"ACH" (space) message & send to 7575

ایسا نہیں ہوتا؟

پرویز مشرف کی روانگی کس کی ہار ہے‘ کیا وزیراعظم کو مشرف سے بدلہ لینا چاہیے ‘ یہ جاننے سے قبل اودھم سنگھ کی کہانی پڑھ لیں۔
''مجھے اس شخص کے کردار پر سخت غصہ تھا ۔ اس سے نفرت تھی‘اس لئے میں نے اسے اپنی گولی کا نشانہ بنایا ہے‘یہ اسی سزا کا مستحق تھا۔ میں 21سال سے اس موقع کی تلاش میں تھا۔اسے قتل کر کے میرے دل و دماغ کو ایک دیرینہ اُبال سے نجات مل گئی ہے۔‘‘۔ یہ الفاظ سردار اُودھم سنگھ نے ایک ایسے شخص کو مارنے کے بعد کہے جس کے ایک حکم پرہزاروں نہتے افراد کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔مرنے والوں میں اودھم سنگھ کا والد اور بھائی بھی شامل تھا۔اودھم سنگھ کون تھا‘ ان لوگوں کو کیوں مارا گیا‘ انہوں نے کون سا جرم کیا تھا یہ جاننے کیلئے ہمیںبیسیویں صدی کے دوسرے عشرے میں جانا ہو گا۔بیسیویں صدی کے آغاز میں جب آزادی کی تحریک اپنے عروج پر پہنچی تو رولٹ ایکٹ کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جلائو گھیرائو اور گرفتاریاںشروع ہو گئیں۔ جس کے بعد 13اپریل 1919ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میںاحتجاجی جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔پنجاب کے گورنر سر مائیکل اوڈائراس کے انعقاد کے خلاف تھے۔جلیانوالہ باغ میں داخلے کا صرف ایک ہی تنگ راستہ تھا۔ جلسہ گاہ میں بیس ہزار افراد موجود تھے۔ان میں ہندو‘ مسلمان ‘ سکھ سبھی شامل تھے۔یہ خاموشی سے اپنے لیڈروں کی تقریریں سن رہے تھے۔اس دوران جنرل ڈائر90مسلح فوجیوںکے ساتھ گیٹ پر آگیا۔ ڈائر نے کسی وارننگ کے بغیربھرے مجمع پر فائر کھولنے کا حکم دے دیا۔جونہی رائفلز نے شعلے اگلنے شروع کیے‘ ایک بھگدڑ مچ گئی۔نہتے لوگ گولیاں کھاکھا کر گرتے رہے۔ڈیڑھ ہزار افراد ہلاک اورتین ہزار سے زائد زخمی ہو گئے۔آخر 
میں ڈائر نے تڑپتی ہوئی لاشوں پر فاتحانہ نظر ڈالی اور لاشوں کوقدموں تلے روندتا باہر آ گیا۔ایک سکھ نوجوان اودھم سنگھ اس وقت جلسہ گاہ میں موجود تھا۔وہ مجمع میں موجود لوگوں کو پانی پلا رہا تھا۔اس کے باپ اور بھائی اس کی آنکھوں کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنے جس کے بعد اس کے زخمی دل میں بدلے کی نہ بجھنے والی آگ جل اُٹھی۔
بیس سال بعد لندن کے ایک اخبار میں ایک خبر چھپی‘ یہ ایک تقریب کے بارے میں تھی جس کے مقررین میں سر مائیکل اوڈائر بھی شامل تھا۔جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کو گولیاں چلانے کا حکم اسی لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اوڈائر نے ہی دیا تھا۔ یہ خبر اودھم سنگھ نے پڑھی تو اس کا ذہن بیس سال قبل جلیانوالہ باغ میں پہنچ گیا۔ وہ بیس سال سے ایک ملک سے دوسرے ملک پھرتا رہا تھا اور ہر قیمت پر برطانیہ پہنچنا چاہتا تھا ۔اس دوران اس نے کئی روپ بھی بدلے۔ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور بالآخر لندن پہنچ گیا۔ مائیکل اوڈائر کا نام پڑھتے ہی غصے اور جوش سے اس کا جسم کانپنے لگا۔ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔اس نے جیب سے رومال نکالا۔پسینہ پونچھا۔اعتماد کے ساتھ اٹھا۔الماری سے چھ گولیوں والا پرانا ریوالور نکالا۔اسے چمکایا دمکایا۔تیل لگا کر پرزوں کو نرم کیا۔ایک دو مرتبہ چلا کر دیکھا کہیں دھوکا نہ دے جائے۔پھر غسل کیا۔صاف ستھرے کپڑے پہنے۔ایک موٹی کتاب کے صفحات نکال کر ان کی جگہ ریوالور چھپایا اور گنگناتا ہوا کیکسٹن ہال کی طرف چل پڑا ۔ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔اودھم نے ہال پر گہری نظر ڈالی۔اسے ڈائس کے قریب ہی جگہ مل گئی۔ڈائس پر جو مقررین بیٹھے تھے ان میں اوڈائر بھی تھا۔جیسے ہی اودھم سنگھ کی نظر اوڈائر پر پڑی‘ اودھم کا چہرہ سرخ ہو گیا‘ آنکھوں میں چیتے کی سی چمک آ گئی۔وہ مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔جیسے ہی جلسہ ختم ہوا۔ دیگر مہمانوں کے ساتھ مائیکل اوڈائر سٹیج سے نیچے اترا۔ اودھم نے کتاب کھولی ‘ ریوالور نکالااور اچھل کر اس کے سامنے آ گیا۔اوڈائر ریوالور چھیننے کیلئے اس پر جھپٹا‘ تاہم اودھم سنگھ کی انگلیاں ریوالور کے ٹریگر پر رقص کرنے لگیں اور اوڈائر کا سینہ چیر تے ہوئے پار نکل گئیں۔یہ یقین کر لینے کے بعد کہ اس کا نشانہ ٹھیک رہا ہے اس نے باقی گولیاں اس کے ساتھیوں پر خالی کر دیں۔بعد میں اودھم سنگھ پھانسی کا پھندا چوم کر اپنے باپ اور بھائی کے پاس پہنچ گیا۔
اب ہم جنرل پرویز مشرف کی طرف آتے ہیں۔ جنرل مشرف 12اکتوبر1999ء کوایک منتخب وزیراعظم کو جبراً ہٹانے کے بعد ملک کے چیف ایگزیکٹو بنے۔ ان کے ساڑھے آٹھ سالہ دور میں ایک چیز مشترک تھی۔اور وہ تھی طاقت کا بے مثال مظاہرہ۔یہ مظاہرہ 12اکتوبر1999ء کو شروع ہوااور آٹھ سال دس ماہ‘ چھ ‘ دن‘ اٹھارہ گھنٹے اور سولہ سیکنڈ تک جاری رہا۔ان کی عظیم کامیابیوں میں لال مسجد آپریشن سر فہرست ہے۔قوم نے طاقت کا ایک اور مظاہرہ 26اگست2006 ء کو کوئٹہ سے 150میل کے فاصلے پر کولہو میں دیکھا جب آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ‘ بلوچستان کا5واںوزیر اعلیٰ اور 13واں گورنر نواب اکبر بگٹی دہشت گرد قرار پایا اور بموں اور میزائلوں کی بارش میں کولہو کے غار میںزندہ دفن کر دیا گیا۔ طاقت کا یہ مظاہرہ یونہی چلتا رہا۔بالآخر عوام نے وہ دن بھی دیکھا جب 18اگست2008ء کو جنرل مشرف استعفیٰ دے رہے تھے لیکن آخری وقت میں بھی وہ دونوں مکے ہوا میں لہرا رہے تھے گویا یہ پیغام دے رہے ہوں کہ میں اب بھی بہت طاقتور ہوں اور کسی کا ہاتھ میری گردن تک نہیں پہنچ سکتا۔کہتے ہیں کہ وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے اور بڑے سے بڑے غم کو بھلا دیتا ہے۔تاہم یہ سچائی بھی اب جھوٹ بن چکی ہے اوراس جھوٹ کا ذمہ دار سردار اودھم سنگھ ہے۔ اودھم سنگھ سات ہزار چھ سو اکتالیس دن تک اُس آگ کو سینے میںلئے پھرتا رہا جو جنرل مشرف اور مائیکل اوڈائر جیسے حکمرانوں کے نزدیک بہت جلد بجھ جانی چاہیے۔ اس کے سینے میں آتش فشاں اس وقت تک ٹھنڈا نہیں ہوا جب تک اس نے اوڈائر کو اس کے انجام تک نہیں پہنچا دیا۔ حساب لگائیں تو اوڈائر کے مظالم جنرل مشرف کے مظالم کے عشرعشیر بھی نہیں۔بے شمار سینے ایسے ہیں جن میں انتقام کی آگ آج بھی بھڑک رہی ہے۔جنرل صاحب زمین کے اندر سو میل گہری سرنگ بنا کر محصور ہو جائیں‘ بلٹ اور بم پروف چادر لپیٹ کر سو جائیں‘ انہیں اطمینان کبھی نصیب نہیں ہو گا۔ان کی جان ہمیشہ سولی پر لٹکتی رہے گی۔ وہ کہیں بھی چلے جائیں ‘قدرت کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔
رہی بات حکومت کی انہیں باہر جانے کی اجازت دینے کی تو یہ درست ہے کہ جنرل مشرف نے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا‘ انہیں جلاوطن کیا اور انہیں اپنے والد میاں شریف کے جنازے تک میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی اور یہ بھی درست ہے کہ حکمران خاندان یا حکمران جماعت کے وزرا نے بعض اوقات اس رنجش کا اظہار بھی کیا جو فطری بات ہے تاہم آج کے ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کے پاس صرف دو راستے تھے‘وہ چاہتے تو اپنی طاقت اور حیثیت کا استعمال کر کے بدلہ لیتے یا پھر ملک کو بچاتے۔ وہ عدالت کے راستے میں کھڑے ہو جاتے یا پھر اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتے۔ وزیراعظم نے ذاتی عناد پر عدالتوں کو ترجیح دے دی۔ملک دہشت گردی کی جس آگ میں جل رہا ہے‘ جس طرح فوج بیک وقت داخلی و خارجی محاذوں پر جنگ لڑ رہی ہے اور جو ملک کی معیشت کا حال ہے‘ اس کے باوجود اگر وہ عدالتی حکم کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے تو ملک کے لئے اس سے غیردانشمندانہ اقدام کوئی نہ ہوتا۔ پیپلزپارٹی اور وہ سیاستدان جو وزیراعظم کو مشرف سے انتقام لینے پر اُکسانے پر بضد تھے‘ جو چاہتے تھے حکمران جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کا ٹکرائو جاری رہے اور جن کی دال اس ملک میں انارکی اور انتشار پھیلا کر ہی گلتی ہے‘ پرویز مشرف کی روانگی دراصل ایسے لوگوں کی ہار ہے۔رہامیڈیا کا مسئلہ تو جو میڈیا یہ تنقید کر رہا ہے کہ یہ سب کسی ڈیل کے تحت ہوا ہے‘ اگر مشرف کو روک لیا جاتا تو یہی میڈیا حکومت کے لتے لے رہا ہوتا کہ حکمران ذاتی پرخاش رکھتے ہوئے ایک شخص سے بدلہ لینے کے چکر میں فوج جیسے ادارے کو زچ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔خود سوچیں‘کیا ایسا نہیں ہوتا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں