رب نواز شاہدرہ لاہور کا رہائشی ہے۔ یہ تین مرلے کے گھر میں رہتا ہے جو پرانی اینٹوں سے بنا ہے۔بیس برس پرانے اس گھر میں پلستر کا نام و نشان تک نہیں۔ جب بھی بارش آتی ہے چھتیں ٹپکنے لگتی ہیں۔ اہل خانہ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوں۔ رب نواز کی بیوی گردوں کی مریضہ ہے۔ ان کے چار بچے ہیں۔ دو بچے پیدائشی معذور ہیں۔ رب نواز گلی کی نکڑ پر سبزی کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ اس سے اس کی اتنی بچت ہو جاتی ہے کہ وہ اور اس کے اہل خانہ دو وقت کا کھانا کھا سکیں۔ سارے گھر میں ایک پنکھا اور دو بلب ہیں۔ فریج‘ یو پی ایس اور دیگر برقی آلات نام کی کوئی عیاشی موجود نہیں۔ اس کے باوجود رب نواز کے ساتھ وہ ہوا جو اس نے سوچا نہ تھا۔ اس کا بجلی کا بل آ گیا۔ یہ کل ملا کر اٹھاون ہزار روپے تھے۔ وہ کبھی بل کو دیکھتا اور کبھی اپنے چھت پر لگے بوسیدہ پنکھے کو اور کبھی زیرو کے بلب کو۔ وہ بجلی کے محکمے کے چکر لگا لگا کر تھک گیا لیکن کوئی اس پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب نے یہی کہا کہ بجلی استعمال کی ہے تو بل بھی ادا کرنا پڑے گا۔ وہ افسروں کے پائوں بھی پڑا'خدا رسول کے واسطے بھی دئیے لیکن کس نے ایک نہ سنی۔بالآخر ایک روز محکمے والے آئے اور اس کا میٹر کاٹ کر لے گئے۔ جاتے جاتے ایک کاغذ تھما گئے جس پر لکھا تھا کہ فلاں تاریخ تک بل ادا کرو وگرنہ نادہندگی کے جرم میں جیل جانا پڑے گا۔ رب نواز نے دوست‘ رشتہ داروں سے پیسے اُدھار مانگے لیکن کوئی بھی مدد کو تیار نہ ہوا۔ رب نواز کے پاس اب کوئی چارہ نہ تھا کہ جیل جانے کو تیار ہو جائے۔
ایک روز محکمے والے آئے۔ ان کے ساتھ پولیس والے بھی تھے۔ انہوں نے رب نواز کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رب نواز دروازہ کھولنے لگا تھا کہ اس کے پائوں سے اس کا معذور بیٹا چمٹ گیا۔ اسے شور سے پتہ چل گیا تھا کہ باہر پولیس ہے اور وہ اس کے باپ کو پکڑنے آئی ہے۔ باپ جیل چلا گیا تو اس کے معذور بچوں کو کون پالے گا۔ کون ان کی والدہ کا خیال رکھے گا۔ گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔ یہ دیکھ کر دوسرے بہن بھائی بھی دروازے کے آگے کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں پولیس نے دروازے کو ٹھڈے مارنے شروع کر دئیے۔ کسی پولیس والے نے کلہاڑی کا وار کیا تو نحیف سے دروازے کے درمیان بڑا سوراخ ہو گیا۔ پولیس نے ہاتھ ڈال کر کنڈی کھولی اور چند ''جوان‘‘ دندناتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے بچوں کو انہی کی بیساکھیوں کے بٹ مارے‘ انہیں رب نواز سے علیحدہ کیا اور اسے مکے اور گھونسے رسید کرتے ہوئے گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ معذور بچے خود کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی کے پیچھے آئے اور روتے چیختے رہ گئے۔ رب نواز کو حوالات میں ڈالا گیا۔ اگلے دن اس کا چالان عدالت میں پیش ہوا۔ دوسری تیسری پیشی میں عدالت نے اسے آٹھ برس قید کی سزا سنا دی۔
محمد کریم ساندہ کا رہائشی ہے۔ اس نے چند برس قبل درزی کا کام شروع کیا۔ بیوی نے مدد کی۔ اپنا زیور بیچ کر اسے دیا اور یوں اس نے چھوٹی سی دکان بنا لی۔ ایک روز اس کی دکان پر ایک چمکیلی گاڑی آ کر رکی۔ ڈرائیور نے پچھلا دروازہ کھولا۔ زرق برق کپڑوں میں ملبوس ایک خاتون اپنا پرس سنبھالتے ہوئے اتری اور دکان میں داخل ہوئی۔اس نے بتایا عید قریب آ رہی ہے اور کوئی اس کے کپڑے نہیں لے رہا۔ جس پر محمد کریم نے ہامی بھر لی۔ خاتون نے ایک مردانہ اور ایک زنانہ سوٹ کا کپڑا اور ماپ کا سوٹ درزی کو دیا اور چلی گئی۔ کوئی دو گھنٹے بعد وہ خاتون دوبارہ دکان پر آئی اور محمد کریم سے کہا کہ اس نے جو مردانہ سوٹ ماپ کے لئے دیا تھا اس میں سو سو ڈالر کے دس نوٹ تھے۔ محمد کریم‘ جس نے ابھی ان کپڑوں کو کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا‘ جلدی سے تلاش کیا لیکن پیسے برآمد نہ ہوئے۔ خاتون نے شور مچا دیا کہ درزی نے ایک ہزار ڈالر چوری کر لیے ہیں۔ کریم نے ہزار قسمیں کھائیں‘ لیکن خاتون کو یقین نہ آیا۔ اس نے فوراً اپنے خاوند کو فون کیا جو آدھے گھنٹے میں پولیس لے کر آ گیا۔ پولیس نے محمد کریم کو اٹھا کر گاڑی میں پھینکا اور جاتے ہی پرچہ بھی کاٹ دیا۔ چند ہی روز میں اسے چھ برس قید کی سزا سنا دی گئی۔
چھیاسٹھ سالہ نور دین لاہور کے نواحی علاقے کا رہائشی ہے۔ پیٹ پالنے کے لئے چار کنال کے خالی پلاٹ کے سامنے پھلوں کی ریڑھی لگاتا تھا۔ ایک روز ایل ڈی اے والے آئے اور اس کی ریڑھی سڑک پر الٹا دی۔ پھلوں کے چھابے اور ریڑھی ٹرک میں رکھی اور نور دین کو پولیس کی گاڑی میں ڈال دیا۔ نور دین نے اپنا قصور پوچھا تو اسے کہا گیا کہ تم ناجائز قابض ہو اور پھل بیچنے کی آڑ میں چار کنال کے سرکاری پلاٹ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس نے لاکھ صفائیاں دیںکہ میں تو اپنی ریڑھی پر پھل بیچتا ہوں‘ اس پلاٹ سے میرا کیا تعلق۔ نور دین جتنی صفائیاں دیتا اتنے ہی اسے تھپڑ اور گھونسے پڑتے۔ اس کا چالان عدالت میں پہنچا تو جج صاحب نے یہاں بھی انصاف کے تقاضوں کو بروقت پورا کرتے ہوئے اسے سرکاری زمین اور کار سرکار میں مداخلت کے جرم میں چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔
گزشتہ روز نیب نے سپریم کورٹ میں ایک فہرست جمع کرائی۔ اس فہرست میں وزیر اعظم میاں نواز شریف سمیت چار سابق وزرائے اعظم ‘وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف،وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار، سابق صدر آصف علی زرداری ، حسین حقانی ،سابق وزیر خزانہ شوکت ترین ، سمیت دیگر افراد کے نام شامل ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال،مالیاتی سکینڈل اور قیمتی اراضی کی خریدو فروخت میں گھپلوں سے متعلق کھربوں روپے مالیت کے 150 میگا کرپشن سکینڈلز میں ملوث ہونے کے حوالے سے تفتیش برسوں سے جا ری ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے وزیراعظم‘ یہ وزیر اور یہ سیاستدان بھی اُسی ملک میں رہتے ہیں جس میں رب نواز‘ محمد کریم اور نور دین رہتے ہیں ‘ یہ سب بھی انصاف کے جھنڈے اسی طرح اٹھائے ہوئے ہیں جس طرح ایک عام آدمی انصاف کا حصول چاہتا ہے۔ یہ سب بھی اسی قائد کو اپنا قائد مانتے ہیں جسے یہ غریب لوگ قائد اعظم کہتے ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ رب نواز بجلی چوری نہ بھی کرے تو اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے اور یہ کروڑوں اربوں کے ڈاکے مارنے کے بعد بھی پاک باز اور شریف کہلاتے رہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ محمد کریم پیسے چوری نہ کرے تب بھی اسے چھ سال جیل میں سڑنا پڑے اور نور دین پھلوں کی ریڑھی سڑک پر سے گزارے تو اسے قبضہ مافیا کہہ کر چودہ سال کے لئے جیل میں ڈال دیا جائے۔ایسا کیوں ہے کہ ان تینوں کو سزا دینے کے لئے تو پولیس‘ نیب اور عدالتیں پھرتیاں دکھائیں‘ ان کا مقدمہ تو دنوں میں مکمل ہو جائے اور ملک کا خون چوسنے والے ان چند سو لوگوں کے مقدمات کی تفتیش کئی کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی مکمل نہ ہو۔
سنا تھا کہ کفر کے ساتھ معاشرے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔ شاید یہ معاشرہ بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔