نہیں۔ ذرا سوچیں کل کو ہمارے بچوں سے بھی ان کا حق چھینا گیا‘ تو کیا انہیں بھی اسی چھتر اور ڈنڈا کریسی کے عمل سے گزرنا پڑے گا؟ یہی وہ سوال ہے جو روزانہ لاکھوں لوگوں کو جوق در جوق عمران خان کے قافلے میں شمولیت پر مجبور کر رہا ہے۔ کون‘ کب تک چاہے گا کہ اس کے بچے اسی طرح ذلیل ہوں جس طرح آج آنکھوں اور بغیر آنکھوں والے اپنے حقوق کیلئے ہو رہے ہیں اور جب ان کی عزت نفس ٹھیک ٹھاک مجروح کر دی جاتی ہے تو حکمران ایک آدھ فیصد کوٹہ بڑھا کر یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے بہت بڑا احسان کر رہے ہوں اور یہ سب اس لئے کیا جاتا ہے کہ حکمرانوں کے لئے خطرات روزبروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ کل تک حکمرانوں کو ڈی جے بٹ سے خطرہ تھا‘ آج اُن سے ہے جو اپنے سامنے موجود اپنے ماں باپ‘ اپنی بیوی اور اپنے ہیرے جیسے معصوم بچوں تک کو نہیں دیکھ سکتے۔ تُف ہے ایسی سوچ پر!