گزشتہ دنوں صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں عمران خان جہاں‘ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی کچھ کمزوریاں بیان کر رہے تھے وہاں اس کی تعریف بھی کر رہے تھے تو مجھے ان کی سادگی پر حیرت ہو رہی تھی۔ گزشتہ برس دھرنے کے دوران خود انہوں نے بھی ایک نہیں بارہا کہا کہ جیسے ہی دھرنا ختم ہوا‘ حکومت سے دبائو ہٹ جائے گا ‘یہ اپنی باتوں سے مکر جائے گی اور یہ ہر ادارے سے اپنی مرضی کے فیصلے کروا لے گی۔ درحقیقت وہ جس قسم کی جنگ لڑ رہے ہیں اور جن کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ اداروں یاکمیشنوں سے نہیں بلکہ سڑکوں پر ہی جیتی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حکمران اور ان کی حکومت چند ماہ کے دھرنے کی وجہ سے کام پر نہ لگ جاتی۔ یہ دھرنے کا دبائو ہی تھا کہ نواز شریف صاحب جو اسمبلی میں قدم رنجا فرمانا پسند نہیں کرتے تھے‘ باقاعدگی سے اجلاسوں میں شریک ہونے لگے۔ جس دھرنے کی چوٹ مخالفین ابھی تک اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہیں‘ اسی ایک دھرنے نے ان تمام مخالف جماعتوں کو ایک نکتے پر اکٹھا کر دیا تھا۔ وہ نکتہ کیا تھا؟ کیا خدانخواستہ عمران خان ملک کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتے تھے یا پھر ان کا ارادہ اسمبلیوں کو تڑوا کر کسی تیسری قوت کے ذریعے اقتدار میں آنا تھا؟ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ وہ ایسا چاہتے ہوتے تو انہیں ایک سو چھبیس دن اپنے صبر کو آزمانے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ پہلے دو چار دنوں میں ہی یہ مقصد حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن پھر کیا ہوتا؟ کیا کوئی ان کے ساتھ کھڑا ہوتا؟ کیا ہم ان کے اس اقدام کو سراہتے؟ کبھی نہیں۔ نہ عمران خان کا یہ ارادہ تھا کہ وہ کسی چور راستے سے اقتدار میں آئیں نہ ہی انہیں کسی نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔ آپ اسے عمران کی سادہ لوحی تو کہہ سکتے ہیں لیکن ان کے ارادے کم از کم ایسے نہ تھے جیسے آج کل ان کے مخالفین میڈیا میں پیش کر رہے ہیں۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ اس ملک میں وہی کامیاب ہے جس کا ڈنڈا چلتا ہے‘ جس کے پاس طاقت ہے اور جس کے پاس طاقت نہیںہے‘ وہ اگر حق پر بھی ہے تو ناکام رہے گا۔ اگر اسے کامیاب ہونا ہے تو اسے احتجاج کا راستہ ہی اپنانا پڑتا ہے۔ آپ اپنے اردگرد دیکھ لیں آپ کو آئے روز ایسے کئی واقعات دکھائی دیں گے کہ لوگوں کو مظلوم ہوتے ہوئے بھی انصاف نہ ملا تو انہوں نے اسے بزور بازو حاصل کر لیا۔ کیا ہم مظفر گڑھ کی اس طالبہ کو بھول جائیں جس کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کو پولیس نے چھوڑ دیا اور اُلٹا اس بچی کو تھانے میں ذلیل کرتے رہے۔ اس وقت کہاں تھا سسٹم‘ کہاں تھی جمہوریت اور کہاں تھا عدل؟ جب اس بچی نے تھانے کے سامنے خود کو آگ لگائی اور جب وہ جل کر راکھ ہو گئی تب جا کر اعلیٰ پولیس افسران اور وزیراعلیٰ پنجاب کو نوٹس لینے کا خیال آیا اور سب تصویریں کھچوانے اور مظلومیت کا مذاق اڑانے بچی کے گھر پہنچ گئے لیکن اس کے باوجود بھی ہوا کیا۔ آج بھی اس بچی کے مجرم آزاد ہیں اور وہ بچی جلے جسم کے ساتھ منوں مٹی تلے انصاف کی منتظر ہے۔ آپ خود بتائیں کیا پولیس ایک ادارہ نہیں۔ کیا یہ عوام کے پیسوں سے نہیں چلتی۔ کیا حکمران اسے ٹھیک نہیں کر سکتے؟ کیا پولیس کو چلانے کی ذمہ داری ملا عمر یا نریندر مودی کی ہے ۔ یہ تو
ایک واقعہ تھا‘ ایسے ہزاروں واقعات روزانہ ہو رہے ہیں لیکن کس کو فکر ہے۔ آپ لاہور کی مال روڈ پر آئیں ۔ آج پنجاب اسمبلی کا چوک احتجاج چوک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کون سا ادارہ اور کون سا مظلوم ہے جس نے جب تک یہاں احتجاج نہیں کیا اس کی آواز کسی نے سنی ہو؟ اب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی کہ جیسے ہی کوئی احتجاجی جلوس یا دھرنا پنجاب اسمبلی چوک تک پہنچتا ہے اور اس کی خبریں یا ٹکر ٹی وی پر چلتے ہیں تو مختلف محکموں اور اعلیٰ ترین شخصیات کو اطلاع دی جاتی ہے کہ فلاں محکمہ یا فلاں لوگ دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تو یہ لوگ پولیس کی لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے بعد بھی یہاں سے نہیں ہلتے تو پھر ان سے مذاکرات کا سوچیں گے۔ فی الحال انہیں بیٹھا رہنے دو۔ اس دوران اگر احتجاجیوں کا کوئی بندہ احتجاج کے دوران مرجاتا ہے تو پھر جا کر حکمرانوں کو جاگ آتی ہے ‘اس سے پہلے کسی قیمت پر وہ مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ایسے ماحول میں عمران خان کو یہ طعنے دینا کہ اس کا دھرنا بے مقصد تھا اور اس نے معیشت اور ملک کو نقصان پہنچایا‘ کہاں کی دانشمندی ہے۔ حکمران شکر کریں کہ یہ دھرنا ایک ایسے مسئلے پر تھا جس کی عام آدمی کو شد بد نہ تھی۔ جس دن عمران خان نے ایشو بیسڈ دھرنوں کا اعلان کر دیا اور جس کی میری معلومات کے مطابق تیاری ہورہی ہے‘ اس روز حکمرانوں کی سٹی گم ہو جائے گی۔ اب تک کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ ایشو بیسڈ دھرنے اور احتجاج سو فیصد کامیاب رہے ہیں۔ انہیں مکمل عوامی تائید بھی حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ عوام کے بنیادی حقوق سے متعلق ہوتے ہیں۔ آپ لوڈشیڈنگ کو ہی لے لیجئے۔ اس مسئلے سے سوائے اشرافیہ کے‘ہر بندہ تنگ ہے۔ خود ہی سوچیں کہ جب غریب دکاندارلوڈشیڈنگ کی وجہ سے فاقوں پر مجبور ہوں گے اور جب دو دو سو یونٹ کا بل دس دس ہزار آ رہا ہو گا تب یہ لوگ کیا صرف اس لئے گھر بیٹھے رہیں گے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بجلی کے فلاں منصوبے کا‘ ربن کاٹ دیا ہے اور عابد شیر علی نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی کوئی تاریخ دے دی ہے یا اپنے غصے کو احتجاج کا حصہ بناتے ہوئے ایسے دھرنے میں شریک ہوں گے جہاں ان کے حق میں آواز اٹھائی جا رہی ہو گی؟ میں نے صرف لوڈشیڈنگ کی بات ہے۔ صحت ‘تعلیم‘صاف پانی‘روزگار‘پولیس کلچر‘انصاف‘ قبضہ مافیا‘مہنگائی جیسے درجنوں مسائل ایسے ہیں جنہیں جھیلتے جھیلتے عوام کی بس ہو چکی ہے اور وہ اپنے اس لاوے کو نکالنے کے لئے کوئی راستہ چاہتے ہیں۔یہ راستہ اگر عمران خان دکھائے گا تو لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے‘ کوئی اور دکھائے گا تو لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو جائیں گے۔ اب سیاسی جماعت وہی زندہ بچے گی جو عوامی ایشوز کو لے کر چلے گی۔ جو ایسا نہیں کرے گا اس کا حال پیپلزپارٹی جیسا ہو جائے گا۔ اگلی باری مسلم لیگ نون کی ہے جو ابھی تک اس طرح کی خبروں پر گزارا کر رہی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے وین میں سفر کیا‘سیلاب زدگان حیران رہ گئے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ اگر کسی وزیراعلیٰ کے موٹرسائیکل یا وین پر سفر کرنے سے سیلاب ختم اور سیلاب متاثرین کی پریشانیاں حل ہوسکتی ہوتیں تو بھارت چناب پر سات ڈیم نہ بناتا‘ نریندر مودی کو کسی کھٹارا موٹر سائیکل پر بٹھا دیا جاتا اور موٹر سائیکل بمبئی سے ہریانہ تک سارا دن سفر کرتی رہتی اور اس کے میڈیا مینیجر میڈیا کو یہ خبریں بھجواتے رہتے کہ نریندر مودی نے آج موٹرسائیکل پر اتنے کلومیٹر سفر کیا جس کے نتیجے میں سیلاب کا پانی قابو میں آ گیا اور اتنے بند خودبخود تعمیر ہو گئے ۔
تحریک انصاف کی حالیہ کریش لینڈنگ کے باوجود حکمران جماعت کے لئے خطرہ نہیں ٹلا۔ کیوں؟ کیونکہ اسے ڈر ہے کہ اگر عمران خان بھی بھٹو کی طرح عوامی ایشوز لے کر میدان میں آ گیا‘ اگر عوامی مسائل پر دھرنے شروع ہو گئے اور ان دھرنوں میں عام لوگ بھی شامل ہو گئے تو یہ ایشو بیسڈ دھرنے حکمرانوں کے لئے بلاسٹک میزائل ثابت ہوں گے اور یہ دن سارے چوروں اور لٹیروں کا آخری دن ہو گا۔ فی الحال عمران خان کی مقبولیت کا راز اس کی کرشماتی شخصیت اور کرپشن سے پاک ہونے میں ہے۔ جس دن اُسے پاکستانی سٹائل میں سیاست کرنا آ گئی‘ اس روز نامی گرامی پہلوانوں کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔