کتنی عجیب بات ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے ملک میں عورت کے حقوق کے تحفظ کیلئے بزور بازو ایسے بل لانے پڑ رہے ہیں جن کی اس اسلامی اور جمہوری ملک میں نافذ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ چلو بل لانا تو ایک طرف رہا‘ اسے منظور کرانے کے لئے جس طرح ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا ہے اور جس طرح اس کی مخالفت کی جاتی ہے ‘ وہ ایک الگ داستانِ غم ہے۔ رہی سہی کسر علما نکال دیتے ہیں ۔ ان کا بل پر تقسیم ہو جانا اور بل کی مخالفت کرنا اس دور کی یاد دلاتا ہے جب عورت کو زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا اور وہ بھی صرف اس وجہ سے‘ کہ وہ عورت ہے اور بس۔آج اسلام آنے کے ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی اگر پاکستان جیسے ملک میں عورتوں کے حقوق کے لئے آئین اور قانون کی بیساکھی ضروری ہے تو صرف ان لوگوں کی وجہ سے جو عورت کو پائوں کی جوتی اور زرخرید غلام سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو انسانیت اور اخلاقیات کے وہ نقاب اُتار پھینکنے چاہئیں جو انہوںنے دکھاوے کے لئے چڑھا رکھے ہیں۔ آج اس ملک میں کیا نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان یورپی اور ترقی یافتہ ممالک سے ایک سو برس پیچھے ہے لیکن جہالت اور انسانی حقوق کی پامالی میں ہم جدید ممالک سے ہزاروں برس آگے ہیں۔ اشرافیہ سے لے کر عام آدمی تک‘ سب کا رہن سہن ایسا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں‘ انہیں دنیا جہان کی نعمتیں اپنے قدموں میں چاہئیں‘ ہر ٹیکنالوجی سے یہ استفادہ کرنے کے خواہشمند لیکن عورت کے ساتھ سلوک کی باری آئے تو سب کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے۔ یہ صرف غریب یا اَن پڑھ طبقے کی بات نہیں‘ آج اچھے بھلے خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ بھی عورت کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتے۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ
اس ملک میں آج بھی بیٹیوں کی پیدائش پر ناک بھوں نہیں چڑھائے جاتے‘ انہیں تعلیم ‘ صحت اور روزگار کے معاملے میں پیچھے نہیں رکھا جاتا؟ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ اگر کسی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے تو دونوں بیٹوں کو تو اعلیٰ نجی معیاری سکول میں داخل کرایا جاتا ہے اور بچی کو یہ کہہ کر کہ فیس افورڈ نہیں ہوتی‘ رُلنے کے لئے سرکاری سکول میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کیوں بھئیـ؟ کس لیے؟ کیا وہ انسان نہیں ہے ؟کیا کسی نے کبھی سوچا کہ اگر اسے اچھی تعلیم نہیں ملے گی تو وہ بڑے ہو کر نئی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کیسے کرے گی؟ آج بیٹی کی پیدائش پر تو جو کرتے ہیں سو کرتے ہیں‘ بیوی کوگھر لایا ہی غلام سمجھ کر جاتاہے اور یہیں سے گھرانے کی بدقسمتی کا آغاز ہوتا ہے۔ گھر کی چوکیداری سے لے کر صفائی ستھرائی اور کچن سے لے کر مہمانداری تک‘ ہر ذمہ داری اسی پر ڈال دی جاتی ہے۔بات بات پر یوں رعب ڈالا جاتا ہے جیسے بیوی نہ ہو‘ قربانی کا کوئی جانور ہو۔ غیرت کو ہتھیار بنا کر ایسے ایسے ظلم ڈھائے جاتے ہیں کہ دور جاہلیت بھی اس کے سامنے شرما جائے۔اور تو اور‘غیرت کے نام پر بیٹیوں کو قتل کرنے والوں کے خلاف اگر کوئی شرمین عبید فلم بناڈالے اور اگر حکمران اس فلم کی تقریب پذیرائی کا اہتمام کر دیں تو شرمین اور حکومت کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے کہ انہوں نے سب کی سانجھی بیٹیوں کو تحفظ دینے والے کسی اقدام کی حوصلہ افزائی کیوں کر لی۔ حیرت ہے!
ہم بھی عجیب لوگ ہیں‘ہمیں اپنی بیوی اچھی نہیں لگتی‘ اپنا گھر‘ گھر کا
کھانا اور اس کی وہی صدائیں اور ادائیں بھلی نہیں لگتیں جو شادی کے آغاز میں انتہائی پر کشش دکھائی دیتی تھیں‘ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بے وزن سمجھنے لگے ہیں‘ ہم ایک دوسرے سے بے تکلفی برتنے کو تیار نہیں اور ہماری یہی غلطی ہمارے معاشرے میں مرد و زن کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کر رہی ہے جو رشتے ناتے توڑنے کا باعث بن رہی ہے۔ اگر ہم بیوی سے خوشیاں چاہتے ہیں تو ہمیں اسے بھی وہی کچھ دینا ہو گا۔ اگر ہم ننھی منی خوشیاں انجوائے کرنے لگیں تو یہ دیوار پھر سے ہٹ سکتی ہے‘ ایسے درجنوں کام ہیں جس سے ہماری محبت زندہ ہو سکتی ہے‘ جس سے گھروں کی ناچاقیاں ختم ہو سکتی ہیں‘ ٹوٹے ہوئے دل پھر سے جڑ سکتے ہیں اور ہم جسے گاڑی کے دو پہیے کہتے ہیں‘ یہ گاڑی پھر سے رواں دواں ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے بہت بڑے نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے کام کرنا ہوں گے‘ نہ ان پر بہت زیادہ پیسہ لگے گا نہ انہیں سمجھنے کے لئے کوئی راکٹ سائنس درکار ہے۔ اگر ہم کبھی کبھی بیوی کو لے کر باہر جائیں‘ رات کو کبھی کبھار دس روپے کی کون کھا لیں‘ اس کے ساتھ کیرم بورڈ کھیلیں‘ اکٹھے مونگ پھلی کھائیں‘ ایک دوسرے کو مزاحیہ لطیفے سنائیں‘ ایک دوسرے کی مدد کریں‘ ہفتہ میں ایک مرتبہ ایسا ہو کہ بیوی کھانا پکائے اور ہم سلاد بنائیں اور ایک بار ایسا ہو کہ ہم گاڑی دھوئیں اور بیوی ہیلپ کرے‘ وہ پانی ڈالے اور ہم گاڑی پر سرف لگائیں اور کبھی کبھی ہم رات کو چھت پر جائیں اور ایک طرف بیٹھ کر چودھویں کا چاند‘ ستاروں بھرا آسمان دیکھیں‘ کبھی کبھی ہم بیوی کی پسند کا ڈرامہ دیکھیں اور کبھی وہ ہماری پسند کی فلم اور کبھی کبھی ہم وہ چھوٹے چھوٹے کھیل مثلاًزیرو کاٹا‘ لڈو‘ تمبولا‘ اَونو کھیلیںجو بچپن میں دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور یقین کریں یہ کھیل کھیل کر ہم اس سے کہیں زیادہ خوشی حاصل کرتے تھے جتنا آج موبائل فون سے چمٹ کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس محبت کو بڑھانے کے لئے ہم کبھی کبھی بیوی کی بجائے ہم خود بچوں کو نہلائیں‘ انہیں تیار کریں اور کسی روز ہماری بیوی ہمارے کاغذات‘ ہماری فائلیں سیٹ کرے اور جب عید ‘ شادی کی سالگرہ آئے تو ہم ایک دوسرے کو خوبصورت پیغامات کے ساتھ کارڈز دیں اور ایک دوسرے کو ویسے ہی ایس ایم ایس‘ ای میلز کریں جو ہم کسی اور لڑکی کو کرتے ہیںاور یاد رکھئے عورت شرم و حیا کا پیکر ہوتی ہے‘ پہل کرنے میں ہچکچانا دُنیا کی ہر عورت کی فطرت ہے لیکن اس کے بعد عورت اپنی جان تک دینے کو تیار ہو جاتی ہے لہٰذا آج ‘ آج پہلا قدم آپ خود اٹھائیے‘ گھر واپسی پر اپنی بیوی کیلئے کم سے کم گلاب کا ایک پھول‘ ایک گجرا ہی لے جائیے‘ آج تنہائی میں اس کے حسن‘ اس کے اخلاق‘ اس کے کردار کی تعریف کیجئے اور اس کی ادائوں‘ اس کی وفائوں اور اس کی جفائوں کا تذکرہ تو کیجئے اور پھر دیکھئے ہوتا کیا ہے اور اگر آپ نے واقعی ایسا کیا تو یقین کیجئے زندگی کے آسمان پر قوس قزح کے رنگ پھر سے بکھر جائیں گے‘ آپ کا گھر خوشیوں سے بھر جائے گا اور آپ کی بیوی سے اور بیوی کی آپ سے تمام شکایتیں اور کدورتیں ختم ہو جائیں گی۔ پھر نہ کسی کو حقوق نسواں بل لانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی شوہروں کی سیٹیلائٹ ٹریکر کے ذریعے نگرانی کی ضرورت رہے گی۔
کل عمران خان خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک گرلز یونیورسٹی کے مہمان تھے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے فرما یا ''خیبر پختونخوا میں تحفظ نسواں بل کا ڈرافٹ تیار کر کے مسودہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دیا گیا ہے‘ منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا‘‘۔ تحریک انصاف کے مداح توقع لگائے بیٹھے تھے‘ تحریک اس طرح کے اہم ترین معاملات میں پہل کیا کرے گی لیکن حکمران جماعت سب سے بڑے صوبے میں یہ بل پیش کر کے منظور بھی کرا چکی ہے اور جس طرح وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے شرمین عبید چنائے کی خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے کاوشوں کو سرکاری طور پر سراہا ہے‘ یہ دیگر سیاستدانوں کیلئے ایک مثال ہے۔
پس تحریر:کالم کا عنوان کچھ اور تھا۔ جس طریقے سے مولانا فضل الرحمن و دیگر علماء اور خوفزدہ شوہر‘تحفظ خواتین بل دیکھ کر سہمے بیٹھے ہیں‘ اسے دیکھ کر عنوان یہی رکھنا پڑے گا ''بڑا شوہر بنا پھرتا ہے جو بیوی سے ڈرتا ہے‘‘۔