مان لیتے ہیں چینی صدر کا دورہ انتہائی کامیاب رہا۔ 45ارب ڈالر کا تازہ خون اس ملک کی رگوں میں نئی روح پھونک دے گا۔ 1820میگا واٹ کے 5منصوبے بجلی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد دیں گے۔اقتصادی راہداری کا معاہدہ علاقے میں معیشت کے نئے دروازے کھول دے گا۔شاہراہ قراقرم کی اپ گریڈیشن سے تجارت میں مزید تیزی آئے گی۔لاہور کراچی موٹروے منصوبے کی تکمیل سے سندھ اور پنجاب کے درمیان دوریاں کم ہوں گی۔لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ لاکھوں مسافروں کے لئے آسانی کا باعث بنے گا۔سولر انرجی پراجیکٹ سے انتہائی سستی بجلی سے عوام کو ریلیف حاصل ہو گا۔ ایف ایم ریڈیو 98چینل دونوں ملک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لائے گا۔تین سال میں آٹھ ہزار تیس سو میگا واٹ بجلی آ گئی تو لوڈشیڈنگ کا دورانیہ انتہائی کم رہ جائے گا۔گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ بن گیا تو ساری دنیا اس جانب کھنچی چلی آئے گی۔ساہیوال میں کوئلے سے بجلی بنانے کا منصوبہ چل پڑا اور کامیاب ہوا تو یہ سلسلہ ملک کے دیگر حصوں تک بھی پھیل جائے گا۔اسی طرح مواصلاتی انفراسٹرکچر بہتر ہوا تو مواصلاتی نظام جدید ترین سطح پر آ جائے گا۔صنعتی پارک بن گیا تو چین کی طرح پاکستانی کمپنیاں بھی دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائیں گی۔نمل یونیورسٹی اور سنکیانگ یونیورسٹی کے درمیان تعاون کے معاہدے پر عمل ہو گیا تو دونوں ممالک کے ہزاروں طلبا اعلیٰ تعلیم کے مواقع سے استفادہ کر سکیں گے۔دادو اور جھمبر پور ونڈ پاورپراجیکٹ مکمل ہو گئے تو یہ ہوا سے بجلی بنانے کے بڑے منصوبوں کا آغاز ہو گا۔اسی طرح گوادر ہسپتال کی تعمیر‘ سمال ہائیڈرو پاور مشترکہ ریسرچ‘پاک چین ثقافتی مرکز کا قیام اورانڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا کی لاہور برانچ جیسے منصوبے بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنائیں گے تاہم ہم یہ کیسے مان لیں کہ ان سارے منصوبوں
میں ہماری نیت بھی اُتنی ہی صاف ہو گی جتنی کہ دوست ملک چین کی۔ ایک ایک پیسے کو اُس کی اصل جگہ پر لگایا جائے گا۔ من پسند اور جعلی نام سے کمپنیاں بنا کر ٹھیکے الاٹ نہیں کئے جائیں گے۔ ٹھیکوں میں انڈر ہینڈ کمیشن نہیں لیا جائے گا اور دو نمبر مال کا استعمال نہیں ہو گا۔ ماضی میں جس طرح زلزلوں اور دیگر مواقع پر امدادیں تک ہڑپ کر لی جاتیں‘ اس سرمایہ کاری کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔ کیا واقعی ہم اپنے دوست کے خلوص کا جواب خلوص سے دیں گے یا پھر اس طرح کے دوروں اور امداد کو محض سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے۔دوسرا یہ کہ کیا ہمیں صرف چینی سرمایہ کاری پر خوش ہو جانا چاہیے۔ کیا ہمیں صرف اسی پر بغلیں بجانا چاہئیں کہ ہمارے ہاں تیز رفتار ٹرینیں چلنے والی ہیں‘ کشادہ سڑکیں اور جدید ایئرپورٹ بننے والے ہیں اور بجلی کے پلانٹ چلنے سے لوڈشیڈنگ کم ہونے والی ہے یا پھر ہمیں وہ کمٹمنٹ‘ وہ جذبہ‘ و ہ سوچ‘ وہ محنت‘ وہ معیار اور وہ اُصول بھی اپنانا ہوں گے جو چینی قوم نے اپنائے‘ جن کی وجہ سے چین آج چین بنا‘ یہ امریکہ ‘ یورپ اور دیگر ممالک کو قرضے دینے لگا اور جن کی وجہ سے آج چین دنیا کی پہلی بڑی معیشت بننے کے بہت قریب ہے۔ آپ چینی قوم کا کلچر ملاحظہ فرما لیں‘ اگر آپ کو وہاں وہی کچھ ہوتا دکھائی دے جو ہم کرتے ہیں‘ جیسے ہم سوتے اور جاگتے ہیں‘ جیسے ہم کام اور وقت کی قدر کرتے ہیں اور جیسے ہم نظم و ضبط کا خیال کرتے ہیں‘ اگر ایسا وہاں ہو رہا ہے تو پھر سو بسم اللہ‘ پھر ایسی ہی زندگی گزارتے رہیے اور اس طرح کے منصوبوں اور سرمایہ کاری سے اپنی تقدیر بدلنے کی امید لگائے رکھئے لیکن اگر آپ کو لگے کہ نہیں ‘ چینی اور پاکستانی قوم میں بہت زیادہ فرق ہے‘ وہ لوگ
کام کی قدر کرتے ہیں‘ ہم کام چوری کا شکار ہیں۔ وہ ایک ایک سیکنڈ کو کیلکولیٹ کر کے چلتے ہیں اور ہم گھنٹوں‘ دنوں اور ہفتوں کو ضائع کرنے کے عادی ہیں۔ وہ سارا دن نیم گرم پانی میں پودینے کی چار پتیاں ڈال کر پیتے اور ہشاش بشاش رہتے ہیں اور ہم کولڈڈرنکس اور چائے پی پی کر اپنے معدے اور اپنی جیبیں تباہ کر رہے ہیں۔ان کے ہر ادارے میں ریسرچ سنٹر قائم ہے جبکہ ہم تحقیق کو درخوراعتنا سمجھنے کو تیار نہیں۔وہ جیسا مال تیار کرنے کا آرڈر ملے ویسا تیار کر دیتے ہیں اور ہم طے شدہ معیار سے ہمیشہ گھٹیا درجے کا مال تیار کرنے کے عادی ہیں تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر بھی وہ تبدیلیاں لائیں جو چینی عوام لائے اور جو بالآخر ان کی ترقی کا باعث بنیں۔آپ حیران ہوں گے کہ چین دنیا کا واحد ملک ہے جسے وقتاً فوقتاً اپنی ترقی پر روک لگانا پڑتی ہے تاکہ غیر ضروری ترقی سے اس کا معاشرتی ڈھانچہ تباہ نہ ہو جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی اپنے ملک میں مسلسل اصلاحات کر رہے ہیں تاکہ وہ دنیا میں اپنا معاشی مقام بنا سکیں اور سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ بھی کر سکیں۔ چین کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ معاشی اشاریوں کے مطابق اس کی خام ملکی پیداوار کی تقسیم آبادی میں سب سے زیادہ مناسب ہے یعنی امیر اور غریب کے درمیان فرق نسبتاً کم ہے ۔ 2006ء میں چین کی خام ملکی پیداوار 1978ء کی نسبت 10 گنا زیادہ تھی۔ چین کی طاقت کا اندازہ بہت سی چیزوں سے ہو سکتا ہے مثلاً چین میں 23 ہزارسے زیادہ ڈیم ہیں۔ 2005ء میں اس کی برآمدات اس کی درآمدات سے 30ارب امریکی ڈالر زیادہ تھیں۔ 2006ء میں چین میں 70 ارب امریکی ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ اسی سال چین دنیا میں سب سے بڑے زرِ مبادلہ کے ذخائر رکھنے والا ملک بن گیا۔ تیزی سے ترقی کی وجہ سے 1981ء سے 2001ء کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی تعداد 53 فیصدسے کم ہو کر صرف 8 فیصد رہ گئی۔ 1990ء کی دہائی میں فی کس آمدنی میں 175 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس قدر تیز ترقی کے باوجود افراطِ زر کو قابو میں رکھا گیا جو 1995-1999 ء کے دوران بہت کم ہو گیا۔
چینی صدر شی چن پنگ گزشتہ روز پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے تھے تو مجھے مائوزے تنگ کا ایک تاریخی جملہ یاد آ گیا۔چین کے انقلابی لیڈر ماؤزے تنگ بہت اچھی انگلش جانتے تھے ۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی انگلش میں بات نہیں کی۔کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اپنی زبان سے محبت ہی ترقی کی ضامن ہے ۔ایک مرتبہ ایک مغربی صحافی نے ان سے پوچھا کہ آپ انگریزی میں خطاب کیوں نہیں کرتے تو اس عظیم لیڈر نے برجستہ جواب دیا۔''میں دنیا کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ چین گونگا نہیں‘‘۔اب آپ اسی تناظر میں ذرا پاکستان کی طرف نظر کریں۔ پاکستان کی تقریبا 84 فیصد آبادی انگریزی سے نا آشنا ہے ۔ مگر ہمارے لیڈر آج بھی انگریزی میں خطاب کو فخر محسوس کرتے ہیں۔اپنی زبان کو اپنانا خوش بختی اور اعتماد کی علامت ہے جبکہ ہم اردو زبان کو اپناتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں۔ آج جب
چین اور پاکستان کے درمیان اتنے بڑے پیمانے پر معاہدے ہو رہے ہیں‘ کیا ہمیں ایک قدم آگے بڑھ کر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جس طرح ہم چین کی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں‘ جس طرح ہم اپنے دوست ملک کے سربراہ کا استقبال کر رہے ہیں‘ دونوں ممالک آپس میں تعلقات مضبوط کر رہے ہیں اسی طرح ہم اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے چینی قوم کی ترقی کے وہ راز پا لیں‘ ہم ان اصولوں پر عمل کرنا شروع کر دیں جن پر چینی عمل کرتے رہے‘ ہم اس طرح محنت کرنا شروع کر دیں جس طرح چینی قوم کرتی ہے‘ ہم لین دین کے معاملے میں اس طرح ایماندار بن جائیں جس طرح چینی ادارے ایمانداری دکھاتے ہیں اور ہم اپنے مذہب اور جمہوریت کے دائرے میں رہتے ہوئے چینی قوم کے ہر اچھے عمل کو اپنا لیں‘تو ہم بھی چین کی طرح ایک ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔یہ بھی یاد رکھیں کہ چین نے ہمیں اُن خصوصیات پر عمل کرنے سے ہرگز نہیں روکا جن پر چل کر چین کامیاب ہوا۔ یہ ہماری ہٹ دھرمی ‘ سستی اور کاہلی ہے جو ایک خودکفیل‘ خودمختار اور بااعتماد قوم بننے میں رکاوٹ ہے۔ کوئی شخص کسی کے گھر میں روشن بلب لگا سکتا ہے لیکن اس گھر کے مکینوں کو اس بلب کی روشنی میں پڑھنے پر آمادہ کرنا اس کا کام نہیں۔ وہ کسی کو اچھے قالین تحفے میں دے سکتا ہے لیکن ان قالینوں پر گندے جوتے لے کر چڑھنے سے نہیں روک سکتا۔کوئی کسی کو حفاظت کے لئے جدید اسلحہ دے سکتا ہے لیکن اسلحہ چلانے کے لئے حوصلہ اور ہمت پیدا کرنا اسلحہ چلانے والے کا کام ہے۔ چین نے ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قدم جو آگے بڑھایا ہے‘ ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ ہمیں اس موقع کو صرف مادی تعمیر و ترقی کے لئے نہیںبلکہ چینی قوم کے لائف سٹائل کو دیکھتے ہوئے اپنی ذات کی تعمیر اور ترقی کے لئے بھی استعمال کرنا چاہیے۔ ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔