جب ایان علی کی خبر بریک ہوئی تو میں سمجھ گیا کہ یہ ایشو میڈیا میں کھڑکی توڑ رش لے گا ۔اس خبر کی میڈیا سے زیادہ خوشی حکمرانوں کو ہوئی ہو گی کہ ایسی چٹ پٹی خبریں میڈیا بھی مصالحہ لگا کر چلاتا ہے اور یہ عوام میں بھی ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ نقصان مگر یہ ہوتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے اہم مسائل پیچھے چلے جاتے ہیں اور انہیں وہ توجہ نہیں ملتی جو ملنی چاہیے۔میں صرف تین اہم مسائل کا ذکر کروں گا۔ پہلا طالبعلموں سے متعلق ہے۔ مختلف جماعتوں کے سالانہ لاکھوں طالب علم سرکاری نگرانی میں بورڈ کے امتحانات دیتے ہیں۔ ان سنٹرز میں حکومت پینے کے پانی کا انتظام کرتی ہے نہ بجلی مہیا کرتی ہے‘ لیکن نقل روکنے کے بڑے بڑے دعوے اور ''انتظامات‘‘ کئے جاتے ہیں۔ ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں امتحانات میں نقل اور بوٹی مافیا کے خاتمے میں کافی مدد ملی ہے لیکن اس کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ پنجاب کے تعلیمی بورڈز نے امتحانات میں نقل کرنے پر پکڑے جانے والے طلبہ کے خلاف ایف آئی آر درج کروا کر انہیں پولیس کے حوالے کرنے کا جو قانون بنا رکھاہے وہ انتہائی وحشت ناک‘ ذلت آمیز اور طلبہ کی شخصیت کو نفسیاتی اور سماجی طورپر تباہ و برباد کردینے کے مترادف ہے۔ بورڈز قوانین کے مطابق نقل کرنے والے طلبہ ( اکثر اوقات طلبہ نقل نہیں کر رہے ہوتے)یا آگے پیچھے دیکھنے والے طلبہ کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ جس کے بعدسینٹر سپرنٹنڈنٹ پولیس ایف آئی آر درج کروانے کیلئے ریذیڈنٹ انسپکٹرکو پولیس فورس بلانے کی استدعا کرتا ہے۔جس پر وہ فوری طور پر متعلقہ تھانے فون کرتا ہے اور قانون فوری حرکت میں آجاتا ہے۔ ایک اے ایس آئی کے ہمراہ دو
اسلحہ بردار اہلکار پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں امتحانی سنٹر میں پہنچ جاتے ہیں جیسے کسی خودکش حملہ آور کو پکڑنا ہو۔ طالب علم کے ساتھ انتہائی اذیت ناک سلوک کرتے ہوئے اسے اس کی پتلون کی بیلٹ سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا ہے‘ ہزاروں طالبعلموں اور باہر موجود والدین کے سامنے پولیس کی گاڑی میں پھینکا جاتا ہے اور تھانے لے جاکر بغیر کوئی دیر کئے قانونی کارروائی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ نقل کرنا جرم ہے لیکن یہ کون دیکھے گا کہ یہ لوگ کمرہ امتحان سے پکڑے گئے ہیں یا خودکش جیکٹیں بنانے والے کسی کارخانے سے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے؟ایک طرف تو خادم اعلیٰ نے اعلان کر رکھا ہے کہ سرکاری سکولوں کے طلبہ کو مارنا اور ہاتھ لگانا تک منع ہے اور سزا دینے والے اساتذہ کو لائن حاضر تک کر لیا جاتا ہے ‘دوسری طرف بورڈ کے امتحان دینے ولے طلبہ کے لیے اتنا بھیانک قانون ؟ ذرا سوچیں کہ جن نوجوانوں یا ٹین ایجرز کے ساتھ ایسا ہوتا ہے ان کی نفسیات پر کیا اثر ہوتا ہوگا؟ نہم جماعت کا امتحان دینے والے طالب علم کی عمر کم سے کم چودہ سال ہو تی ہے۔ جب تین مسلح پولیس اہلکار اسے ساتھی طالب علموں کے سامنے سے گرفتار کر کے تھانے لے جاتے ہوں گے تو اس وقت اس پر اور والدین پر کیا بیتتی ہو گی؟ رات مجرموں کے ساتھ پولیس سٹیشن میں گزارنے والے طالب علم کے ذہن پر کیا اثرات ہوتے ہوں گے؟ کیا اس کی شخصیت دب کر نہ رہ جائے گی؟ کیا وہ عادی مجرم نہ بن جائے گا؟ کیا وہ اس ڈپریشن میں کسی کالعدم تنظیم یا جرائم پیشہ گروہ کے ہتھے نہیں چڑھ جائے گا؟پکڑے جانے والے طلبا کے والدین کو ہزاروں روپے لگا کر اس کی عدالت سے ضمانت کرانا پڑتی ہے اور زیادہ تر پکڑے جانے والے طلبہ کی تعداد غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے جبکہ امیر ہر جگہ بچ جاتے ہیں۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور تعلیمی بورڈ اس قانون پر نظر ثانی کریں اور پولیس کارروائی کا خاتمہ کر کے نقل کے معاملات بورڈز کی انکوائری کمیٹی کے سپرد کئے جائیں ۔
دوسرا مسئلہ سیلاب کا ہے۔ جب بھی سیلاب آتا ہے ہم رونا روتے ہیں کہ سارا سال بند کیوں نہیں بنائے‘ ڈیم کیوں نہیں تعمیر کئے لیکن جیسے ہی سیلاب گزرتا ہے‘ سب کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ سیلاب سے زیادہ تباہی غریب کاشتکاروں کی ہوتی ہے جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میںمثال کے طور پر تریموں ہیڈ ورکس ضلع جھنگ کے
مغربی کنارے والے بند کے اندر کی طرف مقیم لوگوں کا مسئلہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو موضع کوٹ شاکر سے لے کر موضع دوسہ قریشی، کوٹ ملدے تک مقیم ہیں۔ہر سال کھرل سپرا تک تریموں ہیڈ ورکس کے اندروالا علاقہ سیلاب کا شکار ہوتا ہے اور لوگوں کا سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ اصل مصیبت اس کے بعد شروع ہوتی ہے کہ جب دیگر علاقوں سے تو پانی اتر جاتا ہے لیکن یہاں کے تیس چالیس موضع جات اور پچیس تیس کلومیٹر تک کا علاقہ عرصہ دراز تک جھیل بنے رہتے ہیں ۔ خود جاکر دیکھ لیں کہ یہ علاقے ابھی تک منگلا ڈیم بنے ہوئے ہیں۔ یہ پانی اس لیے خشک نہیں ہوتا کہ تریموں ہیڈ ورکس سے اخراج کم کر دیا جاتا ہے اور اس کی سزا مندرجہ بالا موضع جات اور علاقہ بھگتتاہے۔ اب مصیبت یہ ہے کہ ان علاقوں میں پانی کھڑا رہنے سے کسان موسم گرماکیلئے چارہ تک کاشت نہیں کر سکتا۔ اگر اس پانی کے اخراج کا بندوبست نہ ہوا تو عین ممکن ہے کہ یہاں کے لوگ موسم گرما کی کوئی فصل بھی کاشت نہ کر سکیں۔ چیف منسٹر پنجاب( خادم اعلیٰ) ، ڈی سی او جھنگ اور تریموں ہیڈ ورکس ضلع جھنگ کے کرتا دھرتا اور میڈیا‘ پاکستان میں جو یہ برما بنا ہوا ہے اس کی طرف بھی توجہ دیں اور آئندہ سیلاب سے قبل جھیل جیسے پانی کے اخراج کا بندوبست کریں تاکہ ان علاقوں کے غریب عوام اپنے بچوں کے لئے رزق کا کوئی سامان اور اسباب پیدا کر سکیں۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی جو تمام موبائل فون اور لینڈ لائن آپریٹرز کو ریگولیٹ کرنے کا ادارہ ہے‘ بعض جگہ تو بڑا مستعد نظر آتا ہے اور کئی جگہ مکمل لاتعلق۔ یہ ادارہ
سرکاری ہے۔ عوام کے پیسے پر چل رہا ہے تو عوام کو جوابدہ بھی ہونا چاہیے لیکن صورتحال اُلٹ ہے۔اس کی ویب سائٹ جتنی دیدہ زیب ہے اتنی ہی پیچیدہ بھی۔ بظاہر آن لائن شکایات کا سیکشن موجود ہے لیکن کسی شکایت کا کوئی جواب بھی ملے تو بات بنے۔ آپ شکایت کریں اور بھول جائیں کہ کوئی آپ سے رابطہ کرے گا۔ گزشتہ ماہ اپنی والدہ کی فوتیدگی کی اطلاع و تدفین وغیرہ کے پیغامات دوستوں کو بھیجنا شروع کئے تو کچھ ہی دیر میں پی ٹی اے کی طرف سے پیغام آیا کہ آپ Spamبھیج رہے ہیں‘ اس لئے آپ کی ایس ایم ایس سروس بلاک کی جا رہی ہے۔ کیسی عجیب ذہنیت‘ اور عجیب افسر اس ادارے میں بھرتی ہیں کہ خدا کے بندو‘ ہر ایس ایم ایس کو Spamقرار دینے کی بجائے کم از کم پیغام کو پڑھ تو لو کہ لکھا کیاہے اور یہ تو بتا دو کہ سروس کھلنی کیسے ہے۔ یہاں ہر دو منٹ بعد نامعلوم جانب سے موبائل پر فضول قسم کے تشہیری پیغامات آتے ہیں لیکن یہ تو پی ٹی اے سے بلاک نہیں ہوتے۔ انٹرنیٹ پر سرچ کے بعد بڑی مشکل سے پتہ چلا کہ پی ٹی اے کو کوئی درخواست دینا پڑتی ہے کہ یہ ایس ایم ایس میں نے غلطی سے بھیجے اور میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا‘کسی نے لکھا ہے کہ پی ٹی اے میں کوئی سفارش بھی تلاش کرو وگرنہ ایس ایم ایس سروس کھلوانا آسان نہیں‘کمال ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی اے جیسے آئی ٹی کے ادارے نے بھی پٹواریوں کی طرح کام کرنا ہے‘ عوام کی شکایت کا جواب تک نہیں دینا اور ہر مسئلے کو نامعلوم اور پراسرار انداز میں لٹکائے رکھنا ہے تو پھر بن گیا نون لیگ کا نیا پاکستان‘ پھر بن گئے ہم ایشین ٹائیگر !