گزشتہ روز گھوٹکی میں وزیراعظم کے جانے کے بعد سیلاب متاثرین کے لیے لگایا کیمپ لپیٹ دیا گیا۔ یہ خبر پڑھ کر شاید آپ بھی یہی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب تو اب معمول بن چکا ۔اس ملک کی بدقسمتی بھی یہی ہے۔ ہم نے بہت سی برائیوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیا ہے۔ ہم جب سے پیدا ہوئے ہیں انہی تماشوں کو دیکھ رہے ہیں۔ اسی لئے جب ہم ایسی خبریں پڑھتے ہیں تو ان کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے چیخنے چلانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ہماری ذمہ داری کسی کو راہ راست پر لانے کی نہیں بلکہ سیدھا راستہ دکھانے کی ہے۔ اگر ہم احتجاج کرنا اور اکٹھے ہو کر برائی کو برائی کہنا ہی چھوڑ دیں گے تو برائی کو تو کھل کھیلنے کیلئے میدان خالی مل جائے گا۔ یہ جو میڈیا تھوڑا بہت حکمرانوں کی خامیاں دکھاتا ہے ‘اگر یہ ایسا نہ کرے تو حکمران اور بیوروکریسی اس ملک کا حال وہ کر دے جو بھیڑیا میمنے کا کرتا ہے۔ آپ نے نیشنل جیوگرافکس پر چار پانچ شیروںاور ہرن والی دستاویزی فلم دیکھی ہو گی۔جب ہرن ایک غول کی صورت میں اکٹھے ہوتے ہیں تو شیروں کوان پر جھپٹنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ جیسے ہی کوئی ہرن اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہوتا ہے‘شیر اسے پکڑنے کے لئے حملہ آور ہوجاتے ہیں اور اسے شکار کر لیتے ہیں ۔ ہماری بدنصیبی بھی یہی ہے ۔ ہم آپس میں ایک نہیں ہیں‘اسی لئے ہمارے ہی ووٹوں
سے منتخب شیر ہمارا بآسانی شکار کر رہے ہیں اور ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید یہی ہماری قسمت اور یہی ہمارا نصیب ہے اور ہم کچھ بھی کر لیں‘کچھ بھی بدلنے والا نہیں۔ یہ سوچ خود کو شیر کے آگے پھینکنے کے مترادف ہے۔بچنا تو ہم نے خود ہے۔ شیر کا تو کام ہی شکار کرنا ہے۔ کبھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے‘ کبھی قومی اداروں کی نجکاری کے ذریعے اور کبھی غریب طبقے پر بے تحاشا ٹیکس لگا کر ۔
ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ہر سال سیلاب آتا ہے۔ جعلی کیمپ بھی ہر سال لگتے ہیں۔ ان کیمپوں کا حکمرانوں کو پتہ بھی ہوتا ہے۔ شاید انہیں یہ بھی علم ہے کہ ہم بھی ان کے ان دوروں کے عادی ہو چکے ہیں‘ اس لئے وہ بھی اس سے زیادہ کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ایسے دوروں کا انتظام بالکل اسی طرح کیا جاتا ہے جیسے کسی فلم یا ڈرامے کی آئوٹ ڈور شوٹنگ کا اہتمام کیا جائے۔ ٹینٹ اور دریاں منگوائی جاتی ہیں۔ مقامی سرکاری عملہ اور اساتذہ وغیرہ کی جبری ڈیوٹی لگتی ہے۔ مٹی میں لتھڑے فاقہ زدہ گندے مندے بچے اکٹھے کیے جاتے ہیںتاکہ ایک طرف تو کیمروں کے سامنے غربت اور افلاس سے بھرا طبقہ نظر آئے اور دوسری طرف وہ شاہی حکمران جو ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلیاں دے رہے ہوں تاکہ ہمدردی کا ایک ایسا
بھرپور تاثر اُبھرے کہ جس سے متاثر ہو کر عوام عش عش کر اٹھیں اور اپنے دُکھ درد تک بھول جائیں۔ چند سیلاب متاثرین کو طے شدہ جوابات یاد کرائے جاتے ہیں۔ آئوٹ ڈور شوٹنگ میں حصہ لینے والے غریب غربا کو انعام کا لالچ بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے لئے انہیں ایک طرف پڑی کھانے کی دیگیں دکھائی جاتی ہیں کہ اچھے بچوں کی طرح جواب دو گے تو پیٹ بھرکر کھانا ملے گا۔ دوسری صورت میں انجام پولیس کی چھترول بتایا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی نیندیں اڑانے والے عمران خان کے دھرنوں کے بعد تو خاص احتیاط کی جانے لگی ہے۔ اب تومجمع کو صاف بتایا جاتا ہے کہ کسی نے سکرپٹ سے ہٹ کر کوئی جائز مطالبہ بھی کیا یا گونواز شریف گو کا نعرہ لگایا تو اس کا کیا حشر ہو سکتا ہے۔ اس مفلوک الحال مخلوق کی کیا مجال کہ عمال کے سامنے سینہ تانے۔ سیٹ کو مزید قدرتی رنگ دینے کے لئے چند لوگوں کو ڈاکٹر اور عملہ بنا کر میز کرسی دے کر بٹھا دیا جاتا ہے۔راشن کا سامان کچھ اس ترتیب کے ساتھ رکھا جاتا ہے تاکہ اس کی تصاویر میڈیا میں نمایاں نظر آئیں۔ دو تین جعلی مریض بھی ''اصلی‘‘ ڈاکٹر کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک سٹریچر پر لیٹا ہوتا ہے۔ کچھ سرکاری عمال پہلے سے تیار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جھڑکیاں پڑنے والی ہیں۔ ایک آدھ کو معطل بھی کیا جانا ہے۔انہیں بھی ہر سال چند منٹ کے لئے معطل ہونے کا مزا آتا ہے۔ جیسے ہی حکمران ہیلی کاپٹر سے اُتر کر متاثرین کی طرف قدم بڑھاتے ہیں‘ متاثرین کی جان میں جان آتی ہے۔ کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ آئے ہیں تو چلے بھی جائیں گے اور جائیں گے تو انہیں کھانابھی مل جائے گا ۔ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ جب مجمع کو یہ بتاتے ہیں کہ ان کا یہاں آنا متاثرین کے لئے کس قدر خیر و برکت کا باعث ہے اور یہ کہ اگر وہ یہاں نہ آتے تو سیلاب متاثرین کئی عشروں تک اپنے ناخن نوچتے اور قسمت کو کوستے رہتے۔ پھر ضروری فوٹو سیشن کے بعد جانے کا وقت آتا ہے۔ یوں شوٹنگ کا وقت ختم ہونے کو آتا ہے۔ اس دوران اگر متاثرینِ حکومت کو مزید خوشگوار حیرت میں مبتلا کرنا مقصود ہو تو ایک عدد موٹرسائیکل پر چند فرلانگ سفر کیا جاتا ہے۔ اس برس موٹرسائیکل کی جگہ وین نے لے لی ہے۔ حکمران اس میں علاقے کا ایک چکر لگاتے ہیں تو متاثرین سیلاب کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے سارے غم‘ دکھ اور مصیبتیں بھول جاتے ہیں۔ وہ اتنی بڑی سرکاری شخصیت کو جب کسی موٹرسائیکل یا ویگن میںبیٹھا دیکھتے ہیں تو ان کے دل سے سارے مطالبات ہوا ہو جاتے ہیں۔ انہیں سیلاب کا گندا اور گہرا پانی کسی فائیو سٹار ہوٹل کے سوئمنگ پول سے کم محسوس نہیں ہوتا۔ جس کا گھر‘ مویشی حتیٰ کہ سارا مال اسباب سیلاب میں بہہ چکا ہو وہ اپنی خوش نصیبی پر ناز کرنے لگتا ہے کہ خدا نے اس کو اتنا سنہری موقع دکھایا کہ اس نے کسی حکمران کو موٹرسائیکل یا وین میں سفر کرتے دیکھا۔ اسے سیلاب سے ڈوبا اپنا گائوں کوئی جنت نظیر وادی معلوم ہوتا ہے۔ ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ ٹینٹ اور قالین سمیٹ دئیے جاتے ہیں۔ ''ڈاکٹر‘‘ اپنا گائون اُتار کر سرکاری عمال کے حوالے کر دیتے ہیں۔درد سے کراہتا مریض اٹھتا ہے اور چوکڑیاں بھرتا ہوا نکل جاتا ہے۔ جن دیگوں کے نیچے آگ جل رہی ہوتی ہے اور اندر خالی پانی اُبل رہا ہوتا ہے‘انہیں فوری طور پر لوڈر گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ متاثرین خالی جھولیاں لئے دیگوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ میڈیا یہاں بھی باز نہیں آتا، کیمروں کے ذریعے شوٹنگ کے یہ مناظر بھی لائیو دکھا دیتا ہے۔ ہم جیسے لوگ اسے دیکھتے ہیں اور قہقہہ مار کر فیس بک دیکھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ چھوڑو یار‘ یہ کون سی نئی بات ہے۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔