"ACH" (space) message & send to 7575

حق نواز کو کس نے کہا تھاگولی کے سامنے آئے؟

حق نواز کو گولی مارنے کا پہلا الزام ندیم مغل پر لگا تھا اور یہ الزام حق نواز کے بھائی نے لگایا تھا۔ رات گئے تک میڈیا بھی اسی ایک شخص کی فائرنگ کی فوٹیج چلاتا رہا ‘ جس سے ظاہر ہوا کہ شاید فائرنگ کرنے والا ایک ہی شخص تھا اور اسی کی گولی سے حق نواز کی ہلاکت ہوئی۔ اُسی رات سابق وزیرقانون رانا ثنا اللہ ٹی وی پر آئے اور کہا کہ اچھا ہوا کہ ٹی وی چینلز نے فائرنگ کرنے والے شخص کا چہرہ واضح طورپر ریکارڈ کر لیا‘تحریک انصاف کو کل یوم سیاہ منا لینے دیں‘ وہ کل تین بجے جو پریس کانفرنس کریں گے اس میں اصل حقائق سامنے آ جائیں گے۔ اگلے روز تک میں یہی سوچتا رہا کہ آخر رانا ثنا اللہ کے پاس کون سا جادو ہے جس سے وہ فائرنگ کرنے والے کو پی ٹی آئی کا کارکن ثابت کر دیں گے۔ یہ بھی سوال اٹھا کہ آخر یہ پریس کانفرنس رانا صاحب نے اُسی رات کیوں نہ کی اور اگلے روز کا انتظار کیوں کیا۔ شاید وہ یہ یقین کرنا چاہتے تھے کہ اگر میڈیا کے پاس فائرنگ کرنے والے کسی اور شخص کی ویڈیو ہے تو وہ بھی سامنے آجائے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ اسی ایک ندیم مغل پر پریس کانفرنس کر دیں اور بعد میں میڈیا ایسی فوٹیج سامنے لے آئے جس میں نون لیگ کے دیگر کارکن بھی فائرنگ کرتے نظر آ جائیں۔ اگلے روز پریس کانفرنس میں انہوں نے وہ بندے پیش کئے جن کا نام ایف آئی آر میں لکھا گیا تھا۔ ان میں ایک ندیم مغل اور دوسرا امتیاز ولد سراج تھا۔ ان دونوں کی شکل ٹی وی پر نظر آنے والے قاتل سے نہیں ملتی تھی اور یہی رانا صاحب کے کیس کی بنیاد تھی۔ انہوں نے اپنے تئیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جس ندیم مغل کو تحریک انصاف ان کا کارکن کہہ رہی ہے وہ کوئی اور ہے ۔ حق نوا ز کے بھائی
نے اس وضاحت کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ ایک نام کے ایک سے زیادہ بندے ہو سکتے ہیں۔اس دوران تمام میڈیا چینلز اپنے اپنے کیمرہ مینوں کی اس روز کی فلمیں کھنگالنے میں لگے رہے اور پھر وہی ہوا جس کا کسی کو خدشہ تھا۔ میڈیا نے ایسے مزید تین افراد کی فوٹیج بھی تلاش کر لی جو فائرنگ کرتے صاف دیکھے جا رہے تھے۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ وہی امتیاز ولد سراج جسے رانا صاحب نے پریس کانفرنس میں پیش کیا تھا‘ وہ چار پانچ افراد کے اس گروہ میں بھی دیکھا جا سکتا تھا جن میں دو افراد کی فائرنگ کرتے ہوئے فوٹیج بن گئی تھی۔ ایک ندیم مغل جو لاپتہ ہے اور دوسرا وہ باریش لمبا تڑنگا نوجوان جس نے ندیم مغل کو فائرنگ کرنے کے بعد بازو سے روکا اور واپس لے گیا۔ یہ باریش شخص بھی ایک اور فوٹیج میں سیدھی فائرنگ کرتا دیکھا جا رہا ہے جس کے ساتھ ہی کسی کی آواز آتی ہے کہ ایک لڑکے کو گولی لگ گئی ہے‘ دیکھو وہ اُسے اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ باریش شخص کے بالکل ساتھ سینکڑوں پولیس والے کھڑے تھے جن کی ظاہر ہے اُس روز قریب اور دُور دونوں کی نظر خراب تھی چنانچہ پولیس کو ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی معصوم اور بے قصور قرار دینا پڑے گا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف ندیم مغل کی تلاش کے حوالے سے پچاس لاکھ کا اشتہار کیوں شائع کیا گیا؟ کیا اس شخص کوکہیں غائب کر دیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس شخص کے گھر والوں کو بھی خاموش رہنے کا سبق دیا جا چکا ہو گا اور اس کے محلے میں تمام گھروں کی بھی خفیہ نگرانی جاری ہو گی کہ کہیں کوئی میڈیا والا اُدھر نہ پہنچ جائے۔ 
سوال یہ ہے کہ اس ساری ایکسرسائز سے ملے گا کیا؟ ۔ ہر کسی کی کوشش ہے کہ فائرنگ کرنے والوں کو سامنے لائے لیکن اس سے ہو گا کیا؟ جو بھی ملزم ٹھہرے گا وہ فیصل آباد کی مقامی انتظامیہ اور حکمرانوں سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کر دے گا۔ رانا صاحب بھی ظاہر ہے اس کے ساتھ تعلق سے انکار کریں گے اور اگر تعلق کی کوئی شہادت یا تصویر سامنے آ بھی گئی تووہ کہہ دیں گے کہ تعلق سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ میں نے اسے کہا تھا جا کر گولی مار دو۔ جو بھی بندہ پکڑا جائے گا ‘ اسے یا تو مقابلے میں مار دیا جائے گا یا یہ اطلاع آ جائے گی کہ اس نے خودکشی کر لی ہے۔ اگر یہ بھی نہ ہوا تو مقدمہ ویسے ہی چلتا رہے گا۔ پی ٹی آئی اور میڈیا کی وجہ سے بہت زیادہ دبائو بڑھا تو ایک کمیشن بن جائے گا۔ اگر یہ کمیشن جسٹس باقر نجفی جیسے ایماندار انسان کی نگرانی میں بنا اور ایسی رپورٹ آ گئی جس میں حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا یا گیا تو حکومت یہ رپورٹ جاری ہی نہیں ہونے دے گی ۔ رہی پولیس تو وہ اس سارے معاملے میں صاف نکل جائے گی۔ وہ کبھی بھی حقائق کو منظر عام پر نہیں آنے دے گی اور اگر کسی پولیس افسر نے معاونت یا حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی تو اسے اس کی کوئی نہ کوئی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے ایک گواہ پولیس اہلکار کے انجام یا پھر کسی اور صورت میں۔
دوسری طرف مذاکرات کا کھیل پھر سے شروع ہے۔ کسی کو یہ سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ اگر حکمران جماعت دھاندلی میں ملوث نہ ہوتی تو چار حلقے کب کے کھلوا چکی ہوتی تو پھر یہ مذاکرات کس لئے ہو رہے ہیں؟ اگر حکمران چاہتے ہیں کہ عمران خان دھاندلی سے پیچھے ہٹ جائیں‘ چار حلقے کھلوانے کا مطالبہ واپس لے لیں اور انتخابی اصلاحات کی ڈیمانڈ بھی نہ کریں تو پھر مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کا فائدہ ؟ حکمران جماعت ایسی چیزیں کیوں مانے گی جن میں اس کے پکڑے جانے کا اندیشہ ہو۔ اگر میں نے کسی کو قتل کیا ہو اور کوئی مجھ سے وہ پستول مانگے جس پر میری انگلیوں کے نشان ہیں تو میرا دماغ چل گیا ہے جو میں کہوں کہ آئیں مذاکرات کریں‘لے لیں میرا پستول ‘پکڑیں مجھے اور چڑھا دیں سولی پر۔ ایک طرف تو حکومت عمران خان کو مذاکرات کی آفر کر رہی ہے دوسری جانب اٹارنی جنرل کی جانب سے یہ درخواست جمع کرائی گئی ہے کہ دھاندلی سے متعلق حلقے کھولنے کی درخواست قابل سماعت نہیں۔ اگر حلقے نہیں کھولے جانے تو پھر تحریک انصاف کی اس ایک سو بیس دن احتجاج کی بنیاد کیا ہو گی۔ پھر حکومت کی سنجیدگی کو کس نظر سے دیکھا جائے گا۔ لاہو میں سردار ایاز صادق کے حلقے میں عدالت نے بیگ کھولنے کا حکم دیا تو ساتھ ہی ایاز صادق کے وکلا کی طرف سے یہ درخواست کیوں داخل کرائی گئی کہ بیگ کھولنے کا حکم موخر کیا جائے۔ اگر تو حکومت تحریک انصاف کو مذاکرات میں الجھا کر وقت پاس کرنا چاہتی ہے تو اور بات ہے۔ لیکن یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کوئی سودا بازی کر کے دھرنا‘ جلسے اور جلوس سمیٹ لے گا‘ تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ درحقیقت یہ جنگ اگر جیتی جائے گی تو سڑکوں پر ہی جیتی جائے گی۔ اداروں سے کچھ ملتا تو عمران خان کو ڈیڑھ برس قبل ہی انصاف مل چکا ہوتا۔ دوسری جانب ہمارے عوام کی عجیب سوچ ہے۔ ایک طرف تو عمران خان ڈیڑھ برس سے سڑکوں پر انصاف کی جنگ لڑ رہا ہے اور اچھے بھلے سیانے لوگ کہتے ہیں کہ جانے دیں جو جیت گیا جیت گیا‘ اس ایشو کو چھوڑیں اور جمہوریت کو چلنے دیں۔ آئندہ الیکشن کا انتظار کریں۔ اپنے صوبے کو سنبھالیں۔ لوگوں اس بات کو تقدیر کا لکھا سمجھ چکے ہیں کہ یہاں انصاف تو ملنا ہے نہیں تو اس کی آس لگانے او ر اس کے پیچھے بھاگنے کا کیا فائدہ۔ اسی لئے آج لوگ مجرم سے زیادہ انصاف مانگنے والے کو حیرانی سے دیکھتے ہیں اور عمران خان کی کمٹمنٹ کو سراہنے کی بجائے سسٹم کا رونا روتے ہیں۔یہ شکر نہیں کرتے کہ اس سسٹم کے خلاف کسی نے تو آواز اٹھائی ہے اور وہ بھی مستقل مزاجی کے ساتھ۔ 
جس طرح فیصل آباد میں جاں بحق ہونے والے حق نواز کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ‘جس پراسرار خاموشی کا شکار پولیس نظر آ رہی ہے اور جس طرح ہمارے ہاں اس قسم کے کیسوں کا فیصلہ ہوتا ہے ‘اس کیس کا انجام بھی اس ایک جملے پرہوتا نظر آ رہا ہے کہ حق نواز کو کس نے کہا تھا کہ گولی کے سامنے آئے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں