کیسی عجیب بات ہے کہ عمران خان پر جتنے الزامات لگائے جاتے ہیں اتنا ہی ان کی مقبولیت اور کریڈیبیلٹی میں اضافہ ہوتا ہے۔دھرنے کو ناکام بنانے کی خاطر بھی مخالفین نے اُن پر ہر طرح کے الزامات لگائے‘ ہر طرح سے ان کی کردار کشی کر لی لیکن یہ دیکھ کر سٹپٹا اُٹھے کہ نہ صرف دھرنا کامیاب ہو گیا بلکہ تحریک انصاف کا گراف بھی آسمان کو چھونے لگا۔
این اے 122کا مقابلہ کل ہو گا لیکن نون لیگ پہلے ہی شکست خوردہ دکھائی دیتی ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ عمران خان نے ضمنی انتخاب میں ایاز صادق کے مقابلے میں علیم خان کو کھڑا کیا ۔ مسلم لیگ نون 1993ء سے لے کر 2013ء تک مسلسل پانچ مرتبہ یہ سیٹ جیت چکی ہے۔ اس کے علاوہ اب تک پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ نون جیتتی آ رہی ہے ۔ اس لحاظ سے تو یہ سیٹ نون لیگ اور ایاز صادق کے لئے حلوہ ہونی چاہیے تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ حلقے سے مسلسل پانچ مرتبہ جیتنے اور انتظامی مشینری اپنے ہاتھ میں ہونے کے باوجود نون لیگ بوکھلائی دکھائی دیتی ہے‘اس کے درجنوں وزراء اپنے وفاقی محکمے چھوڑ کر لاہور میں ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں‘ روزانہ حلقے کے ڈھائی درجن سے زائد مقامات کے دورے کرتے ہیں‘ کارنر میٹنگز اٹینڈ کرتے ہیں اور ڈھکے چھپے انداز میں نئے تعمیری منصوبوں اور نئی رہائشی کالونیوں کے لالی پاپ بھی دیتے ہیں۔ایسے ہی ایک جلسے سے خطاب میں وزیرریلوے نے ہزاروں لوگوں کے لئے رہائشی منصوبوں کا
اعلان کیا۔ یہ کھلے عام الیکشن قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف تھا۔ ریٹرننگ آفیسر نے تین وزرا کی انتخابی مہم میں شمولیت پر نون لیگ کو نوٹس بھی بھجوایا لیکن یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر نون لیگ نے لاہور کو واقعی پیرس بنا دیا ہے‘ اگر فیروز پور روڈ سے ملتان روڈ تک گندے نالے کا منصوبہ پیسے بنانے کیلئے نہیں بلکہ عوام کو بدبو سے بچانے کے لئے تھا‘ اگر این اے 122کے عوام چھٹی مرتبہ بھی سردار ایاز کو منتخب کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں تو پھر سارے وزرا‘ وفاقی و صوبائی انتظامی مشینری اور توانائیاں ایک حلقے میں کیوں کر لگائی جا رہی ہیں۔ اس خوف کی دوسری وجہ عمران خان کی کرشماتی شخصیت ہے‘ جب سے عمران خان نے اس حلقہ کی انتخابی مہم خود چلانے کا اعلان کیا ہے‘ حکمران جماعت کی تو گویا نیند ہی اُڑ گئی ہے۔پہلے عمران خان کی ایک سو چھبیس دن دھرنے میں موجودگی نے مخالفین کے طوطے اڑائے رکھے ‘ اب جسے حکمران اپنا قلعہ کہتے ہیں‘ وہاں عمران خان کی آمد نے انہیں نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ان کے سحر کو توڑنے کا مخالفین کو یہی طریقہ نظر آیا کہ ان پر کرپشن کے ہوشربا الزامات لگا دئیے جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پر مغرب سے فنڈنگ لینے کا الزام وہ پارٹی لگا رہی ہے جس کے حکمران خاندان کا ننانوے فیصد کاروبار ملک سے باہر ہے۔جو مشکل
پڑنے پر دوست ممالک سے مدد طلب کرتے ہیں اور اس کے بعد ان سے کیا گیا جلاوطنی کا وعدہ توڑ کر لندن جا بیٹھتے ہیں۔ کبھی معاہدہ جھٹلاتے ہیں تو کبھی تین سال تو کبھی پانچ سال معاہدے کی بات کرتے ہیں اور جب شہزادہ المقرن پاکستان آ کر معاہدے میڈیا کے سامنے لہراتے ہیں تو منہ چھپانے لگتے ہیں۔ جب پوری دنیا گھومنے کے بعد بھی عمران خان کے خلاف کرپشن کا کوئی حقیقی سکینڈل نہیں ملتا تو خالی ہوائی فائر چلاتے ہیں جیسے گزشتہ روز وفاقی وزیر نے کیا۔ کیا یہ عوام کو اتنا بے وقوف سمجھتے ہیں کہ وہ یہ تک نہیں سمجھتے کہ ایسے حکمران جن کا اپنا دامن صاف نہیں ہے جو قرض اتارو ملک سنوارو سے لے کر سستی روٹی سکیم تک اور سستی روٹی سے لے کر نندی پور تک کرپشن کے تمغے اپنے سینے پر سجا چکے ہوں‘ وہ جب ایک ایسے شخص پر الزام لگائیں گے جس کا دامن کرپشن سے پاک ہے‘ جس نے اس ملک کو کینسر کا بہترین ہسپتال بنا کر دیا اور جس کی ایک ایک پائی اس ملک کے اندر موجود ہے تو لوگ ایسے الزامات کو کیونکر سنجیدہ لیں گے۔ عوام جب ایسے الزامات ایسے لوگوں کے منہ سے سنتے ہیں‘جو سابق حکمرانوں کا پیٹ پھاڑ کر کرپشن کے پیسے نکلوانے کے دعوے کرتے تھے اور بعد میں اُنہی سے مل کر باری باری کھیلنے لگ گئے تو وہ ہنسیں نہ تو کیا کریں؟
این اے 122کا مسئلہ بڑا سادہ اور سیدھا ہے۔ جن لوگوں کے پاس گھر میں چار چار گاڑیاں کھڑی ہیں‘ جنہیں لاہور کی چند پوش سڑکوں پر گاڑیاں بھگانے کا شوق ہے‘ وہ ایاز صادق کو ووٹ دیں گے۔جن کی گلیوں کی سڑکیں ٹوٹی اور گٹر اُبلے ہوئے ہیں‘ وہ علیم خان کو ووٹ دیں گے۔ جن کے بچے مہنگے نجی سکولوں میں زیرتعلیم ہیں وہ ایاز صادق کو ووٹ دیں گے اور جن کے بچے سرکاری یا کم فیس والے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں‘ وہ علیم خان کا ساتھ دیں گے۔ جن کے کاروبار لندن سے دبئی تک پھیلے ہوئے ہیں وہ ایاز صادق کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور جو تین تین نوکریاں کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں وہ علیم خان کا ہاتھ تھامیں گے۔جن کے گھروں میں بڑے بڑے جنریٹرز لگے ہیں وہ ایاز صادق کو ووٹ دیں گے اور جن کے گھروں میں یو پی ایس بھی نہیں‘ وہ علیم خان کو اپنا رہنما سمجھیں گے۔ جن کے گھرسردیوں میں بھی چار چار ایئرکنڈیشنر چلتے ہوں گے ‘جنہیں مہنگی بجلی سے کوئی سروکار نہ ہو گا وہ ایاز صادق کے کندھے سے کندھا ملائیں گے اور جن گھروں کو دو بلبوں اور ایک پنکھے کا دس دس ہزار بل آتا ہو گا‘ وہ علیم خان کے سامنے اپنا مقدمہ رکھیں گے۔ جن کے گھروں کے باہر چار چار سکیورٹی گارڈز کھڑے ہوں گے‘ وہ ایاز صادق کی شان میں قلابے ملائیں گے اور جو آئے روز ڈاکوئوں سے لٹتے رہتے ہوں گے‘ جن کے ساتھ آئے روز سانحہ ماڈل ٹائون پیش آتا ہو گا‘وہ علیم خان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ جو حکمرانوں کی کرپشن کو اس معاشرے کا حصہ سمجھ کر قبول کر چکے ہوں گے وہ ایاز صادق کے ساتھ ہوں گے اور جو اس ملک کو ہر قسم کی دھوکہ دہی‘ فریب اور جھوٹ سے پاک دیکھنا چاہتے ہوں گے وہ علیم خان کے لئے قطاروں میں کھڑے دکھائی دیں گے۔اب آپ خود اندازہ کر لیں کہ اگر اس حلقے سے علیم خان جیتے تو کیوں جیتیں گے؟
یہ وہ چند فرق تھے جن کی بنا پر کل اس حلقے کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۔ رہی انتظامیہ‘ پولیس‘ پٹواری اور دیگر حکومتی مشینری تو انہیں ان کا کام کرنے دیں۔یہ کام پیپلزپارٹی نے بھی بہت کر کے دیکھ لیا۔ کہاں ہے آج پیپلزپارٹی؟ نون لیگ بھی اپنے انجام کی طرف رواں دواں ہے۔ حکمران جماعت کے ماتھے کا پسینہ بتاتا ہے کہ تحریک انصاف مسلم لیگ ن کے برابر آنے کو ہے‘ یہ اسے اوورٹیک بھی کر لے گی‘ اس ضمنی انتخاب میں نہ سہی تو اگلے عام انتخابات میں سہی۔ اصل مسئلہ اس حلقے سے جیتنا نہیں بلکہ حکمران جماعت کے پائوں اکھیڑنا تھا‘ جس میں عمران خان جیت گئے!