یہ عباسی حکمران ہارون الرشید کا دور تھا‘ جب رعایا خوشحال اور سلطنت ترقی کی طرف گامزن تھی اورسڑکوں پر کوئی بھوکا‘ کوئی سائل ڈھونڈنے سے نہ ملتا تھا۔ ہارون کا تئیس سالہ دور جمہوری نہیں بلکہ شخصی حکمرانی کا دور تھا۔ شخصی حکومت میں بڑے عیب ہوتے ہیں۔ مگر شخصی حکمران ہارون جیسا وسیع الظرف‘ عالم‘ مجتہد اور عوام کا خیرخواہ ہو تو شخصی حکومت جمہوریت پر بازی لے جاتی ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ایوب‘ یحییٰ‘ ضیاء یا پرویز مشرف میں سے کوئی بھی ہارون الرشید کے راستے پر چلتا تو عوام اسے سرآنکھوں پر بٹھا لیتے۔ لیکن کسی آمر اور کسی جمہوری حکمران کو تاریخ میں جھانکنے اور ان درخشندہ ستاروں سے روشنی حاصل کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ہارون الرشید کی کامیابیوں کی بنیادی وجہ علم دوستی‘ غریب پروری اور انصاف پسندی تھی۔ اُس کے زمانے میں جگہ جگہ محتاج خانے کھلے ہوئے تھے‘ جہاں مفلوک الحال اور معذور افراد مستقل طور پر رہائش رکھتے۔ہر شہر میں بیوائوں اور یتیموں کی الگ الگ تربیت گاہیں تھیں جن کے سارے اخراجات حکومت کے ذمہ تھے۔ اس کے ذاتی محتسب ملک کے ہر صوبے ‘ہر شہر اور ہر قصبے میں پھیلے ہوئے تھے اور اگر کبھی کسی غریب کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی تو اس کی آواز ہارون کے کانوں تک پہنچے بغیر نہ رہتی۔ وہ اس وقت تک کھانا نہ کھاتا جب تک محل کے آس پاس رہنے اور جمع ہونے والوں کو کھانا نہ مل جاتا۔ اس کے زمانے میں کسی شہری کو غیر اسلامی ٹیکس نہیں دینا پڑتا تھا۔ ہر قسم کی سبزیاں‘ پھل‘ غلہ اور ملکی کپڑا ٹیکس سے آزاد تھا۔ آج کاجمہوری زمانہ شاید یہ سن کر شرمائے کہ اس شخصی حکمران کے زمانہ میں پوری مملکت اسلامیہ میں کوئی چنگی اور کوئی محصول نہ تھا ‘ پھر بھی اس زمانہ میں بغداد نے ریکارڈ ترقی کی۔ وہ مفاد پرست ‘ خوشامدی اور لالچی ٹولے کی بجائے علماء‘ شعرا‘ ادیبوں اور دانشوروں کو اپنے قریب رکھتا تھا جو اُسے اقتدار کی حقیقت سے آگاہ رکھتے اور ہر قدم پر رہنمائی کرتے۔
ایک روزدربار لگا تھا۔ سارے مصاحب‘ خواص اور امراء موجود تھے۔ ہارون الرشید کو پیاس لگی۔ ٹھنڈے میٹھے پانی کا کٹورا پیش کیا گیا۔ ہارون نے ہاتھ بڑھا کر کٹورا تھاما اور اسے ہونٹوں سے لگانے کو تھا کہ ایک عالم اپنی جگہ سے اٹھا‘ ہارون کے قریب آیا اور بولا ''بادشاہ سلامت! ذرا رُک جائیے۔ پانی کا پیالہ منہ سے لگانے سے پہلے ہمیں ایک بات بتائیے۔ ایسے وقت میں جب آپ کو پیاس نے تنگ کر رکھا ہے‘ اگر یہ پیالہ آپ کے ہاتھ سے چھین لیا جائے‘ آپ کے ہونٹ اس پیالہ تک نہ پہنچ سکیں اور آپ سے کہا جائے کہ آپ اس ایک پیالہ پانی کی قیمت ادا کریں تو بتائیے آپ اس کی زیادہ سے زیادہ کیا قیمت دے سکیں گے؟ہارون کو سخت پیاس لگی تھی۔سوال سننے اور اس کا جواب دینے کے لئے جو وقفہ آیا‘ وہ بھی اس کے لئے بہت زیادہ تھا۔ ہارون نے جواب دیا۔ ''ہم اپنی آدھی سلطنت اس ایک پیالہ کی قیمت کے طور پر نذر کر دیں گے‘‘۔ وقت کا یہ عالم دوبارہ مخاطب ہوا '' اور اگر خدانخواستہ آپ کا پیشاب رُک جائے‘ کسی طرح کھل نہ سکے اور آپ سے اس کے کھولنے کی قیمت مانگی جائے؟ ‘‘ ہارون نے جلدی جلدی جواب دیا ''تو بھی ہم اپنی آدھی سلطنت اس کے عوض دے دیں گے‘‘ عالم مسکرایا‘ ہارون کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈالیں اور بولا ''اے سلطنت کے بادشاہ! کیا ایسی سلطنت جو ایک پیالہ پانی کے عوض اور پیشاب کھلوانے کی قیمت میں بک جائے‘ کیا اتنی وقعت رکھتی ہے کہ انسان اس کی ہوس میں ڈوب جائے‘ اس کی خاطر عوام کا حق مارے‘ ان پر ظلم اور زیادتی کرے اور انہی کا مال انہی پر خرچ نہ کرے‘‘۔ عالم کی بات سن کر ہارون کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ‘ ہچکی بندھ گئی اور جسم کانپنے لگا۔ وہ جابر حکمران نہ تھا مگر اس واقعے نے ہارون الرشید میں مزید انکساری و عاجزی پیدا کر دی اور دنیا کی حقیقت اور اقتدار کی اصلیت کھل کراس کے سامنے آ گئی ۔
اب ہم 31سالہ نوجوان مارک زکربرگ کی طرف آتے ہیں۔ یہ سماجی ویب سائٹ فیس بک کا بانی ہے۔ فیس بک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ 71زبانوں میں موجود ہے‘ اس کے ملازمین کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے‘ یہ دنیا کی دوسری سب سے زیادہ دیکھی جانی والی ویب سائٹ ہے‘ اس کے صارفین کی تعداد
ایک ارب 44کروڑ ہے‘ اس کا سالانہ منافع 12ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور ہر دوسرا شخص روزانہ کم از کم دو گھنٹے اسے استعمال کرتا ہے۔ فیس بک استعمال کرنے کے بہت سے فائدے ہیں مثلاً یہ کہ آپ دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں‘ مختلف موضوعات پر ڈسکشن کر سکتے ہیں اور ایونٹس کے بارے میں آگاہ رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح فیس بک پر بہت سے لوگوں کی مدد بھی کی جا سکتی ہے مثلاً اگر آپ کسی ایسے طالبعلم کو جانتے ہیں جو بہت ذہین ہے لیکن مالی وسائل کی وجہ سے آگے نہیں پڑھ سکتا تو آپ ایک فورم شروع کر سکتے ہیں جہاں لوگ اس بچے کی مالی مدد کر سکتے ہیں۔ آپ فیس بک کو لوگوں کی فکر اور سوچ میں تبدیلی لانے کیلئے بھی استعمال کر سکتے ہیں‘ آپ کئی موضوعات پر ڈسکشن شروع کر سکتے ہیں‘ ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کیسا ہونا چاہیے‘ ہم اضافی بجلی کیسے پیدا کر سکتے ہیں‘ ہماری حکومت کو فلاں مسئلے پر کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے‘ وغیرہ وغیرہ۔ یکم دسمبر کو فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اپنی ننانوے فیصد دولت خیرات کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ 45بلین ڈالر بنتے ہیں۔ یہ اتنی رقم ہے کہ اس سے پاکستان کا اسی فیصد قرضہ ادا ہو سکتا ہے‘ مارک چاہتا تو اس رقم سے دنیا کے ہر ملک میں سونے اور ہیرے جواہرات سے مزین محل تعمیر کر سکتا تھا‘ وہ اس رقم سے چاند پر رہائش اختیار کر سکتا تھا اور چاہتا تو اسے دوبارہ انویسٹ کر کے دگنا چگنا کر سکتا تھا۔ مارک یہ رقم اپنی نومولود بچی کو گفٹ یا ہبہ کر سکتا تھا‘ یہ اس رقم سے آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی طرح موروثی سیاست شروع کر سکتا تھا اور اس سیاست سے اس کی سات نسلیں اقتدار کے لوشے لوٹ سکتی تھیں لیکن اس نے یہ رقم خیرات کر دی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ
جان گیا تھا کہ صرف دولت کمانا اور اسے بڑھانا ہی مقصد ِ حیات نہیں بلکہ دنیا کو رہنے کے قابل بنانا اصل کام ہے۔خلیفہ ہارون الرشید کی طرح وہ زندگی کا فلسفہ سمجھ گیا۔ وہ صدقہ نہ بھی کرتا تو اس کی بیٹی ہاتھ پائوں ہلائے بغیر دنیا کی ہر نعمت حاصل کر لیتی۔مگر اس نے یہ صدقہ اپنی بیٹی کے لئے نہیں بلکہ ہمارے بچوں اور بچیوں کے روشن مستقبل کے لئے کیا کہ جنہیں نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ روزگار ‘ نہ ہی مفت اور معیاری تعلیم اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق۔ جتنی دولت‘شہرت اور عزت مارک زکربرگ کو ملی‘ اس کا عشر عشیر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ملا ہوتا‘ تو ان کی اکڑ آسمانوں کو چھو رہی ہوتی اور یہ زمین کو پھاڑنے کی کوشش میں لگے ہوتے۔
اللہ فرماتا ہے‘‘کون ہے جو اﷲ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے ، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے ۔ (البقرہ:245)۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا'' تمہیں تمہارا رزق کمزوروں کے صدقہ میں ملتا ہے‘ تمہاری مدد انہی کے سبب ہوتی ہے اور تمہاری کامیابی کا دامن انہی سے بندھا ہے‘‘ ۔قرآن میں درجنوں مقامات پر صدقات و خیرات کا ذکر ہے‘ ہمیں علم ہے صدقات اور خیرات سے ہمارا مال سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھ سکتا ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ہماری برائیاں تک نیکیوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ان آیات اور احادیث پر ستاون اسلامی ممالک کے سینکڑوں کھرب پتی حکمران اور اشرافیہ عمل نہ کر سکے‘ بڑے بڑے دین دار‘ خطباء اور مفکر خالی درس دیتے رہ گئے اور ایک ''کافر‘‘ ان سب پر بازی لے گیا‘ وہ ایک پیالہ پانی کی قیمت جان گیا!