حکومت جتنے مرضی نکات پیش کر لے‘ اتفاق رائے کا جتنا مرضی ڈھنڈورا پیٹ لے‘ لوگ مسلسل یہی سوال پوچھ رہے ہیں۔ کیا ایکشن پلا ن کے نکات پر عمل ہو گا بھی یا یہ بھی قصۂ ماضی بن جائیں گے؟
موجودہ حکومت نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی لوڈشیڈنگ کے خلاف بھی ایسی ہی فیصلہ کن جنگ کا اعلان کیا تھا۔ تو کیا ہوا؟ نہ لوڈشیڈنگ پہ قابو پایا گیا نہ بجلی چور قابو آئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بجلی چور دہشت گردوں سے بھی زیادہ خطرناک اور طاقتورنکلے؟ کیا لائن لاسز پر قابو پانے سے حکمرانوں کو عالمی استعماری طاقتوں نے روکا ؟ گزشتہ دسمبر‘ میں نے این ٹی ڈی سی میں بارہ کروڑ روپے کی کرپشن کا سکینڈل لکھا تھا کہ کس طرح سکھر گرڈ سٹیشن میں گھٹیا درجے کے پینل اورٹرانسفارمر لگانے کی منظوری دی گئی۔ یہ بھی واضح کیا کہ یہ صرف مالی سکینڈل نہیں بلکہ آئے روز یہ جو ٹرانسفارمر پھٹتے رہتے ہیں‘ یہ جو منگلا میں شارٹ سرکٹ ہوا اور آدھا ملک تاریکی میں ڈوب گیا اور یہ جو لائن لاسز ہوتے ہیں‘ یہ سب ناقص آلات کی وجہ سے ہی پیش آتے ہیں اور یہ ناقص آلات زیادہ تر این ٹی ڈی سی کے افسران کی ذاتی فیکٹریوں میں بن رہے ہیں‘ جن کے ٹینڈر وہ خود منظور کر تے ہیں‘ ڈھیر سارا مال بناتے ہیں اور یہ آلات گرڈ سٹیشنز کو سپلائی کر کے چین کی نیند سو جاتے ہیں۔ اس پر کئی ٹی وی ٹاک شوز بھی منعقد ہوئے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ سکینڈل وفاقی وزیر خواجہ آصف اور وزیرمملکت عابد شیر علی تک نہ پہنچا ہو لیکن ہوا کیا؟ یہ مجھے دو روز قبل معلوم ہوا۔ جس کرپٹ افسر نے بوگس دستخطوں کے ذریعے ان ناقص آلات اور مشینری کی منظوری دی‘ اُسے چند روز قبل انیسویں سے بیسویں گریڈ میں ترقی دے دی گئی ہے
اور اس کے چیف انجینئر کی تقرری کے آرڈر بھی تیار کئے جا رہے ہیں۔ کچھ دنوں بعد یہی حضرت اس سے بھی بڑا کارنامہ سر انجام دیں گے‘ قومی خزانے کو چونا لگائیں گے اور اگلے گریڈ میں پروموٹ کر دئیے جائیں گے۔ یہ نکلا‘ حکومت کا لوڈشیڈنگ اور بجلی چوری کے خلاف ایکشن پلان کا نتیجہ۔ اب یہی حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہے۔ اس کا انجام کیاہو گا‘ خدا خیر کرے۔
اگست میں تحریک انصاف حکومت کو لتاڑ رہی تھی تو حکمران جماعت نے پارلیمنٹ کے اجلاس پر اجلاس کئے‘ تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئیں اور جمہوریت کو بچانے کے لئے دھواں دار تقاریر شروع ہو گئیں۔ سید خورشید شاہ‘ اعتزاز احسن‘ اسفند یار ولی‘ مولانا فضل الرحمن سبھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آئے۔ لیکن لوگ حیران تھے کہ سولہ دسمبر کے پشاور سانحہ کے بعد یہ جماعتیں اس جوش و جذبے سے اکٹھی کیوں نہ ہوئیں۔ چند نکات پر متفق ہونے کے لئے بھی ایک ہفتہ لگ گیا اور ابھی بھی معلوم نہیں کہ جب ان پر عمل کی باری آئے گی تو کون کتنا تعاون کرے گا۔ جمہوریت پر آنچ آ جائے تو عوام نے سیاستدانوں کی دوڑیں لگتی دیکھیں اور اب بچوں کی جانوں کو بچانے کی بات ہے تو ہر ایک کو آئین اور اپنے اپنے تحفظات یاد آ گئے ہیں۔
ان بیس نکات میں اگر کوئی بات عملاً پروان چڑھے گی تو وہ سپیشل ٹرائل کورٹس ہیں۔ یہ عدالتیں چونکہ براہ راست فوجی افسروں کی سربراہی میںقائم ہوں گی اس لئے یہ واحد کام ہے جو چند دنوں کے اندر ہوتا دکھائی بھی دے گا۔ باقی کراچی آپریشن سے لے کر مذہبی منافرت والا لٹریچر روکنے وغیرہ کی باتیں‘ کاغذوں تک محدود رہیں گی۔ کس کو معلوم نہیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر منافرت سے بھری ایسی ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں۔ اگر آپ سنجیدہ ہیں تو بسم اللہ کیجئے۔ کسی ایک کو نشان زد کیجئے۔ مقدمہ کیجئے۔ ٹرائل کیجئے۔ سزا دلوائیے۔ پھر جا کر لوگوں کو یقین ہو گا کہ کچھ ہوا ہے۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کے حوالے سے چودھری نثار پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ نوے فیصد مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تو پھر آگے کیا ہو گا۔ وزارت داخلہ کے درجنوں مرتبہ اعلانات کے باوجود موبائل سمیں آج بھی سڑکوں پر پھٹے لگا کر بیچی جا رہی ہیں۔ 'گھروں پر سمیں بھیجی جائیں گی‘ والا سلسلہ نہ جانے کب شروع ہو گا۔ خالی سموں کی بات نہیں‘ ہر کسی کا موبائل فون بھی رجسٹرڈ اور ریکارڈ میں ہونا چاہیے۔ سموں کی فروخت اور کمپنی سے رجسٹریشن کے وقت موبائل فون کا شناختی (آئی ایم ای آئی) نمبر بھی ساتھ ہی رجسٹر ہونا چاہیے۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ بغیر آئی ایم ای آئی والے موبائل فون ابھی بھی بازار میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں اور ان کی کال ٹریس کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ باقی پندرہ سولہ نکات وہی پرانے ہیں۔ ان میں بھی ٹارگٹ اور وقت کو فوکس نہیں کیا گیا۔ مختلف عزائم کو دہرایا گیا ہے جنہیں سابق ادوار میں پرویز مشرف سے لے کر صدر زرداری تک اپنی تقاریر اور بیانات کا حصہ بناتے رہے۔ اگر ان بیانات سے کوئی تبدیلی یا امن ہونا ہوتا تو اب تک ہو چکا ہوتا۔
ایک طرف حکومت امن کے لئے پلان بنا رہی ہے تو دوسری طرف ملک اسحاق کی رہائی کے احکامات صادر ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی ایجنسیاں انتباہ کر چکی ہیں کہ اس کی رہائی سے ملک میں دہشت گردی کی لہر دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ اُدھر لال مسجد کے خطیب دارالحکومت میں پارلیمنٹ سے دو کلومیٹر کے فاصلے سے غائب ہو گئے یا کر دئیے گئے‘ کسی کو معلوم نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ نکات جو آج جاری کئے گئے‘ ان میں سے نوے فیصد پر پہلے بھی اتفاق رائے تھا تو پھر یہ کام پہلے کیوں نہ کئے گئے ؟ دہشت گردوں کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ انہوں نے پشاور میں بچوں پر حملہ کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ پہلے جن لوگوں میں ان کے لئے تھوڑی بہت ہمدردی تھی‘ اب وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ ان کی اس گھنائونی حرکت نے پوری قوم کو ایک کر دیا ہے۔اب عوام نہ ایسی کسی کارروائی کو برداشت کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی دہشت گردوں کے حمایتیوں کو اپنی صفوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
چلیں ہم مایوسی نہیں پھیلاتے‘ حکمرانوں کی نیت پر شک بھی نہیں کرتے۔ ہم فرض کرلیتے ہیں کہ حکمران اس بار سنجیدہ ہیں‘ یہ وقت پاس کرنے کی پالیسی نہیں چلا رہے اور یہ واقعی ہزاروں پاکستانیوں کے خون کا حساب لینا چاہتے ہیں تو پھر یہ ایک اجلاس اور بلائیں ‘ بلکہ اجلاس چھوڑیں سب کو ایک ایس ایم ایس کر دیں تاکہ وقت بچے کہ کوئی بھی اس طرح کے بیانات نہیں دے گا کہ ہم یہ کر رہے ہیں‘ یا ہم نے تہیہ کیا ہے‘ یا ہم پرعزم ہیں۔ اس طرح کے بیانات سن سن کر قوم کے کان پک چکے ہیں۔ اس کی بجائے ہر کوئی اپنے اپنے کام میں جت جائے اور جب کوئی اہم کامیابی یا اقدام کیا جائے‘ اسی کی تشہیر کی جائے۔ تب لوگوں کو یقین آ ئے گا کہ یہ کچھ کر بھی رہے ہیں اور تبھی اس ساری ایکسرسائز کا فائدہ بھی ہو گا۔وگرنہ جس طرح حکومت لوڈشیڈنگ جیسے مسئلے پر قابو نہ پا سکی‘ یہ عام بجلی چوروں کو شکنجے میں نہیں لا سکی تو یہ دہشت گردوں کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے گی اور یہ بیس کے بیس نکات ہمارا منہ چڑاتے رہیں گے۔
یہ بھی کہا گیا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے حکومت کے چھ ماہ ضائع کر دئیے وگرنہ حکومت بہت کچھ کرگزرتی۔ میں نے کہا اس سے قبل چودہ ماہ تو ایسی تحریک نہ تھی اور اب تو دھرنا بھی ختم ہے تو اب حکومت کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے۔ پنجاب میں پھانسیوں اور دہشت گردوں کی دھمکیوں کی وجہ سے ممکن ہے کہ حکمرانوں کی ساری توجہ عوام کی حفاظت کی بجائے اپنے لئے بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے اور اپنی سکیورٹی بڑھانے پر مرکوز ہو جائے اور عوام کو بیانات اور اعلانات کی میٹھی گولیوں سے بہلانے کی کوشش کی جائے۔ اگر اب کی بار ایسا ہوا تو حکومت کے خاتمے کیلئے کسی دھرنے یا تحریک کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ماضی کو دیکھیں تو کیا نظر آتا ہے... نیک نیتی کا فقدان‘ غیر مقبول فیصلے اور مفادات کی سیاست۔ حکمران خود ہی بتا دیں‘ عوام کیسے مان لیں‘ یہ اب سنجیدہ ہیں۔