لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ جب بھی ٹی وی پر بریفنگ کے لئے آتے ہیں تو یہی گمان ہوتا ہے کہ یقینا دہشت گردی کے خلاف ملنے والی کسی نئی کامیابی سے قوم کو آگاہ کریں گے۔ تین دن قبل جب وہ سکرین پر نمودارہوئے تو کراچی کے حوالے سے ایسے انکشافات کئے جن سے عوام کا حوصلہ اور فوج پر اعتماد مزید بڑھا۔ جو اس گمان میں تھے یامایوسی جنہیں کھائے جا رہی تھی کہ فوج شاید بیک وقت کئی محاذوں پر مصروف ہونے کی وجہ سے متوقع کارکردگی نہ دکھا پائے‘ انہیں حیرانی بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جو کہا‘ وہ کر دکھایا۔ اس سے فوج اور سیاستدانوں کے درمیان فرق مزید واضح ہوا کہ سیاستدان صرف اعلانات اور دعوے کرنے کے لئے میڈیا کو استعمال کرتے ہیں جبکہ فوج ٹارگٹ کے حصول کے بعد ہی منظرعام پر آتی ہے۔ یہ اتنا بڑا فرق ہے جو سیاستدان شاید کبھی سمجھ ہی نہ پائیں۔ ہر سیاسی جماعت کے کچھ ایسے ارکان ہوتے ہیں جن کے ذمے صرف یہی کام ہوتا ہے کہ وہ میڈیا پر زیادہ سے زیادہ آئیں اور اپنے لیڈروں اور اپنی جماعت کا دفاع کریں۔ یہ لوگ دن کو رات اور سفید کو سیاہ بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ جو جتنا زیادہ چرب زبان اور بلند گو ہوتا ہے‘ جو مخالف پر چڑھائی کر سکتا ہے اور جو بغیر رُکے بولنے کا ماہر ہوتا ہے‘ اسے پارٹی میں عزت بھی زیادہ ملتی ہے اور عہدہ بھی اونچا ملتا ہے۔ شائستگی اور تہذیب کے زمانے وا ہوئے۔ اب نہ کارکردگی کی بنیاد پر سیاسی جنگ لڑی جاتی ہے نہ اخلاقیات کا کوئی عمل دخل رہاہے۔ جو میڈیا کی سکرین پر چھا جائے وہی فاتح ہے۔ اس کے برعکس فوج ایک ایسا ادارہ ہے جہاں نظم و ضبط سے ہٹ کر نہ کوئی کام ہوتا ہے نہ ہو سکتا
ہے۔ اگر کوئی چیز ایک انچ بھی ادھر سے اُدھر ہو جائے تو معاملہ مخفی نہیں رہ سکتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج پاک فوج دنیا بھر میں اول مقام حاصل نہ کر رہی ہوتی۔ جنرل راحیل شریف کے آنے کے بعد بالخصوص اسے جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا‘ اس نے ماضی کے داغ بھی دھو دئیے۔ انہوں نے ایک ایسا ٹرینڈ سیٹ کیا جسے آئندہ آرمی چیف کے لئے برقرار رکھنا نسبتاً آسان ہو گا ۔اب ہم جنرل عاصم باجوہ کی اس بریفنگ کی طرف آتے ہیں ۔ان کی بریفنگ کے چار پانچ موٹے موٹے نکات تھے۔پہلا نکتہ کالعدم القاعدہ ، لشکر جھنگوی، تحریک طالبان کے گٹھ جوڑ سے متعلق تھا۔ یہ تینوں جماعتیں اپنے انداز فکر اور ٹارگٹس کے لحاظ سے الگ جماعتیں خیال کی جاتی تھیں لیکن جب سے ضرب عضب شروع ہوا ہے‘ ان تینوں نے آپس میں کئی مقامات پر پُول کر رکھا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کو تو گزشتہ دو برسوں میں کئی سیٹ بیک پہنچے ہیں ۔ داعش کے آنے کے بعد اس کے کئی کمانڈر ٹی ٹی پی چھوڑ چکے جن میں شاہد اللہ شاہد بھی شامل تھے۔ اسی طرح لشکر جھنگوی کے اہم لوگ مارے جانے کے بعد اس میں بھی دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ یہ تینوں اپنی کمزوریاں اس طرح پوری کر رہے تھے کہ جس جس کے پاس جو طاقت بچی تھی وہ آپسی مفادات کیلئے شیئر کر لی گئی۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد کراچی انتہاپسندوں کا مرکز بن گیا۔ یہاں انہیں بعض سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کی چھتری بھی میسر آ گئی جس نے سونے پہ سہاگے کا کام
کیا۔ لاجسٹک سے لے کر ٹارگٹ کو نشانہ بنانے تک یہ تینوں جماعتیں آپس میں ایکا کر لیتیں۔ دہشت گرد کسی کا‘ اسلحہ کسی کا‘ لاجسٹک کسی کی‘ پیسہ کسی کا‘یوں ہدف کو بڑے منظم اور تکنیکی انداز سے نشانہ بنایا جاتا۔ کراچی میں کامیاب آپریشن کی ایک اور وجہ وہ 13ہزارانٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز تھے جو صرف ضرب عضب شروع ہونے کے بعد کیے گئے۔ان میں سے تقریباً پانچ ہزار سندھ میں جبکہ پنجاب میں ساڑھے چھ ہزار آپریشن کیے گئے۔ دہشت گردی کے واقعات میں شہری انجانے میں یا جان بوجھ کر دہشت گرد گروپوں کی سہولت کاری کرتے پائے گئے‘ جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ تازہ ترین یہ ہے کہ فاٹا مکمل طور پر کلیئر ہے ،تاہم افغانستان سے ملحقہ کچھ علاقوں میں ابھی بھی دہشتگرد موجود ہیں ۔ اس کی وجہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر کسی آہنی باڑ کا نہ ہونا ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا ‘ دہشت گرد آر پار متحرک رہیں گے۔ فوج کو اس پر سوچنا ہو گا وگرنہ دہشت گردی کا سلسلہ مکمل طور پر نہیں رک سکے گا اور جب بھی اکا دُکا دہشت گردی ہوئی‘ میڈیا اور سیاستدان ہمیشہ کی طرح شور مچانا شروع کر دیں گے کہ آپ تو کہتے تھے ضرب عضب آپریشن نے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے تو پھر یہ کیا ہو رہا ہے۔ جنرل عاصم باجوہ کی اس بریفنگ میں تین ہائی ویلیو ٹارگٹس سے بھی نقاب اٹھایا گیا۔لشکرجھنگوی سندھ کا امیر نعیم بخاری، القاعدہ برصغیرکے امیرفاروق بھٹی عرف مثنی اور صابر خان عرف منا کے علاوہ مجموعی طور پر 97خطرناک دہشتگرد گرفتار کیے گئے ۔26دہشتگرد ایسے تھے جن کے سروں پر انعام تھا۔ فوج کی یہ کامیابی غیرمعمولی ہے کہ کراچی آپریشن کے باعث دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے ۔ مثلاًٹارگٹ کلنگ میں 69فیصد، بھتہ خوری میں 85فیصد اور اغوا برائے تاوان میں 90فیصد کمی واقع ہوئی۔ یہی وہ کامیابیاں ہیں جن سے بالخصوص سندھ کے سیاستدانوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے رہے ہیں۔ کسی انگریزی جاسوسی فلم جیسا اہم ترین انکشاف دہشتگردوں کی سینٹرل جیل حیدر آباد پر حملے کی منصوبہ بندی تھا جس پر 90فیصد کام مکمل ہوچکا تھا۔دہشتگردوں نے حیدر آباد سنٹرل جیل سے 19منٹس کی مسافت پر ایک گھر لیا اور اس میں پلاسٹک کنٹینر بنانے کا کاروبار شروع کیا، اسی کی آڑ میں کراچی سے گولہ بارود اور اسلحہ بھی منگوانا شروع کیا گیا، اسلحہ اور گولہ بارود منگوانے کے لیے ٹرین کا راستہ اپنایا جاتا ۔اس کے لیے واشنگ مشین کے اندر کی موٹرنکال دی جاتی اور اس میں اسلحہ یا گولہ بارود بھر دیا جاتا۔ حیدر آباد جیل کی ریکی میں ایک جیل اہلکار بھی ان کے ساتھ ملا تھا جس نے ریکی میں مدد کی ۔ پلان کے مطابق بارود سے بھری ایک گاڑی کی مدد سے جیل کے مرکزی دروازے پر دھماکا کیا جانا تھا جبکہ دوسری دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی کے ذریعے بیرکس کے دروازے پر دھماکا کیا جاتا۔منصوبہ بندی کے مطابق خود کش حملہ آوروں کے گروپ نے حملہ کرنا تھا اور ڈینئل پرل کے مرکزی مجرم خالد عمر شیخ، کور کمانڈر حملہ کیس کے مجرم شہزاد احمد سمیت دیگر کو چھڑانا اور 35سے 40افراد کو قتل کرنا تھا۔آپریشن میں گرفتار دہشتگرد وںنے 2011ء میں کراچی میں مہران بیس اور بحریہ کی بسوں پر حملے کیے ۔2012ء میں اٹک کے قریب کامرہ ایئر بیس پر حملہ اور منصوبہ بندی کی۔ 2013ء میں آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز سکھر پر حملے کی منصوبہ بندی اور حملہ کیا۔ 2014ء میں کراچی میں سی ٹی ڈی کے شہید ایس ایس پی چوہدری اسلم پر حملے کی منصوبہ بندی اور حملہ کیا۔البتہ چوہدری اسلم پر حملے کا ماسٹر مائنڈ کالعدم لشکر جھنگوی کا آصف فرار اور افغانستان میں ہے ۔ وہ پکڑا گیا تو اور بھی کڑیاں بے نقاب ہوں گی۔
اگر جنرل عاصم باجوہ اس بریفنگ میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سول اداروں کے تعاون پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈال دیتے تو سول ملٹری تعلقات کی تازہ جھلک سامنے آ جاتی۔ تاہم کراچی آپریشن میں گرفتار دہشت گرد اور کراچی میں جرائم میں کمی کے فگرز خود ساری کہانی بتا رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی جماعت دہشت گردی کے مسئلے پر سنجیدہ نظر آتی ہے اور فوج کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہی ہے‘ ایسا نہ ہوتا تو فوج کے لئے ہائی ویلیو ٹارگٹس حاصل کرنا قدرے مشکل اورطویل امر ہوتا۔ سول ملٹری تعاون کی یہ مثال یونہی برقرار رہی تو دہشت گردی کے اس سانپ کا سر بھی جلدہی کچلا جائے گا۔