میں نے چھ فروری کے کالم میں یہ تجویز دی تھی کہ چونکہ آرمی پبلک سکول پشاور کا المناک اور درد ناک سانحہ شہید اور زخمی بچوں کے لواحقین پر گہرے نفسیاتی اثرات چھوڑ گیا ہے چنانچہ ان اثرات کو مٹانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شہدا اور زخمیوں کے لواحقین کو سرکاری مہمان کے طور پر عمرے کی ادائیگی کے لئے بھجوایا جائے۔ اس طرح ان کے دل اور روح پر لگے زخم مندمل ہوں گے اور یہ واپس اپنی معمول کی زندگی میں واپس آ سکیں گے۔ انسان کتنا ہی غمگین کیوں نہ ہو اور کتنی ہی بڑی آزمائش سے کیوں نہ گزرا ہو‘ بیت اللہ کی چادر مبارک سے لپٹنے ‘روضہ ٔرسول ؐ کی جالیوں کو چومنے اور حجر اسود کو بوسہ دینے کے بعد کون سا غم ہے‘ جو باقی رہ جاتا ہے۔ سانحے میں ڈیڑھ سو بچے اور سٹاف نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ اگر ایک فیملی چار افراد پر مشتمل ہو تو کل چھ سو افراد عمرے پر جائیں گے۔ اگر فی کس عمرے پر ایک لاکھ خرچ آتا ہو تو کل چھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ ایسی ہی تجویز کالم نگار افضل رحمان نے بھی دی تھی۔ خیال تھا کہ حکومت اس سلسلے میں قدم بڑھائے گی اور اگر اس نے ایسا کیا تو اس کی نیک نامی بھی بڑھے گی اور عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بھی کم ہوں گے۔ چونکہ ہماری سرکار آج بھی فائل کلچر کی زد میں ہے اور چھوٹے سے چھوٹا کام بھی دس دس جگہ سے منظوری اور انتہا کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کئے بغیر مکمل نہیں ہوتا اس لئے حکومت اس اہم فرض سے محروم رہ گئی اور یہ سعادت پاک فوج کو حاصل ہوئی جس نے پشاور سانحے کے ساڑھے نو سو کے قریب لواحقین اور بچوں کو عمرہ پر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ان میں شہدا کی فیملیاں بھی شامل ہیں اور زخمی بچے اور ان کے
خاندان بھی۔ پہلے مرحلے میں ستائیس فیملیوں پر مشتمل نوے بچوں اور والدین کی پہلی فلائٹ گزشتہ اتوار 8مارچ کو سعودی عرب روانہ ہوئی تو میں نے اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا جس نے پاک فوج کو اس نیک عمل سے سرفراز کیا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ سلسلہ آٹھ مراحل یعنی آٹھ فلائیٹس میں مکمل ہو گا۔ زائرین عمرہ کی رہائش ‘ ٹکٹ اور عمرہ کے تمام اخراجات پاکستان آرمی ادا کرے گی۔دوسرے مرحلے میں 94بچے اپنے والدین کے ساتھ آج چودہ مارچ کو عمرے کے لئے روانہ ہو رہے ہیں۔جبکہ تیسرے مرحلے میں فلائٹ180لواحقین کو لے کر 21مارچ کو جدہ پہنچے گی۔
ایسی ہی ایک تجویز یہ تھی کہ پشاور سانحے کے شہدا کو اعلیٰ قومی اعزاز سے نوازا جائے۔ یہ تجویز ہر طبقے کی جانب سے آئی تھی۔ آرمی سکول میں شجاعت اور بہادری کی بہت سی ایسی داستانیں سامنے آ چکی ہیں جو عزم و ہمت کی عظیم مثال ہیں اور ان کروڑوں پاکستانیوں کے لئے مشعل راہ ہیں جو وطن اور فوج سے محبت کرتے ہیں اور سرزمین وطن کو ہر نوع کی دہشت گردی سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ بچے اور ان کے اساتذہ اسلحہ کے بغیر تھے لیکن ان لوگوں نے مشین گنوں‘ دستی بموں اور راکٹ لانچروں سے لیس دہشت گردوں کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ سکول کی پرنسپل اور اساتذہ جس ولولے کے ساتھ دہشت گردوں کے سامنے ڈٹی رہیں‘ ایسی مثالیں کم کم ملتی ہیں۔ ان تجاویز کے بعد
حکومت کی طرف سے 24جنوری کو پہلی مرتبہ خبر آئی کہ سانحہ کے شہدا کے لئے حکومت نے تمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دل کو تھوڑی سی تسلی ہوئی کہ حکومت بھی اپنا حصہ ڈالنے کے لئے آمادہ تو ہوئی لیکن آج اس اعلان کو تین ماہ گزرنے والے ہیں اور اس اعلان پر عمل کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ تین ماہ بعد پھر خبر آئی کہ وزیراعظم نے شہید طلبا اور اساتذہ کو تمغہ شجاعت دینے کی ایڈوائس صدر کو ارسال کر دی ہے اور اب صدر کی طرف سے صرف دستخط ہونا باقی ہیں۔ ان دستخطوں کے لئے صدر مملکت کو کتنا وقت درکار ہے یہ تو جناب صدر ہی بتا سکتے ہیں لیکن ان سب باتوں سے عوام جان چکے کہ حکومت دہشت گردی کی جنگ میں کتنی سنجیدہ ہے۔ اس کی حرکتیں دیکھیں تو یہی نظر آتا ہے کہ یہ اُن عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہی نہیں چاہتی جن کے ووٹوں سے اقتدار میں آئی۔ خود سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی یہ کوشش ہے کہ اپنے اور اپنی فیملیوں کی حفاظت کے لئے زیادہ سے زیادہ حفاظتی اقدامات کر لئے جائیں۔ وہ زمانے لد گئے جب مرسڈیز یا بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کا چرچا ہوتا تھا اور جب چند وزیر ہی بلٹ پروف گاڑیوں کے مالک ہوتے تھے ‘اب تو ہر سیاستدان کی یہی کوشش ہے کہ ہر قیمت پر راکٹ‘ بلٹ اور بم پروف (وی ایٹ) لینڈ کروزر حاصل کی جائے تاکہ وہ خود اور ان کے خاندان والے تو محفوظ ہو جائیں ، باقی قوم جائے بھاڑ میں۔ زیادہ تر نے اپنے بچے سکولوں سے اٹھا کر ویسے ہی دبئی اور دیگر ممالک کے سکولوں میں داخل کرا دیئے ہیں۔ جو رہ گئے ہیں وہ منرل واٹر سے نہاتے ہیں اور بلٹ پروف لباس پہن کر گھروں سے نکلتے ہیں۔ ظاہر ہے جب انسان کے اپنے گھر میں بھوک نہ ہو تو وہ ہمسائے کی بھوک کیوں محسوس کرے گا۔ جو حکومت معصوم بچوں کو چار ماہ میں تمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ نہ کر سکی ہو‘ اس نے کیا خاک جنگ لڑنی ہے۔ان کے اپنے ارکان اسمبلی کی تنخواہ اور مراعات کا معاملہ ہو تو سارا کام راتوں رات مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ تو ہم پر اللہ کا کرم ہے کہ پاک فوج موجود ہے جس کی وجہ سے ہم رات کو بے فکری کی نیند سو جاتے ہیں۔ اس کے افسر اور جوان آئے روز ضرب عضب آپریشن میں شہادتیں پا رہے ہیں اور ہمارے بچوں کو محفوظ بنانے کے لئے اپنے بچے یتیم کر رہے ہیں۔ یہ کوئی مذاق کی بات نہیں نہ ہی سیاست کا کوئی کھیل ہے۔ نہ ہی یہ سینیٹ الیکشن ہے اور نہ ہی بلدیاتی انتخابات کا ڈرامہ۔ سیاستدانوں کے بس میں ہو تو یہ اس ادارے کا حال بھی دیگر اداروں جیسا کر دیں۔ سانحہ پشاور نے نہ صرف آرمی سکول کے بچوں اور لواحقین بلکہ پورے پاکستان کو جھنجھوڑ ڈالا تھاسوائے حکمرانوں کے۔ اس سے قبل عوام کی بڑی تعداد گومگو کا شکار تھی۔ جب تک یہ جنگ لوگوں کے گھروں اور بچوں تک نہیں پہنچ گئی اکثریت اس بارے میں متذبذب رہی۔ کوئی اسے امریکہ کی اور کوئی پرائی جنگ کہتا رہا۔ جب ہم اس جنگ کی اصلیت اور اہمیت سے غافل تھے‘ ہمارے فوجی جوان تب بھی محاذ پر سب سے آگے تھے‘ وہ تب بھی اپنے خون کا نذرانہ دے رہے تھے‘ وہ تب بھی ہماری صبحیں‘ ہماری شامیں اور ہماری راتیں محفوظ بنانے کے لئے سرشار تھے اور آج بھی اپنی جانیں اس وطن کی مٹی کی نذر کر رہے ہیں جس مٹی کو ہمارے حکمران غیروں کے ہاتھ بیچتے آ رہے ہیں۔ چند ماہ قبل لاہور میں پاک فوج کے ترجمان جنرل عاصم سلیم باجوہ کی ایک بریفنگ میں دہشت گردوں سے متعلق حقائق دیکھے اور سنے تو سوچا کہ ہم احمقوں کی کس جنت میں رہ رہے تھے۔ وہ اسلحہ‘ وہ لٹریچر اور وہ مواد اپنی آنکھوں سے دیکھا جو آئے روز ہماری تباہی کی وجہ بن رہا ہے تو کتنے ہی مغالطے دُور ہوئے۔ کاش کہ ہم فوج پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیا کریں کہ جن والدین کے بچے فوجی محاذ پر آئے روز شہید ہو رہے ہیں انہیں ہمارے اس طرز عمل سے کتنی تکلیف پہنچتی ہو گی ۔ گزشتہ اتوار مجھے فون پر جب یہ اطلاع ملی کہ آپ نے پشاور سانحے کے لواحقین کو عمرے پر بھجوانے کی جو تجویز دی تھی ‘ اس پر عمل شروع ہو گیا ہے اور پہلی فلائٹ آج رات روانہ ہو رہی ہے تو فرط جذبات سے میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ پاک فوج نے بچوں کے لواحقین کو عمرے پر بھجوا کر جہاں زخمی دلوں پر مرہم رکھا ہے وہیں اللہ کے حضور اپنے مقام و مرتبے میں اضافہ کیا ہے۔ فوج کی اس عظیم کاوش کو ہر پاکستانی کا سلام۔ پاک فوج نے دل جیت لئے!