بڈھ بیر پشاور میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو میں سوچنے لگا کہ اٹھائیس سالہ کیپٹن اسفند یار اور دیگر جری جوانوں نے موت کی آنکھوں میں کس طرح آنکھیں ڈالی ہوں گی۔ موت سے دوبدو ہوتے وقت ان جوانوں کے کیا احساسات اور کیا جذبات ہوں گے۔شہید ہونے والے زیادہ تر ٹیکنیشن اور کم عمر جوان تھے۔ کیپٹن اسفند یار اور دیگر جوانوں کی شہادت سے مجھے حسینی والا کا معرکہ یاد آ گیا ۔ کم عمر جوانوں کی ایسی ہی ایک پلٹن اپریل 1971ء میں اٹھائی گئی تھی۔ یہ سب سے کم عمر یونٹ تھی لیکن ان کے شعلہ بار کمانڈنگ آفیسر نے جوانوں کے اندر جذبہ جہاد کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔ ان کی عسکری اور اخلاقی تربیت اس نہج پر کی گئی کہ اعلیٰ کمانڈر یہ سوچنے پرمجبور ہو گئے کہ کسی بھی ناخوشگوار وقت پر یہ پلٹن پرانی یونٹوں کی نسبت کہیں عمدہ اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ اسی بناء پر اس نے حسینی والا محور میں مشکل ترین فریضے سے عہدہ برآ ہونے کا چیلنج قبول کیا۔
محاذ جنگ پر یہ جوان کس جذبے سے آشنا ہوتے ہیں‘ یہ جاننے کے لئے ہمیں پینتیس برس پیچھے جانا ہو گا۔
جیسے ہی دشمن کے حملے کی خبر آتی ہے۔ میجر حنیف ملک اپنی کمپنی میں پہنچتا ہے۔ صوبیدار نبی بخش ورکنگ کے لئے چند جوان اکٹھے کر رہا ہے۔ میجر نئے احکامات سناتا ہے تو جوان خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں۔ وہ مہینوں سے اس ساعت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب ان کے تمام بندھن ٹوٹ گئے ہیں اور فرط مسرت سے تقریباً ناچنے لگتے ہیں۔ صوبیدار نبی بخش اپنے پلاٹون کو جمع کرتا ہے اور انہیں صورتحال کی نزاکت کا احساس دلاتا ہے۔ ''ایک طرف تمہارا خون ہے اور دوسری طرف بہو بیٹیوں کی عزت کا سوال ہے۔ اگر خون کی قربانی دو گے تو عزت محفوظ رہے گی۔ خون بچائو گے تو عزتوں کا سودا کرنا پڑے گا۔‘‘ جوان چلا کر جواب دیتے ہیں: ''ہم اپنا خون پیش کریں گے اور ہم اپنے گلے کٹوائیں گے لیکن عزتوں کا سودا نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
ادھر میجر حنیف ملک اپنے والد کا خط پڑھ رہا ہے جو آج ہی کی ڈاک میں اسے موصول ہوا ہے۔ اس سے پہلے میجر ملک ایک خط میں اپنی تین سالہ بچی صاعقہ سے وعدہ کر چکا ہے کہ وہ اسے دہلی اور آگرہ کی سیر کرائے گا ورنہ گھر واپس نہیں آئے گا۔
ایک اور مقام پر صوبیدار صفدر اپنے پلاٹون کے سامنے جہاد اور ایثار کے موضوع پر تقریر کر رہا ہے: ''موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں‘ ہزار گولیاں بھی جسم سے پار ہو جائیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں سوائے اس کے کہ گولی کسی نازک جگہ پر لگے، لیکن شہادت کی موت حیات جاودانی کا آغاز ہے اور یہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔‘‘
مقام اجتماع پر مختلف کمپنیاں پہنچ رہی ہیں۔ کھانے کا وقت بھی ہو چکا ہے لیکن کھانے کا ہوش کسے ہے، سبھی جذبہ جہاد سے سرشار ہیں بھوک پیاس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنی ماں بہنوں کا بھی کسی کو خیال نہیں، صرف ایک دھن ہے دشمن پر قہر خدا بن کر ٹوٹ پڑیں اور اسے اس کی شرارتوں کا مزا چکھائیں۔ صرف اسی صورت میں ان کی اپنی ہی نہیں کروڑوں مائوں، بہنوں کی عفت و عصمت محفوظ رہ سکتی ہے۔
کرنل حبیب کی جیپ نمودار ہوتی ہے۔ جوان زور شور سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں۔ کرنل اونچی آواز میں مخاطب ہوتا ہے۔''میرے بچو، میرے پاس کوئی خاص حکم نہیں، اس لیے حکم نہیں کہ میرے پاس وقت نہیں، کمپنی کمانڈروں نے تمہیں سب کچھ بتا دیا ہوگا، یادرکھو جس مقدس مقصد کے لئے ملک و قوم نے ہمیں تیار کیا ہے اسے انجام دینے کا وقت آ گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم یہ کام کر سکتے ہو، صرف چالیس منٹ باقی ہیں اور تمہیں حملے کی جگہ (جے سی پی کا علاقہ) میں پہنچنے کے لئے دو میل کا فیصلہ بھی طے کرنا ہے۔ آگے بڑھو اور دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دو۔ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔ جلد کو، آگے بڑھو، دوڑو، شاباش، خدا حافظ‘‘۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
جمعہ کی صبح پشاور فضائیہ کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے سے ایک تو یہ واضح ہو گیا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور دوسرا یہ کہ اس وقت جو جنگ لڑی جا رہی ہے وہ پینسٹھ اور اکہتر کے مقابلے میں کئی
گنا بڑی اور پیچیدہ ہے۔ پینسٹھ میں ہمارے تیرہ سو فوجی شہید ہوئے تھے لیکن موجودہ جنگ میں ہمارے پانچ ہزار سے زائد افسر اور جوان شہید ہو چکے ہیں۔ صرف ضرب عضب آپریشن کو دیکھا جائے جو گزشتہ برس جولائی میں شروع ہوا تو جنگ کے اس مرحلے میں بھی چار سو کے قریب فوجی افسران نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ جس طرح ہم پینسٹھ کی جنگ کے شہدا کی یاد مناتے ہیں‘ جس طرح ہم نشان حیدر پانے والے شہیدوں کو سلام پیش کر رہے ہیں اسی طرح ہمیں آج اپنی فوج کوخراج تحسین پیش کرنا ہو گا۔ صرف فوج کو ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر فیاض بخاری جیسے ان والدین کو بھی جو اپنے بچوں کو پال پوس کر جوان کرتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے محاذ جنگ میں بھیج دیتے ہیں۔انہیں علم ہوتا ہے وہ غازی بن کر لوٹیں گے یا شہادت کا رُتبہ پائیں گے‘ دونوں صورتوں میں یہ خدا کا شکر بجا لاتے ہیں۔ ہم جیسے عام لوگ جو اپنے بچوں کے پائوں میں کانٹا چبھتا دیکھ کر بھی پریشان ہو جاتے ہیں‘ کیا ایسے ماں باپ کی ہمت اورحوصلے کا اندازہ کر سکتے ہیں جن کے بیٹے پشاور بڈھ بیر حملے یا اس سے قبل شہید ہوئے۔ ہم جنہیں محب وطن کہتے ہیں ‘ دراصل یہی والدین ہیں جو اپنی قیمتی ترین متاع اپنے وطن کی مٹی پر ہنسی خوشی نچھاور کر دیتے ہیں ۔ دوسری طرف وہ سیاستدان ہیں جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ فوج ہی کی وجہ سے یہ ملک محفوظ ہے‘ اسے نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ چاہتے ہیں کہ فوج دہشت گردی کی جنگ میں اُلجھی رہے اور یہ اپنا کام کرتے رہیں۔ کبھی نندی پور تو کبھی ایل این جی منصوبوں کے ذریعے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرتے رہیں اور جب عاصم حسین جیسے بندوں کو دہشت گردوں کو سہولت دینے کے جرم میں پکڑا جائے تو اس کے اپوزیشن لیڈر اپنی جماعت کے چیئرمین کو بچانے کے لئے اعلان جنگ کر دیتے ہیں۔ کاش ایسا اعلان جنگ وہ دہشت گردوں کے خلاف بھی کرتے۔ چند روز قبل ایک ٹاک شو کا موضوع نندی پور سکینڈل تھا‘ جب بات پنجاب میں مسلم لیگ ن کے خلاف آپریشن کی آئی تو رانا ثنا اللہ گرم ہو گئے ۔ احتساب کا سن کر نجانے ن لیگ کے لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی پروگرام میں کسی نے کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے‘ چاہے کوئی صحافی ہو یا سیاستدان تو رانا صاحب جھٹ سے بولے کہ اس طرح تو احتساب میں کوئی بھی نہیں بچے گا۔ پھر تو سب کا ہو گا۔ رانا صاحب کو شاید یاد نہیں کہ چند ماہ قبل فوج کے چند افسروں کا احتساب علی الاعلان کیا گیا۔ رہی دیگر اداروں کی بات‘ تو ان کا احتساب کرنے سے کس نے روکا ہے۔لیکن کیا ایسی حجتیں پیش کرنے سے نون لیگ کے گناہ دھل جائیں گے۔
بہتر ہوتا کہ ہمارے سیاستدان کیپٹن اسفند یار کے والد ڈاکٹر فیاض بخاری اور ان جیسے دیگر شہیدوں کے والدین سے سبق سیکھتے جو اس وطن سے کچھ لے نہیں رہے بلکہ اپنی قیمتی ترین متاع دھرتی پر قربان کر رہے ہیں۔ یہ وطن ایسے ہی جاں نثاروں کی وجہ سے قائم اور آباد ہے جو موت سے لڑتے ہوئے بھی خوف اور ڈر کو قریب نہیں آنے دیتے۔ دوسری طرف وہ سیاستدان ہیں جنہیں ملک کو لُوٹتے اور نوچنے ہوئے بھی خوف اور حیا نہیں آتی۔ کاش یہ سیاستدان ان جوانوں کی عظمت کو پہچان سکیں جو میدان جنگ میں چیخ چیخ کر کہتے ہیں: ''ہم اپنا خون پیش کریں گے ‘ہم اپنے گلے کٹوائیں گے لیکن عزتوں کا سودا نہیں ہونے دیں گے۔‘‘