یہ پندرہ سال پرانی بات ہے۔ ایک دوست کا فون آیا۔کافی گھبرایا ہوا تھا۔ معلوم ہوا‘ اس کے والد اچانک شدید علیل ہو گئے ہیں۔ شام تک ٹھیک ٹھاک تھے۔ معمول کا کھانا کھایا اور واک کے لئے نکلے کہ ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ چند ہی منٹوں میں نچلا دھڑ سُن ہو چکا تھا۔ جہاں تھے وہیں گر پڑے۔انہیں لے کر ہسپتال گئے۔ ایمرجنسی سے آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا۔ پتہ چلا کوئی عجیب و غریب انفیکشن ہو گئی ہے جس سے غالباً خون کے سرخ خلیوں کی تعداد خوفناک حد تک گر گئی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق انہیں روزانہ پلیٹ لیٹس کی اچھی خاصی مقدار درکار ہو گی لہٰذا فوری طور پر خون کی پانچ بوتلوں کا بندوبست کریں۔ اگر خون کی پوری بوتل لگنی ہوتی تو پھر بھی معاملہ اور ہوتا لیکن یہاں تو چار پانچ بوتلوں میں سے صرف ایک بوتل ریڈ سیلز کی نکلنی تھی۔خون کا گروپ چیک کیا گیا تو بی نیگیٹو نکلا۔ یہ ایک اور مشکل آن پڑی تھی کہ یہ بلڈ گروپ بہت کم لوگوں کا ہوتا ہے۔ڈاکٹروں نے وقت اتنا کم دیا تھا کہ سب گھبرا گئے اور جس کا منہ جس طرف ہوا‘ دوڑ پڑا۔ اس وقت موبائل فون عام تھا‘ نہ ہی سوشل میڈیا کا رواج پڑا تھا۔ آ جا کر پی ٹی سی ایل تھا جو ظاہر ہے اس شخص سے رابطہ نہیں کرا سکتا تھا جو گھر سے باہر تھا۔ پہلی رات بڑی مشکل سے دو آدمی ایسے ملے جن کا بلڈ بی نیگیٹو تھا۔ لیکن یہ خون ایک بوتل ریڈ سیلز نکالنے کے لئے ناکافی تھا۔ ہوتا یوں تھا کہ لوگ تو بہت سے خون دینے کو مل جاتے تھے لیکن زیادہ تر کو اپنے خون کا گروپ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ بعض اوقات کسی فیکٹری سے ورکرز کی پوری وین بھر کر آتی تو ان میں سے ایک کا خون بھی بی نیگیٹو نہیں نکلتا تھا۔ یہ صورت حال
دیکھ کر میرا دوست اور اس کی فیملی دل ہارنے لگتے تھے۔ بلڈ بینکوں سے رابطہ کیا لیکن ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ انہیں فریش خون چاہیے یا پھر صرف ایک دن پرانا۔ اس طرح کی شرائط پوری کرنے کے لئے لوگوں کو کتنی جان مارنا پڑتی ہے‘ تگ و دو کرتے ہوئے کس قدر جذباتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یہ وہی جانتا ہے جس پر یہ مشکل آئی ہو۔ ہمیں یاد ہے ہمارا قریبی دوست ہونے کے ناطے ہم دوست علی الصبح ہسپتال پہنچ جاتے اور اسی دوران یونیورسٹی سے بھی ہو آتے اور رات گئے تک خون کی تلاش بھی جاری رہتی۔ کئی دن سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ جب مطلوبہ خون ارینج ہو جاتا تو بوتل لگا دی جاتی۔ پندرہ بیس دن کے دوران کوئی سو ڈیڑھ سو بوتلیں کسی طرح اکٹھی بھی ہو گئیں اور وقفے وقفے سے لگتی بھی گئیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بیس روز اسی کشمکش میں رہنے کے بعد وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ یہ واقعہ مجھے چند روز قبل اس وقت یاد آیا جب امریکہ میں مقیم ایک دوست نے اطلاع دی کہ ان کے قریبی عزیز جو شفا ہسپتال اسلام آباد میں داخل ہیں‘ ان کے جگر کی پیوند کاری کے آپریشن کے لئے انہیں تیرہ اپریل کو اے پازیٹو خون کی بیس پچیس بوتلیں درکار ہیں۔ظاہر ہے یہ ایسا کام ہے جو کوئی بھی شخص اکیلا نہیں کر سکتا۔ جس شخص کا جو بھی حلقہ احباب ہوتا ہے‘ وہ چاروناچار اسی کو فون کرتا ہے تاکہ خون کی مطلوبہ مقدار بروقت اکٹھی کی جا سکے۔
خون دینے کے معاملے میں لوگ بہت سے مغالطوں کا شکار ہیں۔کوئی سمجھتا ہے کہ شاید اس طرح اس کا خون کم ہو جائے گا‘ وہ کمزور ہو جائے گا ‘ اس کا وزن اور صحت گر جائے گی اور وہ کسی بیماری کا شکار ہو جائے گا۔ اس کی وجہ کم علمی ہے۔ جدید سائنس ثابت کر چکی ہے کہ ڈونر کو کئی فوائد ہوتے ہیں۔امریکن جرنل آف ایپی ڈیمولوجی کے مطابق خون دینے والے افراد کو ہارٹ اٹیک کے امکانات دیگر کے مقابلے میں 88فیصد کم ہوتے ہیں۔بار بار خون دینے سے شریانوں میں خون کی رفتار بہتر ہو جاتی ہے جس سے شریانوں کی تنگی اور رکاوٹ دُور ہو تی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جب کوئی خون دیتا ہے تو اس کا خون تیرہ مختلف ٹیسٹوں سے گزرتا ہے جس میں ایچ آئی وی اور دیگروائرس اور بیماریاں چیک کی جاتی ہیں۔ اس طرح انسان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کہیں اس میں کوئی بیماری تو نہیں پنپ رہی۔تیسرا یہ کہ ہر صحتمند جسم میں آئرن کی مقدار پانچ گرام کے قریب ہوتی ہے۔ ایک یونٹ خون دینے سے ایک چوتھائی گرام آئرن کم ہو جاتا ہے جو ہارٹ اٹیک سے محفوظ رکھنے میں کارگر ہے کیونکہ خون میں آئرن کی زیادہ مقدار صحت کیلئے اچھی نہیںہوتی۔چوتھا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خون دینے سے انسان کی عمر لمبی ہو جاتی ہے۔ ریڈ کراس کی ریسرچ کے مطابق ایک سنگل ڈونیشن سے انسان تین لوگوں کی جان بچا سکتا ہے۔ ہر صحتمند انسان تین ماہ بعد خون کی ایک پوری بوتل دے سکتا ہے۔صرف پلیٹ لیٹس دینے ہوں تو تین دن کے وقفے کے بعد دئیے جا سکتے ہیں اور سال میں چوبیس مرتبہ جبکہ پلازما ہر اٹھائیس دنوں بعد دیا جا سکتا ہے۔امریکہ میں خون دینے کے لئے اسی لاکھ افراد نے خود کو رجسٹر کرایا ہوا ہے۔ صرف نیویارک میں سالانہ دو ہزار خون کی بوتلیں درکار ہوتی ہیں۔ ایکسیڈنٹ‘ کینسر کے مریض‘ ٹرانسپلانٹ‘ بچے کی پیدائش اور دیگر سرجریز کے لئے لاکھوں لوگوں کو خون درکار ہوتا ہے۔ہر ریاست میں مختلف سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں حکومت کے زیر نگرانی کام کر رہی ہیں۔ ان کے پاس ہر شخص کے خون اور رابطہ کی مکمل معلومات موجود ہوتی ہیں۔جیسے ہی کسی کو خون کی ضرورت ہوتی ہے ‘ چند منٹوں میں مطلوبہ شخص مل جاتا ہے۔ اس سارے انتظام کے باوجود ہسپتالوں میں خون کی کمی کا سامنا رہتا ہے لیکن مریضوں اور ان کے لواحقین کو اتنی پریشانی نہیں ہوتی جتنی ترقی پذیر ممالک میں ہوتی ہے۔پاکستان میں مختلف ادارے اپنی مدد آپ کے تحت خون جمع کرتے ہیں۔ ہسپتالوں میں بھی خون موجود ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ تر حادثاتی مریضوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس سلسلے کو مرکزی اور حکومتی سطح پر منظم کیا جانا چاہیے بالکل اسی طرح جس طرح گیارہ بائیس ایمبولینس کی سروس کامیابی سے چل رہی ہے۔ پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ حکومت ب فارم اور شناختی کارڈ بنواتے وقت بلڈ گروپ لکھوانا لازمی قرار دے۔ اس کے لئے سرکاری و نجی ہسپتال عوام کے بلڈ گروپ چیک کریں اور تصدیقی مہر کے ساتھ ایک سلپ جاری کریں۔ اس سے تمام لوگوں کے بلڈ گروپ کا تعین ہو جائے گا۔ اس کے بعد بلڈ گروپ کے اداروں اور عام شہریوں کی مدد سے بلڈ ڈونرز کے کوائف جمع کئے جائیں۔ یہ سارا ڈیٹا کسی ویب سائٹ پر منتقل ہو اور عام شہری کو اس تک رسائی بھی حاصل ہو۔تعلیمی اداروںاور میڈیا میں ہر تین ماہ بعد خون دینے کے فوائد سے آگاہ کرنے کے لئے مہم چلائی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اس طرف راغب ہوں۔جس طرح خون دینے کے لئے کوئی مشکل شرائط نہیں مانگی جاتیں اسی طرح غریب اور ضرورتمند افراد کو خون کی طلب ہونے پر ان کے ساتھ فوری تعاون کیا جائے‘ نہ کہ ان سے طرح طرح کے سرٹیفکیٹ اور اتنے اجازت نامے طلب کئے جائیں یہاں تک کہ اگلے کا مریض ہی پار ہو جائے۔ سب سے اہم یہ کہ ہر گھر کا سربراہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ خون ضرور دے تاکہ وہ خود بھی صحت مند رہ سکے اوراس کے بچوں میں بھی تحریک پیدا ہو ۔ یاد رہے آج اگر آپ کسی کو ایک بوتل خون کی دیتے ہیں تو کسی پر نہیں بلکہ خود پر احسان کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ خدانخواستہ خون کی ضرورت کسی کو بھی‘ کسی بھی وقت پڑ سکتی ہے۔