لی کوآن صرف جدید سنگا پور کے بانی نہیں تھے بلکہ انہوں نے انسانوں پر بھی اتنی ہی سرمایہ کاری کی جتنی عمارتوں‘ کارخانوں اور مشینری پر۔ یہی وجہ ہے کہ صحت عامہ کی سہولیات کے لحاظ سے سنگا پور دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ آپ اس ملک کے صحت کے شعبہ پر ایک نظر ڈالیں۔آپ کو لگے گا انسان صرف سنگاپور میں ہی بستے ہیں۔ سنگاپور میں صحت کا نظام لازمی بچت‘سبسڈیز اور قیمتوں کے توازن کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے سات طرح کی سکیمیں چل رہی ہیں۔ پہلی میڈی سیو(Medisave)ہے۔ اس کے تحت ہر شہری کی تنخواہ سے کچھ حصہ کاٹا جاتا ہے جو بعد میں اُس کے اور اس کے بیوی بچوں کے علاج معالجے کے کام آتا ہے۔دوسری سکیم میڈی شیلڈ ہے۔یہ اُس طبقے کے لئے ہے جن کے علاج کی نوعیت پیچیدہ اور طویل ہوتی ہے اور جو میڈی سیو فنڈ کے ذریعے پوری نہیں ہو سکتی۔مریض علاج کے لئے اپنی مرضی سے کسی بھی ہسپتال کا انتخاب کر سکتا ہے۔تیسری سکیم میڈی فنڈ ہے۔ یہ اس غریب اور کم آمدنی والے طبقے کے لئے ہے جو علاج کی بڑی رقم افورڈ نہیں کر سکتے اور نہ ہی تنخواہوں سے مسلسل کٹوتی کرواسکتے ہیں۔چوتھی سکیم ایلڈر شیلڈ(Elder Shield)ہے۔ یہ معمر افراد کے لئے ہے۔65سال کی عمر کے بعد کے افراد کو اس سکیم کے تحت علاج کے ساتھ ساتھ نقد رقم بھی ملتی ہے جو تین سو سے چار سو ڈالر ماہانہ تک ہوتی ہے۔پانچویں کمیونٹی ہیلتھ سکیم ہے جس کے تحت ہر علاقے کے مقامی کلینکس میں علاج معالجے کی
مفت سہولیات ملتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے نیلے اور اورنج کارڈ جاری کئے جاتے ہیں جسے دکھانے پر علاج کی سہولیات اُسی علاقے میں دستیاب ہو جاتی ہیں۔چھٹی سکیم بچوں کی پیدائش کے حوالے سے ہے جس میں والدین بچے کی پیدائش پر ساڑھے چار سو سے ساڑھے سات سو ڈالر یومیہ تک حاصل کر سکتے ہیں۔ ساتویں سکیم معذور افراد کے لئے ہے۔ ایسے معذور افراد جواٹھارہ سو ڈالر سے چھبیس سو ڈالر ماہانہ کماتے ہیں‘ انہیں ڈیڑھ سو ڈالر ماہانہ علاج کی مد میں ملتے ہیں اور جن معذور افرادکی آمدنی اٹھارہ سو ڈالر ماہانہ سے کم ہو یا وہ کچھ بھی نہ کماتے ہوں انہیں پھر بھی اڑھائی سو ڈالر علاج کی مد میں ملتے ہیں۔ ان ساری سکیموں میں ایک قدر مشترک ہے کہ جتنی کسی کی تنخواہ زیادہ ہو گی ‘ اسے میڈیکل فنڈز نسبتاً کم ملیں گے اور جس کی تنخواہ جتنی کم ہو گی اُسے اس حساب سے علاج کے لئے زیادہ امداد اور سہولیات ملیں گی۔مثلاً اگر کسی کی ماہانہ تنخواہ بتیس سو ڈالر یا کم ہے ‘ اسے حکومت علاج کے لئے ستر فیصد سبسڈی دیتی ہے جبکہ پانچ ہزار ڈالر ماہانہ کمانے والے کو پچپن فیصد سبسڈی ملتی ہے۔غریب آدمی کی جیب پر بوجھ چونکہ پہلے ہی زیادہ ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے زیادہ سبسڈی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ جبکہ زیادہ آمدنی والے افراد اپنی تنخواہ سے بھی حصہ ڈال لیتے ہیں اور یوں غریب اور امیر کے درمیان
مساوات قائم رہتی ہے۔ایک اور شاندار پروگرام پائینئر جنریشن ہے۔یہ ان افراد کے لئے ہے جو 1949ء یا اس سے قبل پیدا ہوئے اور جن کی عمر 2014ء میں 65سال یا اس سے زیادہ تھی۔ان لوگوں کو جدید سنگاپور کے اہم معمار کہا گیا ہے ۔ آج سنگاپور جو ہے وہ ایسے ہی افراد کی محنت اور کاوشوں کی بدولت ہے۔ اسی لئے ان معمر افراد کے لئے 65سال کے بعد ہر طرح کا علاج مفت ہوتا ہے۔سنگاپور میں صرف علاج پر ہی توجہ نہیں دی جاتی بلکہ عوام کو صحت مند رکھنے کے لئے طرح طرح کے جتن کئے جاتے ہیں۔ پیدا ہونے والے بچے سے لے کر سکول تک اور سکول سے لے کر کاروباری اداروں تک‘ لوگوں کو صحتمند رہنے کے گُر بتائے جاتے ہیں۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح وہ ایک لمبی اور صحت مند زندگی انجوائے کر سکتے ہیں۔ وہ کون سی خوراک‘ کون سا لائف سٹائل ہے جسے اپنا کر وہ خود کو فٹ رکھ سکتے ہیں‘ یہ سب حکومتی سطح پر ایسے سکھایا جاتا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو چلنا سکھاتی ہے۔ سنگاپور نے واقعی ثابت کر دیا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ آپ اپنے ملک کا حال دیکھ لیں۔ ہمارے حکمرانوں کے دعوے تو ہمالیہ سے اونچے ہو سکتے ہیں لیکن عوام کی حالت کمالیہ کے کسی دور افتادہ گائوں سے بھی بدتر ہے۔ حکمرانوں کے بھاشن دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں قدم رکھتے ہی آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور جب تک آپ ٹھیک نہیں ہو جاتے‘ کوئی ڈاکٹر آپ کو ڈس چارج کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے دروازوں پر مضر صحت اشیا فروخت ہو رہی ہیں‘ مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں‘ آلودہ پانی اور دُھول سے اٹی ''مزیدار‘‘ اشیا عوام مزے لے کر کھا رہے ہیں۔ نہ حکومت کو پروا ہے نہ عوام کو۔ نجی ہسپتالوں کا حال اس سے بھی برا ہے۔ بدقسمتی وہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ بہتر علاج ہونا یا نہ ہونا ‘ آپ کی قسمت پر ہے لیکن علاج کے لئے آپ کو نوٹوں کی بوریاں ضرور لے جانی پڑتی ہیں۔ اس کے بغیر نہ آپ کا آپریشن شروع ہو گا نہ ہی کوئی آپ کو ڈرپ تک لگانے کے لئے آگے بڑھے گا۔ آپ لاکھ ایڑیاں رگڑیں‘ آپ کے آنسوئوں آپ کی آہوں کا کسی پر اثر تک نہ ہو گا۔ یہ صرف معمول کے آپریشنز کے ساتھ نہیں بلکہ حادثاتی مریض بھی اسی پل صراط سے گزرتے ہیں۔امریکہ میں مقیم دوست بتاتے ہیں کہ وہاں کوئی مریض ایمرجنسی میں آ جائے تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کے انشورنس اکائونٹ میں علاج کی متعلقہ رقم ہے یا نہیں‘ بلکہ وہ علاج کرتے ہیں اور جب مریض کے ہسپتال سے جانے کا وقت آتا ہے‘ اس سے ایک روز پہلے اسے بتاتے ہیں کہ آپ کے ذمہ اتنی رقم واجب الادا ہے۔ اس کے بعد بھی وہ مریض کو ہسپتال سے جانے سے نہیں روکتے بلکہ مریض کسی بھی انشورنس ہیلتھ سکیم کا سہارا لے کر باعزت بری ہو جاتا ہے۔ہمارے جیسے ملکوں میں ایسا کب ہو گا‘ کون جانتا ہے؟ یہاں آپ کو علاج سے پہلے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ آپ واقعی انسان ہیں۔ انسان ہونے کی بھی دو شرائط ہیں۔ ایک‘ یا تو آپ سرکاری شخصیت ہوں‘ ایم این اے وغیرہ ہوں یا پھر آپ کی گاڑی کی ڈگی نوٹوں سے بھری ہو۔ آپ ہسپتال کا بل یوں بھرتے رہیں جیسے کوئی کنوئیں سے پانی نکال نکال کر پھینکتا ہے۔ اگر آپ ان دونوں میں سے کچھ نہیں‘ آپ محض ایک ووٹر ہیں جو ہر الیکشن میں کبھی نواز شریف زندہ باد تو کبھی آصف زرداری زندہ باد کے نعرے لگاتا آیا ہے‘ تو پھر آپ کے مقدر میں یہی کچھ لکھا ہے۔ آپ اس ملک کے باسی ہیں جہاں کی قومی اسمبلی کے 322 بیمار ارکان 18 ماہ کے دوران 21 کروڑ 68 لاکھ روپے کی دوائیاں کھا جاتے ہیں لیکن آپ اٹھارہ گھنٹے محنت مزدوری کے بعد بھی اپینڈکس کا آپریشن تک مفت نہیں کرا سکتے۔ آپ کا ملک سنگاپور ہے نہ امریکہ۔ آپ کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں کوئی لی کوآن نہیں جو آپ کو انسانیت کے تخت پر بٹھائے‘ جو آپ کو بتائے انسان صرف سنگاپور میں نہیں‘ آپ کے ملک میں بھی بستے ہیں۔