یہ سال وال ہمارا ختم ہو رہا ہے اور کل نیا بھی شروع ہو جائے گا ۔ جن کے بچے پشاور میں شہید ہوئے،ان کا تو سب کچھ اسی روز ختم ہو گیا‘جس روز چند بھیڑیوں نے ان کے پھولوں کو بے دردی سے مسلا۔ نہ نئے سال کی خوشی انہیں خوش کر سکتی ہے اور نہ ہی سال کے ختم ہونے سے ان کا دُکھ ختم یا کم ہو گا۔ غم تبھی کم ہو گا جب اُن درندوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے جنہوں نے یہ گھنائونی حرکت کی‘ جب اس انتہاپسند سوچ کا گلا گھونٹاجائے جس نے اس ملک کو جنگل بنا کر رکھ دیا ہے اور ان سہولت کاروں اور ہمدردوں کو نکیل ڈالی جائے جو کسی نہ کسی طور دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سب نہیں ہوتا تو پھر سالوں کے آنے اور جانے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ پھر ہر آنے والا دن غم کی شدت کو بڑھاتا رہے گا۔
ابھی پشاور سانحہ کا غم نہیں دھلا تھا کہ کراچی اور پھر لاہور میں خوفناک آتشزدگی نے دلوں میں آ گ لگا دی۔ہو گا کیا؟ وہی تحقیقات کے احکامات‘ بیانات کا انبار اور وہی گھسے پٹے وقتی اور عارضی اقدامات۔ حقیقت یہ ہے کہ نوے فیصد کمرشل مارکیٹیں بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہیں۔ اگر کہیں کچھ نہیں ہوتا تو یہ معجزہ ہوتا ہے۔ پوری قوم اسی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ صبح گھر سے نکلنے سے لے کر رات کو گھر واپسی تک کسی کو یقین نہیں ‘ اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ کوئی کسی اندھی گولی‘ کسی خودکش بمبار سے بچ گیا تو پولیس گردی کا شکار ہو جائے گا۔ اس سے بھی بچ گیا تو بجلی کی قیمتوں کے جھٹکے تیار ہوں گے۔ اس سے بھی بچ گیا تو رات کو گیس کی لیکیج جان کا عذاب بن سکتی ہے۔ اس سے بھی بچ گیا تو شدید سردی کی لپیٹ میں آ کر ہسپتال جائے گا۔ وہاں بیماری سے بچ گیا تو ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں اور ہسپتال کا بل اُسے لے ڈوبے گا۔ یہ ایک عام آدمی کا حال ہے۔ کم و بیش سولہ سترہ کروڑ لوگ روزانہ اس عذاب سے گزرتے ہیں۔پل صراط کے اس سفر میں زندگی کی ڈور کب ڈھیلی پڑ جائے‘کسی کو معلوم نہیں۔
پشاور سانحے کو آج دو ہفتے گزر چکے۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ اب تک کیا پیش رفت ہوئی؟ ہاں ایک کمیٹی ڈالی گئی تھی اور پھر اس کمیٹی میں رخنے ڈال دیئے گئے۔ اسے افسوسناک ہی کہنا چاہیے کہ جن جماعتوں نے فوجی ٹرائل کورٹس کی حمایت کی تھی‘ آج وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ ڈیڑھ سو بچوں کا خون اتنا ارزاں نہیں ہو سکتا کہ اسے سیاست کی نذر کر دیا جائے۔ میں کہتا ہوں انہیں فوجی عدالتوں پر اتنا اعتراض ہے تو پھر دشمن سے لڑنے کیلئے بھی انہیں ہی کیوں نہ خود محاذ جنگ پر بھیج دیا جائے؟ کیوں وزیرستان میں آپریشن کے لئے اس کمیٹی کے اراکین کو نہیں بھیج دیا جاتا جو آئینی اور پارلیمانی تحفظات کا شور مچاکر دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں بننے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں؟ یہ اچھا ہے کہ یہ ٹھنڈے گرم کمروں میں بیٹھ کر ڈرائی فروٹ چباتے رہیں‘ اگرچہ مگرچہ کر تے رہیں اور قوم بچوں کی لاشیں سکولوں سے تلاش کرتی رہے ۔فوج جنگ لڑے‘ قربانیاں دے‘ شہادتیں دے تو ٹھیک لیکن اسی نظام میں یہ دہشت گردوں کو سزائیں دینے کی بات کرے تو یہ سب چلا اٹھیں۔ کیوں بھئی کیوں؟ اگر سانحہ پشاور تمہیں ایک نہیں کر سکا تو پھر کیا اس قیامت کا انتظار ہے جب ماں بیٹے کو اور بیٹا ماں کو نہیں پہچانے گا۔ خدا کی پناہ ہے‘ لوگ انتظار میں تھے‘ ان درندوں کو سزائیں ملیں گی اور جلد ملیں گی مگر یہ لوگ تو بڑے پکے نکلے۔ تو پھر قوم ان سے مایوس نہ ہو تو کیا ہو۔ درحقیقت ایسا کر کے یہ جمہوریت کے تمام دروازے خود بند کر رہے ہیں اور پھر یہ چلّائیں گے کہ دیکھو ہمارے ساتھ ظلم ہو گیا‘ ہمارا اقتدار چھن گیا‘ جمہوریت پر ڈاکا پڑ گیا۔ او بھائی اگر تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو پھر یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑی کہ کہیں یہ ٹرائل کورٹس ہمیں ہی اندر نہ کر دیں۔ جس کا دامن صاف ہو‘ اسے ڈر کیسا؟ ایسا کر کے قوم کی خدمت کی جا رہی ہے یا دہشت گردوں کی؟ یہ بھی سوچیں کہ ٹرائل کورٹس کے قیام میں تاخیر کا فائدہ کس کو ہو گا؟ جب پوری قوم ایک ہو چکی تو چند سیاسی جماعتوں نے اپنی دکانیں کیوں سجا لیں؟ کیا کمیٹیاں اور ان کمیٹیوں کو بنانے والے شہدا کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک رہے؟ چودہ روز گزرنے کے بعد بھی بحثوں پر بحثیں‘ اجلاس پر اجلاس اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
حکمران اتنے بھولے نہیں کہ اپنی ہی آری سے اپنی ہی شاخ کاٹ دیں۔ یہ جوڈیشل کمیشن بنائیں گے اور نہ ہی دھاندلی کی تحقیقات ہوں گی۔ تحریک انصاف کو انصاف ملے گا تو سڑکوں پر ہی
ملے گا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ حکمرانوں کو قدرت نے سنبھلنے کا ایک اور موقع دیا تھا‘ دھوکہ دینے کا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت اگر دوبارہ سڑکوں پر آئی تو حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی باقی نہ رہے گی۔ اسے چاہیے تھا وہ تمام شرائط تسلیم کرتی۔ چند سیٹیں چلی جاتیں تو کیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا۔ اس پر بھی اتفاق رائے ہوتا تب ہی بات آگے بڑھتی، مگر یہ اونٹ تو کسی کروٹ بیٹھ جاتا۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ تحریک انصاف ساری کی ساری ریٹائر ہو جائے‘ اس کے لیڈر‘سیاستدان اور کارکن سیاست سے توبہ کر لیں اور کسی مزار پر بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا شروع کر دیں تو یہ تو نہیں ہونے والا۔ جب تک اس کی باگ ڈور عمران خان کے ہاتھ میں ہے‘ یہ تحریک یونہی سر اٹھاتی رہے گی۔ خدا کی پناہ ہے کہ دہشت گرد نئے حملوں کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم پچھلے حملے کا حساب ہی نہیں لے پارہے۔ سیاستدانوں کی ان کمزوریوں کا فائدہ دہشت گردوں کو ملتاہے۔ وہ نہ ڈبل مائنڈڈ ہیں نہ ہی ان کے مقاصد غیر واضح۔ ایک غلط کام کو وہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ انجام دے رہے ہیں اور ادھر ہم ہیں کہ دھاندلی اور دہشت گردی کی تعریفوں کی بحثوں میں پڑے ہیں۔یہ تھرڈ کلاس سیاست ملک کو ایک نئے سانحے کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ لوگ تو بلٹ پروف گاڑیوں اور بم پروف گھروں میں بیٹھے ہیں‘ ذرا باہر نکل کر عام آدمی سے پوچھیں ،اس کے جذبات کیا ہیں۔لوگ بجلی‘ پانی‘ گیس کے بغیر رہ سکتے ہیں ' روکی سوکھی کھا کر گزارا کر سکتے ہیں لیکن اپنے بچوں کے ساتھ درندگی کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔
دہشت گردوں کو ختم کریں گے‘ ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں گے‘ جیسے بیانات کی برسات بھی جاری ہے جنہیں سن سن کر لوگوں کے کانوں میں چھالے بن چکے۔ عوام کا شک درست ثابت ہو رہا ہے ۔حکمران اس سانحے کو بھی بیانات اور اجلاسوں کی دھند میں غائب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت اور اس کی پلان کمیٹیوں کی کارکردگی کتنی تسلی بخش ہے‘ یہ آپ پشاور کے شہید بچوں کے والدین سے پوچھ لیں۔ یہ کیسی حکمرانی ہے کہ کسی کے شہید بچوں کو کوئی اپنے بچے کہے اور اس کے بعدانہیں کمیٹیوں‘ بیانات اور تسلیوں سے بہلانے کی کوشش کرنے لگے؟
عمران خان سترہ جنوری کو ڈی چوک پر دوبارہ جلسے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تحریک انصاف کے مطالبات سانحہ پشاور کے سامنے بہت چھوٹے ہیں۔ اگر تحریک دہشت گردی کے سلسلے میں حکومت اور فوج کے ساتھ بھرپور تعاون کرے ، اوراگر حکومت دہشت گردی کی جنگ کے خلاف پھر بھی لیت و لعل سے کام لے ‘تو پھر بے شک تحریک انصاف دوبارہ دھرنا دے‘ پھر اس کے ساتھ صرف دھاندلی کے خلاف غم و غصہ رکھنے والے عوام نہیں ہوں گے بلکہ پشاور اور پورے ملک کے دہشت گردی سے شہید ہونے والوں کے لواحقین اور متاثرین بھی ہو ں گے۔ شرط یہ ہے کہ تحریک انصاف پوری نیک نیتی‘ خلوص اور ایمانداری سے دہشت گردی کے خلاف یکسو ہو کر لڑے۔قوم خودبخود اس کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی۔ حکمران جماعت سے تو عوام کو کوئی امید نہیں لیکن تحریک انصاف سے اب بھی بہت ہے۔ اگر تحریک انصاف نے دہشت گردی کی جنگ کو دھاندلی سے الگ ایشو کے طور پر چلانے کی کوشش کی تو اسے عوامی پذیرائی ملے گی نہ ہی میڈیا کی سپورٹ۔ پھر ایسی کھچڑی پکے گی کہ جس کے پاس جہاں کی حکومت ہے وہ اس سے بھی محروم ہو جائے گا۔حالات تو یہی بتا رہے ہیں!