زندگی کیا ہے ہم آج تک نہیں جان پائے۔ ہم ماں کے پیٹ سے آتے اور قبر کے پیٹ میں اتر جاتے ہیں‘ اپنی زندگی کے ساٹھ ستر سال گزار دیتے ہیں‘ دنیا کے ہر کھانے‘ ہر نعمت اور ہر تفریح کا مزا لیتے ہیں‘ پہاڑوں‘ جنگلوں اور چٹانوں کا بسیرا کرتے ہیں‘ شہر شہر قریہ قریہ گائوں گائوں پھرتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کر پاتے کہ زندگی ہے کیا اور خدا ہم سے چاہتا کیا ہے۔ ہم میں سے بیشتر بڑا گھر‘ بڑی گاڑی‘ اعلیٰ نوکری‘ بہترین کاروبار‘بینک بیلنس‘ زمینوں‘ فارم ہائوسز اور زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرنے کو ہی زندگی سمجھتے ہیں۔ ہماری ساری زندگی اسی تگ و دو میں گزر جاتی ہے کہ ہمسائے کے پاس فلاں گاڑی کا نیا ماڈل ہے ہمارے پاس کیوں نہیں‘ فلاں نے فلاں ہائوسنگ سوسائٹی میں گھر بنایا ہے‘ ہم کیوں پیچھے ہیں‘ فلاں نے پچاسی انچ کا ایل سی ڈی ٹی وی لگوایا ہے ہمارا ٹی وی صرف بتیس انچ کا ہے‘ فلاں تو سارا یورپ گھوم آیا ہے اور ہم مری تک نہیں جا سکے‘ فلاں کی آمدنی کروڑوں میں ہے اور ہماری ہزاروں میں ۔ یہ درست ہے کہ انسان کو بہتر سے بہتر کی خواہش رکھنی چاہیے‘ اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جب ہم دوسروں کے پاس موجود نعمتوں کو برتر اور اپنی کو بد تر خیال کریں گے‘ جب ہم اپنے پاس موجود نعمتوں کو برا بھلا کہیں گے اور یہ نہیں دیکھیں گے کہ کروڑوں لوگ ایسے بھی ہیں جو ہم سے کہیں زیادہ مشکل حالات میں ہیں تو یہ سراسر زیادتی ہو گی۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ہم چرغے مرغے پھاڑتے رہیں
اور ہمسائے میں بچہ دودھ سے بلکتا رہے اور ہم پھر بھی ناشکرے بنے رہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بچپن سے بڑھاپے تک کا وقت زیادہ سے زیادہ چیزیں اور اثاثے جمع کرنے میں گزار دیتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ہمیں جو نعمتیں ملیں‘ ہم نے ان میں محروم لوگوں کو بھی شریک کرنا ہے۔ ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ روزقیامت خدا ہم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم کتنے سکوائر فٹ کے گھر میں رہتے تھے‘ تمہارے گھر کا سائز کیا تھا‘ اس میں کتنے کمرے‘ کتنی الماریاں اور کتنا فرنیچر تھا بلکہ وہ ہم سے پوچھے گا کہ تم نے ایسے کتنے لوگوں کی مدد کی جو بے گھر تھے اور تم نے ان کی چھت کا کیا انتظام کیا‘ وہ ہم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تمہاری تنخواہ‘ تمہاری آمدن کتنی تھی‘ وہ پوچھے گا کیا تم نے یہ پیسے کسی کا حق چھین کر تو نہیں کمائے‘ وہ ہرگز نہیں پوچھے گا کہ تمہارا عہدہ کیا تھا وہ پوچھے گا تم نے اپنی جاب‘ اپنے عہدے کے ساتھ کتنی وفاداری‘ کتنی ایمانداری نبھائی‘ خدا ہر گز یہ نہیں پوچھے گا کہ تمہاری پاس کون سی کمپنی کی کون سے ماڈل کی کار تھی‘ وہ پوچھے گا تم نے کتنے بوڑھوں‘ کتنے معذوروں کو ان کی منزل تک پہنچایا‘ وہ نہیں پوچھے گا تمہارے وارڈ روب میں کتنے فینسی کپڑے موجود تھے اور ان کا برانڈ کیا تھا‘ وہ پوچھے گا تم نے ایسے کتنے لوگوں کو کپڑے لے کر دئیے جو پیوند لگا لگا کر اپنی عزت چھپاتے تھے
اور تن ڈھانکنے تک کے قابل نہ تھے‘ خدا یہ کبھی نہیں پوچھے گا کہ تمہارے والدین نے تمہاری کتنی خدمت کی یا تمہارا کتنا خیال رکھا وہ پوچھے گا تم نے اپنے والدین کی کتنی اطاعت‘ کتنی فرمانبرداری کی‘ کتنی مرتبہ ان کی جھڑکیں برداشت کیں‘ انہیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا‘ ان کا منہ صاف کیا اور ان کے جوتے سیدھے کئے‘ وہ نہیں پوچھے گا تمہارے کتنے دوست تھے‘ تمہارا حلقہ احباب کتنا وسیع تھا‘ وہ پوچھے گا تم کتنی مرتبہ اپنے دوستوں کے کام آئے‘ تم نے مشکل میں ان کی کتنی مدد کی‘ خدا کبھی یہ نہیں پوچھے گا تمہارے ہمسائے میں کتنے گھر‘ کتنے لوگ آباد تھے‘ وہ پوچھے گا کتنی مرتبہ تم اپنے ہمسایوں کے گھر گئے‘ ان کے دکھ درد میں شریک ہوئے‘ وہ نہیں پوچھے گا تمہارے آس پاس کتنے ہسپتال‘ کتنے قبرستان تھے وہ پوچھے گا تم کتنی مرتبہ مریضوں کی تیمارداری کیلئے گئے‘ تم نے کتنی مرتبہ آخرت کو یاد کرنے کیلئے قبروں کا رخ کیا‘ وہ نہیں پوچھے گا تم نے اپنے حقوق پائے یا نہیں‘ وہ پوچھے گا تم نے اپنے اردگرد کتنے انسانوں‘ کتنے جانوروں اور کتنے پرندوں کا خیال رکھا‘ وہ تم سے یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ تم نے زندگی میں کتنی مرتبہ سچ بولا‘وہ پوچھے گا تم نے فلاں فلاں مرتبہ اتنے جھوٹ کیوں بولے‘ غیبت‘ چغلی اور منافقت کیوں کی‘ وہ ہرگز نہیں پوچھے گا کہ تمہاری جلد کا رنگ کیا ہے وہ پوچھے گا کہ تمہارا دل کس رنگ میں ڈھلا‘ وہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے کتنی مرتبہ زیادہ پیسوں‘ زیادہ آمدنی کے مواقع حاصل کئے وہ پوچھے گا کتنی مرتبہ تم نے ایسے مواقعوں کے حصول سے انکار کیا جن سے حرام کا لقمہ حاصل ہوتا تھااور جن سے تمہاری اور تمہارے بیوی بچوں کی دنیا اور عاقبت خراب ہوتی تھی‘ وہ یہ نہیں پوچھے گا تم سوسائٹی کی کس کلاس ‘ کس طبقے سے تعلق رکھتے تھے وہ پوچھے گا تم نے کسی کلاس‘ کس کلچر اور کس لائف سٹائل کو فروغ دیا‘ وہ نہیں پوچھے گا تم نے کتنی ڈگریاں حاصل کیں‘ وہ پوچھے گا تم نے کامیابی پر اپنے اساتذہ کا کتنی مرتبہ شکریہ ادا کیا‘ خدا ہرگز نہیں پوچھے گا زندگی میں کتنی مرتبہ تمہارا قول تمہارے فعل سے میچ ہوا‘ وہ پوچھے گا کتنی مرتبہ تم نے وعدہ توڑا‘ دھوکہ دیا اور زبان سے پھرے‘ خدا یہ بالکل نہیں پوچھے گا کہ تمہیں کیسی دنیا‘ کیسی زندگی ملی وہ پوچھے گا تم نے یہ دنیا‘ یہ زندگی‘ یہ لمحات اور یہ وقت کیسے گزارا‘ وہ یہ نہیں پوچھے گا تمہیں کتنی مرتبہ حکومت ملی‘ تم کتنی مرتبہ صدر‘ وزیراعظم یا وزیر بنے وہ پوچھے گا تم نے کتنی مرتبہ اپنی رعایا کو خوشحالی دی‘ اپنی کرسی ‘ اپنی طاقت اور اپنے اختیار کو کس حد تک عوام کیلئے استعمال کیا‘ وہ نہیں پوچھے گا تم نے گھر کے باہر کتنے درخت اُگائے‘ وہ پوچھے گا تم نے لوگوں کو ان کی گھنی چھائوں میں بیٹھنے سے کیوں روکا‘ وہ نہیں پوچھے گا تمہارے کتنے بچے تھے وہ پوچھے گا تم نے کتنوں کو دین سکھلایا‘ کتنوں کو جینے کا اصل گر بتلایا‘وہ نہیں پوچھے گا تمہارے ہاتھ کتنے خوبصورت اور کتنے حسین تھے‘ وہ پوچھے گا کتنی مرتبہ تم نے انہیں اپنے رب کے سامنے پھیلایا‘ وہ نہیں پوچھے گا تمہارا سر اور تمہاری پیشانی کتنی چوڑی تھی اور اس پر کتنے محراب تھے‘ وہ پوچھے گا تم نے کتنی مرتبہ اس سر اور اس پیشانی کو میرے در پر جھکایا‘ وہ نہیں پوچھے گا تمہارا بینک بیلنس کتنا اور تمہاری تجوری میں کیا تھا بلکہ وہ پوچھے گا تم دل کے کتنے امیر تھے اور وہ ہر گز ہر گز یہ نہیں پوچھے گا تم نے دنیا سے کیا حاصل کیا‘ کیا سمیٹا اور کیا کمایا بلکہ وہ پوچھے گا تم نے دنیا کو کیا دیا‘ کیا بتلایا اور کیا سکھایا۔
آج وہ شخص بھی پریشان دکھائی دیتا ہے جس کے پاس سائیکل ہے اور وہ بھی جو چھ کروڑ کی لینڈکروزر میں گھومتا ہے‘وہ شخص بھی جو پیٹ بھر کر کھانا حاصل نہیں کر پاتا اور وہ بھی جس کے دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں‘پھلوں اور مشروبات سے بھرے ہوتے ہیں ‘وہ بھی جس کے پاس چھوٹا گھر ہے اور وہ بھی جو فارم ہائوسز کا مالک ہے۔یہ سب کیا ہے؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟کہاں جا رہے ہیں؟ زندگی کے اس کھیل تماشے میں‘ کبھی وقت ملے تو ضرور سوچئے!