"ACH" (space) message & send to 7575

دو نالی بندوق اور چار بدمعاش

سوچتا ہوں آٹھ برس قبل شفیق اقبال مشورہ مان لیتا تو آج اس کا یہ حال نہ ہوتا۔
آٹھ برس قبل مجھے اس نوجوان کا خط موصول ہوا۔ یہ خط میرے نام نہیں تھا ۔اس میں تمام میڈیاکو مخاطب کیا گیا تھا۔ شفیق اقبال نے اپنی کہانی بیان کی تھی کہ وہ کس طرح اس ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی بھی ادارہ اس کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ کسی مالی مدد کا خواہشمند نہ تھا بلکہ اس کی خواہش تھی کہ اگر اسے تھوڑی سی حوصلہ افزائی ملے‘ تھوڑی سی شاباش ملے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ شفیق اقبال کا تعلق بہاولپور سے تھا۔ بنیادی طور پر وہ بجلی کے آلات سے کھیلنے کا شوقین تھا جو اس کا پیشہ بن گیا۔ اس نے مقامی سطح پر جنریٹرز اور بجلی کے آلات کی دکان بھی بنا لی ۔ وہ چاہتا تو اسی کو جاری رکھتے ہوئے معقول پیسہ بنا کر خوشحال زندگی بسر کر سکتا تھا ۔ لوڈشیڈنگ نے جہاں بہت سے لوگوں اور اداروں کو برباد کر دیا ہے وہاں ایک نئی انڈسٹری پھل پھول رہی ہے۔ یہ جنریٹرز اور یو پی ایس کی صنعت ہے۔ بجلی کے متبادل وسائل کی صنعت ہے جہاں لوگوں کا مقصد صرف اور صرف پیسہ بنانا ہے۔ شفیق اقبال نے اپنے لئے دوسرا راستہ چنا۔ اسے متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے اورملک کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کا جنون تھا۔ اس نے اپنے گھر کے ایک کونے کو چھوٹی سی لیب میں تبدیل کر لیا اور بالآخر 2002ء میںشمسی توانائی سے چلنے والی ایک موٹر سائیکل بنا ڈالی۔ اس کا پاگل پن یہیں تک محدود نہیں رہا۔ اسے یقین تھا کہ اس زمین پر کوئی بھی چیز بے معنی نہیں‘ حتیٰ کہ جانوروں کا فضلہ اور کوڑا کرکٹ
بھی نہیں۔ چنانچہ اس نے بائیو فیول ٹیکنالوجی پر کام شروع کر دیا۔دسمبر 2008ء میں‘ اس نے بستی بلوچاں کے ایک گھر میں بائیو گیس سے چلنے والا دو کلو واٹ کا پلانٹ لگایا۔ اس موقع پر سابق سیکرٹری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ بھی موجود تھے۔شفیق اقبال سمیت سبھی لوگ ان سے ''تعاون‘‘ کی اُمید لگائے بیٹھے تھے ۔اس موقع پر انہوں نے شفیق کو سر سے پائوں تک دیکھا اور ایک تاریخی فقرہ کہا۔وہ بولے '' کیا آپ ارشمیدس ہیں جو آپکے ساتھ تعاون کیا جائے‘‘ جب شفیق نے یہ فقرہ سنا تو اس کے خواب چکنا چور ہوئے ‘نہ اسے حیرت ہوئی بلکہ اس نے عرض کیا کہ ''جناب عالی اس حوصلہ افزائی پر میںآپ کا ممنون ہوں اور شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے میری اوقات یاد دلا دی‘‘۔ چھ سال کی محنت اور دوکامیاب تجربات کا پھل شفیق کو یہ ملا کہ پہلے اس کی والدہ کاپراویڈنٹ فنڈ بند کر دیا گیا پھر اس کے گھر کی بجلی کاٹ دی گئی اور مختلف حربوں سے اسے ذہنی طور پر مفلوج کر دیا گیا ۔ شفیق کی باتیں سن کر میں نے اسے کالم کی شکل دی۔ اس کالم کے بعد اسے بہت سے پراجیکٹ ملے۔ تازہ ترین یہ ہے کہ اس نے ملتان میں بائیو فیول اور پھلوں سبزیوں کے ویسٹ سے چلنے والا دس میگا واٹ کا پلانٹ بھی انسٹال کر دیا ہے اور یہ سب نجی شعبے کی معاونت سے ہوا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شفیق اقبال کی صحت انتہائی خراب ہو گئی اور اس وقت
وہ ایک ہسپتال میں شدید علیل ہے۔ میں نے آٹھ برس قبل شفیق کو مشورہ دیا تھا کہ وہ باہر چلا جائے یہاں اس کی قدر نہیں ہو گی لیکن وہ نہ مانا۔ اسے امریکہ سے آفر بھی تھی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو یہاں آزمائے لیکن اس نے جانا گوارا نہ کیا۔
سوچتا ہوں آج اگر شفیق اقبال جدید ممالک میں ہوتا تو ہنری فورڈ ہوتا ‘جو گاڑیوں کے کاروبار میں پانچ مرتبہ ناکام اور دیوالیہ تک ہوا لیکن اس کی چھٹی کوشش نے امریکہ میں گاڑیوں کی سب سے بڑی کمپنی فورڈ کی بنیاد رکھ دی۔ یہ آر ایچ میسی بھی ہو سکتا تھا جسے ابتدا میں سات مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن آٹھویں بار نیویارک میں بالآخر اس نے میسی گارمنٹس سٹور کا کامیابی سے آغاز کر دیا۔ یہ ایف ایچ وول ورتھ بھی ہو سکتا تھا جو امریکہ میں ڈیپارٹمنٹل سٹورکی سب سے بڑی چین شروع کرنے سے قبل ایک دکان میں ملازم تھا اور اس کا مالک بہانے بہانے سے اس کے پیسے کاٹ لیتا تھا۔ یہ سوئچر بھی ہو سکتا تھا جس کی ٹویوٹا موٹرز میں نوکری کی درخواست کو مسترد کیاگیا‘ اس نے قرضہ لیا اور گھر میں سکوٹر بنانے شروع کر دئیے اور یوں ہنڈا موٹرز کا آغاز ہوا۔ یہ اکیو موریتا بھی ہو سکتا تھا جس نے سونی کمپنی کی بنیاد رکھی‘ اکیوتا نے ککر بنائے ،یہ ناکام ہوگئے لیکن اسی موریتا نے بعد ازاں سونی کارپوریشن کی ایمپائر کھڑی کر دی۔ یہ کمپیوٹر کی دنیا کا رخ موڑنے والابل گیٹس بھی بن سکتا تھا جسے ہارورڈ یونیورسٹی سے نکالا گیا تھا‘ اس کا پہلا بزنس بھی پال ایلن کے ساتھ فلاپ ہوا لیکن اگلی کوشش مائیکروسافٹ کی تھی جس نے اسے دنیا کا امیر ترین شخص بنا دیا۔ یہ ہارلینڈ ڈیوڈ سینڈر بھی ہو سکتا تھا جس کی مرغی تلنے کی ترکیب ایک ہزار نو ہوٹلوں نے رد کی تھی لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اگلے ریستوران نے اسے موقع دے دیا اور یوں کینٹکی فرائیڈ چکن‘ کے ایف سی کا آغاز ہو گیا۔ یہ والٹ ڈزنی بھی ہوسکتا تھا جسے ایک اخبارسے اس لئے نکال دیا گیا کہ اس کے پاس تخلیقی آئیڈیاز نہ تھے اور یہ آئن سٹائن بھی ہو سکتا تھا جو چار برس کی عمر تک ایک لفظ نہ بول سکا تھا‘ اسے سکول سے نکالا گیا اور کئی برس تک اسے داخلہ نہ ملا ، مگر اسی شخص نے فزکس کی دنیا کا رخ موڑ دیا اور نوبل پرائز لیا۔ یہ رابرٹ گوڈرڈ بھی بن سکتا تھا جو خلائی جہاز کے راکٹ کا موجد تھا لیکن کالج کے دنوں میں اسے خفت کا سامنا کرنا پڑتا جب اسے نالائقی پر بینچ پر کھڑا کر دیا جاتا۔یہ آئزک نیوٹن بھی ہو سکتا تھا جو سکول میں عام طالبعلم تھا‘ وہ ایک فارم ہائوس کی نگرانی بھی کرتا لیکن اس کا مالک اسے اکثر تنخواہ نہ دیتا‘ اسی نیوٹن نے بعد ازاں قوانین حرکت وضع کئے۔ یہ رابرٹ سٹینبرگ بھی ہو سکتا تھا جسے کالج کے پہلے سائیکالوجی ٹیسٹ میں سی گریڈ ملا لیکن یہی رابرٹ بعد میں امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن کا صدر بنا اور یہ تھامس ایڈیسن بھی ہو سکتا تھا جسے استاد بیوقوف اور نالائق کہتے تھے ‘یہ پہلی دونوں نوکریوں میں نکال دیا گیا‘ بلب بنانے سے قبل اس کی ایک ہزار کوششیں ناکام ہوئیں لیکن بالآخر اس نے بلب بنا لیا اور یہ رائٹ برادران کے نقش قدم پر بھی چل سکتا تھا جن کا سائیکل بنانے کا کاروبار بری طرح فلاپ ہوا لیکن وہ سینکڑوں کوششوں کے بعد ہوا میں اڑنے والی مشین بنانے میں کامیاب ہوگئے اور اس کا نام ہوائی جہاز رکھا ۔
یہ سارے لوگ‘ یہ آئزک نیوٹن‘ یہ رائٹ برادران‘ یہ بل گیٹس اور یہ تھامس ایڈیسن اگر اس ملک میں پیدا ہوئے ہوتے تو یہ بھی یقینا آج شفیق اقبال کی طرح بستر علالت پر پڑے ہوتے اور ایجادات تو درکنار اپنی روزی روٹی پوری کرنے کے لئے تڑپ رہے ہوتے۔ حکومت ان کے گھروں کی بجلی کاٹ چکی ہوتی‘ ان کے بچے سکول جانے اور روٹی کھانے سے بیٹھے ہوتے اور یہ علاج کے لئے حکومتی امداد کا انتظار کر رہے ہوتے۔ کاش شفیق یہ سمجھ جاتا کہ یہ ملک شفیق اقبال ‘ رائٹ برادران‘ بل گیٹس اور تھامس ایڈیسن جیسوں کے لئے نہیں بنا‘ اس ملک میں انسان کو خود کو منوانے کے لئے دو نالی بندوق اور چار بدمعاشوں کی ضرورت ہوتی ہے ‘ شفیق کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں تھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں