"ACH" (space) message & send to 7575

اپنے بچوں کو بچائیے

داعش کے جنگجو معمولی غلطی پر بھی تنظیم میں شامل افراد کو موت سے کم سزا پر راضی نہیں ہوتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک داعشی دوشیزہ کا ہے جسے تنظیم کے جنگجوئوں نے شک کی بنا پر ہولناک تشدد کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق داعش سے بغاوت کے بعد فرار ہو کر ترکی پہنچنے والی ایک لڑکی سبین سلیم نے بتایا کہ اس کی اٹھارہ سالہ بوسنیا نژاد دوست سمیرا کو داعشی جنگجوئوں نے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ جاں بحق ہو گئی۔ وہ دونوں گزشتہ برس اپریل میں آسٹریا کے شہر ویانا میں اپنے گھروں سے چپکے سے فرار کے بعد ترکی کے راستے شام میں داعش میں شمولیت کے لیے پہنچی تھیں۔ انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کر کے شام میں جہاد پر اکسایا اور شام کے سفر کی راہ دکھائی گئی۔ شام پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ داعش کے پروپیگنڈے کا شکار ہونے والی لڑکیوں میں بڑی تعداد کم عمر دو شیزائوں کی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں بے شمار مغربی نوجوان بھی موجود تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ تھا جسے زبردستی لایا گیا ہو۔ سب مرضی سے آئے۔ ان کا ذہن تبدیل کرنے کے لئے داعش نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ داعش جانتی ہے کہ نوجوان اپنا زیادہ تر وقت انٹرنیٹ پر گزارتے ہیں۔ ہر وقت اپنے ساتھ ایک جدید موبائل فون رکھتے ہیں۔ وہ ناشتہ‘ کھانا اور دیگر ضروری کام بھول سکتے ہیں لیکن سوتے جاگتے حتیٰ کہ باتھ رُوم تک میں فون ساتھ رکھنا نہیں بھولتے۔ یہ انٹرنیٹ اور جدید ایپلی کیشنز کے ذریعے ہر لمحے دنیا کے ساتھ جڑے رہنا چاہتے ہیں۔ کچھ موبائل ایپلی کیشنز ایسی ہیں جو ہر بچے اور نوجوان کی زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہیں۔ ان میں وٹس ایپ‘ وائبر اور سکائپ وغیرہ شامل ہیں۔ فیس بک‘ ٹویئٹر وغیرہ کے بغیر تو اب دن ہی شروع نہیں ہوتا۔ بات البتہ اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔
تیرہ نومبر کو پیرس میں داعش نے جو خوفناک حملہ کیا اس کی گرد اُٹھتے ہی پراسرار کہانیاں اور انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ سات آٹھ حملہ آور اور ان کے ماسٹر مائنڈ حملے سے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح رابطے میں تھے‘ یہ سوال سب سے اہم ہے۔ فرانس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کی آپس کی گفتگو کی بو پیشگی کیوں نہ سونگھ سکیں‘ اس راز سے اب پردہ اٹھ چکا ۔ دہشت گرد جانتے تھے کہ انہوں نے کمیونیکیشن کے روایتی ذرائع کو استعمال کیا تو وہ بہت جلد حکومت اور ایجنسیوں کی نظروں میںآ جائیں گے اور اگر وہ موبائل فون‘ ایس ایم ایس یا ای میلز کا استعمال کرتے تو ان کا پلان کب کا سامنے آ جاتا اور یہ سب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ جدید ٹیکنالوجی جس رفتار سے لوگوں کی زندگیوں کو سہل بنا رہی ہے ‘ اس سے دوگنا رفتار سے یہ ہماری زندگیوں کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ پیرس کے ان جہادیوں نے آپس میں رابطے کے لئے بچوں اور نوجوانوں کی مقبول پلے سٹیشن گیمز کا استعمال کیا۔ آج کل کے پلے سٹیشن اور آن لائن گیمز قدرے مختلف ہیں۔
ماضی میں یہ گیمز صرف ٹی وی کے ساتھ لگا کر کھیل سکتے تھے۔ اب آپ پلے سٹیشن کے ذریعے نہ صرف مختلف لوگوں کے ساتھ گیم کھیل سکتے ہیں بلکہ آپس میں بات چیت بھی کر سکتے ہیں‘ انہیں تصاویر‘ آڈیو ویڈیو فائلز بھیج اور موصول بھی کر سکتے ہیں۔ جی ہاں۔ اگر آپ لاہو ر میں ہیں اور آپ کے دوست لندن او ر نیویارک میں بیٹھے ہیں تو آپ آن لائن نیٹ ورکنگ گیمز کے ذریعے ایک وقت میں کئی افراد کے ساتھ گیم کھیل سکتے ہیں۔ سب سے خطرناک یہ کہ دوسری طرف موجود شخص آپ کے موبائل فون میں موجود ہر قسم کے مواد پر دسترس بھی رکھتا ہے۔ پیرس کے حملہ آوروں نے ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے وار گیمز کا انتخاب کیا۔ اس سے انہیں دو فائدے ہوئے۔پہلایہ کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ براہِ راست رابطے میں
آ گئے اوردوسرا ‘وہ ایک دوسرے کو جو پیغامات بھیجتے وہ ٹریس کرنے کے باوجود سمجھے نہ جا سکتے کہ یہ کون ‘کس مقصد کے لئے بھیج رہا ہے۔ آج کل کئی گیمز ایسی آ گئی ہیں جو ایک منٹ یا ایک گھنٹے میں ختم نہیں ہوتیں‘ مثلاً کلیش آف کلینز‘ کلیش آف کنگز وغیرہ ۔یہ دنوں ‘ مہینوں بلکہ برسوں تک چلتی رہتی ہیں۔ ان میں بیک وقت سینکڑوں ہزاروں افراد حصہ لے سکتے ہیں۔ اس گیم میں جنگ کا ایک وسیع میدان ہوتا ہے۔ مختلف جگہوں پر قبضہ کرنے کے لئے کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ ہر گیم اوسطاً دس لیولز پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک لیول کو پار کرنے میں تین چار مہینے بھی لگ سکتے ہیں‘ یوں ایک گیم دو تین سال کے بعد مکمل ہوتی ہے۔ کھیلنے والے مختلف قسم کے اسلحے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ مختلف ٹارگٹ ہوتے ہیں جنہیں تباہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد نئے ٹارگٹ سیلیکٹ کیے جاتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ کبھی ختم ہونے کو نہیں آتا۔ کھیل کے دوران کھلاڑی ایک دوسرے کو جو پیغامات دیتے ہیں وہ بظاہر اس کھیل سے متعلق ہوتے ہیں لیکن داعش والوں نے اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا۔ یہ لوگ جب اس طرح کی گیمز کھیلتے تو ایک دوسرے کے لئے ایسے پیغامات چھوڑتے جو ان کی حقیقی زندگی میں حملوں کی تیاری کے کام آتے ۔ مثلاً یہ کہ ہم نے فلاں جگہ ٹارگٹ کرنا ہے‘فلاں دو بندے گاڑی لے کر فلاں ٹارگٹ دیکھ کر آئیں‘ ہم اس کے لئے فلاں اسلحہ استعمال کریں گے۔ یہ پیرس کے مختلف مقامات‘ گاڑیوں اور لوگوں کے لئے خصوصی کوڈز استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے کسی ایجنسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کوڈز یا نام گیم کے لئے استعمال ہو رہے ہیں یا دہشت گردی کے لئے۔ یوں ان نام نہاد جہادیوں نے یورپ کی پھرتیلی ایجنسیوں کی آنکھوں میں بھی دُھول جھونک دی اور انہی کی بنائی گئی ٹیکنالوجی سے اُنہیں ہی نشانہ بنا ڈالا۔ 
خطرے کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ دیگر ممالک کی طرح ہمارے بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اگر آپ کبھی غور کریں تو آپ کے بچے بھی ایسی گیمز شوق سے کھیل رہے ہوں گے جن میں پیغام رسانی اور آن لائن نیٹ ورکنگ کی سہولت موجود ہو گی۔ یوں یہ اپنے دوستوں‘ رشتہ داروں سمیت دنیا بھر کے انجان لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں آ چکے ہیں جو کسی بھی وقت ان کا دماغ کسی طرف بھی موڑ سکتے ہیں۔ آپ گزشتہ چند برس شام آنے والے غیرملکی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں‘ ان میں سے ننانوے فیصد کا تعلق پوش اور ترقی یافتہ گھرانوں سے تھا۔ یہ مدارس کی بجائے جدید سکولوں سے پڑھے اور مغربی لائف سٹائل سے لطف اندوز ہوئے۔ تو پھر یکایک کیا ہوا کہ یہ داعش جیسے مگرمچھ کے منہ میں خوشی سے جا گھسے؟ سوشل میڈیا اور آن لائن گیمز کے ذریعے ان نوجوانوں کی برین واشنگ کی گئی تو وہ عیش و عشرت کا ماحول چھوڑنے پر تیار ہو گئے۔اور تو اور‘ گزشتہ دنوں یورپ سے ایک بارہ سالہ بچہ بھی لڑنے کیلئے شام جا پہنچا۔ اس طرح کے واقعات کے بعد بھی اگر ہم خوف محسوس نہیں کر رہے اور اس خوف کا توڑ کرنے اور بچوں پر نظر رکھنے کو تیار نہیں تو پھر ہمارا اور نئی نسل کا اللہ ہی حافظ ہے۔ 
اس سے قبل کہ آپ اور آپ کے بچے کسی بڑی مصیبت میں پھنس جائیں‘اپنے بچوں کو بچائیے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں