رات دس بجے پاکستان اور زمبابوے کے درمیان کرکٹ میچ جاری تھا کہ مجھے ایک عزیز کا فون آیا۔ کہنے لگے وہ اس وقت گلشن راوی بند روڈ پر ہیں ‘ یہاں ٹریفک دو گھنٹے سے پھنسی ہوئی ہے اور گاڑیوں کی لائن اتنی لمبی ہے کہ شاید بتی چوک تک جاتی ہو۔ کئی گاڑیوں میں پٹرول ختم ہو چکا ہے اور بچے بوڑھے گرمی اور انتظار کے عذاب سے گزر رہے ہیںجبکہ ایمبولنسیں سائرن بجا بجا کر تھک چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ تیس چالیس لڑکوں نے بند روڈ بلاک کر رکھی ہے۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہیں اور وہ کسی گاڑی کو آگے نہیں جانے دے رہے۔ دو گھنٹے گزر چکے ہیں لیکن اربا ب اختیار میں سے کوئی بھی یہاں نہیں پہنچا۔ میں یہ اطلاع ٹی وی چینلز کو دوں تاکہ پولیس اور انتظامیہ کو خبر ہو اور وہ یہاں آ کر مسئلہ حل کرائیں تاکہ ٹریفک بحال کی جا سکے۔میں نے اپنے عزیز کو کہا کہ وہ بہت برے پھنسے ہیں۔ اس وقت پاکستان زمبابوے کرکٹ میچ چل رہا ہے۔ صبح سے پورے لاہور کی انتظامی مشینری اس پر جتی ہوئی ہے۔ کھلاڑیوں اور کرکٹ آفیشلز کو پریزیڈینشل فول پروف سکیورٹی دینے کے لئے ہر جتن کیا جا رہا ہے۔ صدر وزیراعظم سے لے کر عام ایس ایچ او تک سب کی نظریں میچ پر لگی ہیں۔ ایسے میں کون ہے جو لاہور کی ایک سڑک بند ہونے پر ایکشن لے گا؟ ایکشن لینا تو دُور کی بات‘ ٹی ٹوئنٹی جیسے مختصر اور تھرلنگ میچ کے دوران کوئی ایسی شکایت یا مسئلہ سننے کا بھی روادار نہ ہو گا ۔یہ اور بات ہے کہ عام حالات میں زمبابوے کی ٹیم آتی تو کوئی اسے گھاس بھی نہ ڈالتا لیکن بالآخر ایسا ہونا تھا ۔میری بات سن کر وہ افسردہ ہوئے اور تقریباً روتے ہوئے کہنے لگے کہ
میرے ساتھ گاڑی میں بزرگ بھی ہیں جن کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔میں نے کہا آپ تسلی رکھیں‘ میں کچھ کرتا ہوں۔ میں نے الیکٹرانک میڈیا میں اپنے تمام دوستوں کو یہ خبر ایس ایم ایس کر دی۔ کچھ ہی دیر میں یہ خبر ایک دو چینلز پر ٹکر کی صورت میں چلنے لگی۔ تاہم ابھی میچ ختم ہونے میں چند منٹ باقی تھے۔ میں نے یہی پیغام ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف کو بھی بھیج دیا کہ شاید وہ اس مسئلے پر کوئی ایکشن لے سکیں۔ میں نے اس پیغام میں یہ گلہ بھی کیا کہ کیا پورے لاہور میں صرف کرکٹ میچ ہی سنگین مسئلہ رہ گیا ہے اور کیا ساری پولیس اسی پر مامور ہے؟ مجھے یقین تھا کہ نہ تو ڈاکٹر صاحب کے پاس یہ ایس ایم ایس دیکھنے کا وقت ہو گا اور اگر دیکھا بھی ہو گا تو پتہ نہیں وہ آگے کسی کو کہیں گے کہ ساری نفری تو شاید اس ایونٹ کو کور کر رہی ہے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے اس پیغام کے کوئی ایک گھنٹے بعد مجھے ڈاکٹر حیدر اشرف کا ایس ایم ایس موصول ہوا۔'' عمار صاحب! میں اس اطلاع کے بعد خود موقع پر پہنچا۔ ہم مسیحی اور مسلم کمیونٹی کو ٹکرائو سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس دوران ایک پتھر لگنے سے میرا سر پھٹ گیا۔ میں البتہ وہیں ہوں اور مزید فورس منگوا رہا ہوں۔ ڈاکٹر حیدر اشرف‘‘۔ میں یہ پیغام پڑھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر خود ایسے موقع پر پہنچ جائے گا جب پوری قوم سانسیں روکے ٹی وی دیکھ رہی ہو گی‘ میرے وہم و گمان میں نہ تھا۔ ایک زیرک افسر کے طور پر انہیں اندازہ تھا کہ یہ معاملہ کس قدر سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے‘ اس لئے وہ خود اگلے محاذ پر ڈٹے رہے۔ ان کی اس برق رفتاری اور معاملہ فہمی کی وجہ سے یہ چنگاری یہیں بجھ گئی اور بہت بڑا سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ جو معاملہ اخبارات میں رپورٹ ہوا‘ اس کے مطابق ساندہ کے علاقہ میں بجلی کے کھمبوں پر لگے ڈبوں سے مقدس اوراق نکال کر کرسچین کالونی کا رہائشی سینٹری ورکر مبینہ طور پر بے حرمتی کررہا تھا کہ اس دوران وہاں سے گزرنے والے چند افراد نے اسے یہ حرکت کرتے دیکھ کر پکڑنے کی کوشش کی جس پر وہ وہاں سے فرا ر ہو کر اپنی آبادی میں گھس گیا۔ واقعہ کی اطلاع ملنے پر سینکڑوں مشتعل مظاہرین نعرے بازی کرتے ہوئے کرسچین کالونی کی طرف بڑھنے لگے جس پر وہاں دونوں گروپوں میں پتھراؤ ہوا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف، ایس پی ہیڈ کوارٹر عمر سعید سمیت دیگر افسر اور اہلکاروں کی بڑی تعداد موقع پر جمع ہو گئی۔ پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کئے اور رات گئے ملزم کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کر دیا۔
خدا جانے یہ سینیٹری ورکر وہاں کیا کر رہا تھا‘ کیا نادانستگی میں اس سے کوئی لغزش ہو گئی یا پھر کسی ذاتی رنجش کی بنا پر اس پر الزام لگایا گیا‘ یہ تو تفتیش و تحقیق میں واضح ہو جائے گا تاہم پولیس بالخصوص ایس ایس پی آپریشنز کا جو کردار یہاں نظر آیا‘ اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ اگر وہ فوری طور پر حالات کو نہ سنبھالتے تو یوحنا آباد جیسا سانحہ دوبارہ پیش آ سکتا تھا۔ تاہم ابھی میں یہ سطریں لکھ ہی رہا تھا کہ ڈسکہ والے افسوسناک واقعے نے سر اٹھا لیا۔ پولیس اہلکاروں کے رویے کے خلاف وکلا ٹی ایم او سے ملاقات کیلئے گئے جہاں ٹی ایم او نے پولیس کو بلا لیا۔ اس موقع پر وکلا اور پولیس میں تلخ کلامی ہوئی ۔پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے صدر ڈسکہ بار رانا خالد عباس موقع پر جاں بحق جبکہ پانچ وکیل زخمی ہوگئے ۔ بعد ازاں ایک زخمی وکیل ایڈووکیٹ عرفان چوہان بھی جاں بحق ہو گئے ۔ ہلاکتوں کے بعد جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت‘ لیکن پہل کس نے کی تھی ؟اس بارے سابق وزیرقانون رانا ثنا اللہ کا بیان آیا کہ تھانے میں ہاتھا پائی کے دوران پولیس نے فائرنگ کی۔ ہاتھا پائی کے جواب میں گولیاں چلانے کا اختیار پولیس کو کیسے حاصل ہو جاتا ہے‘یہ رانا صاحب نے نہیں بتایا۔ بعد ازاں حالات خراب ہونے پر اگرچہ متعلقہ ایس ایچ او کو گرفتار کر لیا گیا لیکن یہ واقعہ ایک بار پھر پولیس کے ماتھے پر بہت بڑا داغ چھوڑ جائے گا۔سانحہ ڈسکہ اور ایس ایس پی آپریشنز ایک ہی سکے کے
دو رُخ ہیں۔ اگر ایس ایس پی آپریشنز مسیحی مسلم ٹکرائو اور سانحے کو امن میں تبدیل کر سکتے ہیں تو ایس ایچ او بھی معمولی تلخ کلامی کو احسن انداز سے حل کر سکتا تھا۔ میری جب بھی پولیس کے اعلیٰ افسران سے بات ہوئی وہ یہی گلہ کرتے رہے کہ پولیس کوئی اچھا کام کرے تو کوئی رپورٹ نہیں کرتا یا اسے اچھی کوریج نہیں ملتی لیکن غلطی ہو جائے تو میڈیا طوفان سر پہ اٹھا لیتا ہے۔ اس کے جواب میں ہمیشہ میں یہی کہتا ہوں کہ جس طرح ایک ریوڑ میں چند کالی بھیڑیں ہوتی ہیں‘ اسی طرح پولیس میں صرف چند سفید بھیڑیں ہیں‘ یہ جتنی مرضی بہترین کارکردگی دکھا لیں‘ انہیں اس طرح داد نہیں مل سکتی کیونکہ ہر طرف سے جب پولیس گردی کی خبریں آ رہی ہوں تو بالعموم پولیس کا امیج عوام دشمن کے طور پر ہی ابھرے گا۔ اس میں قصور پولیس سے کہیں زیادہ حکمرانوں کا ہے جو اسے اپنی گھریلو باندی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انتخابات سے لے کر مخالفین کو ناکوں چنے چبوانے تک پولیس کا سہارا لیتے ہیں‘ ان کی ٹرانسفر پوسٹنگ خالصتاً سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے جس سے پولیس کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ خیبرپختونخوا کی طرح پنجاب میں بھی پولیس کو غیرسیاسی کیا جائے‘ تو یہ شاندار نتائج دکھا سکتی ہے اور سانحہ ماڈل ٹائون جیسے واقعات سے بھی بچا جا سکتا ہے کہ جن میں حکمران خود مکھن میں بال کی طرح صاف نکل گئے اور ایس پی سکیورٹی علی سلمان اور چند دیگر پولیس والوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ میری اطلاع کے مطابق علی سلمان بھی قابل افسر تھے لیکن حکمرانوں کے مفاد اور سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اللہ ڈاکٹر حیدر اشرف کو ایسے انجام سے محفوظ فرمائے۔