را کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری بھارت کے لئے بہت بڑا دھچکہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سانپ سونگھ چکا ہے۔ اس کا میڈیا بھی قوت گویائی کھو چکا ہے۔ وہی میڈیا جو بات بات پر پاکستان کو رگیدتا تھا‘ آج شرم سے منہ چھپارہا ہے۔ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے ‘ فوج اور حکومت دہشت گردی کے خلاف پرعزم ہیں اور اس کا ایک اظہار گزشتہ روز آئی ایس پی آر اور وزارتِ اطلاعات کی مشترکہ پریس کانفرنس میں نظر آیا۔ وہ لوگ جو کہتے تھے کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی دراڑ موجود ہے‘ کل وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید اور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم باجوہ کو ایک ساتھ بریفنگ دیتے دیکھ کر کم از کم ان کی زبانیں گنگ ہو چکیں۔ اس سے قبل بھی ہائی پروفائل دہشت گردوں اور وطن دشمنوں کو گرفتار کیا جاتا رہا‘ اس میں زیادہ تر بریفنگ آئی ایس پی آر کی جانب سے ہی دی گئی۔ یقینا حکومتی مشینری نے بھوشن یادیو کی گرفتاری میں اپنی ذمہ داری پوری کی ہو گی‘ یہی اس مشترکہ پریس کانفرنس کی بنیاد تھی۔
بھارتی ایجنٹ کے انکشافات بہر حال خوفناک ہیں۔ اب جبکہ اپنے ویڈیو بیان میں وہ اعتراف کر چکا کہ وہ نیوی کا حاضر سروس افسر ہے اور بھارتی نیول انٹیلی جنس سے را میں گیا تھا‘ پاکستان میں را کی مداخلت کھل کر سامنے آ چکی۔ گزشتہ روز جنرل باجوہ کے مطابق اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ''را‘‘سی پیک منصوبے کو تباہ کرنے کے لیے گوادرپورٹ کو نشانہ بنا نا چاہتی تھی۔ اس حوالے سے کل بھوشن یادیو کو 30سے 40بھارتی راکے ایجنٹ پاکستان میں داخل کرانے کا ٹاسک ملا تھا۔ یہاں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ سی پیک کے حوالے سے را کو تو تکلیف ہو سکتی ہے لیکن ہمارے ملک میں بھی سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکیں۔ اس مسئلے پر بھی سیاست کی گئی اور اسے متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ یہاں سے اندازہ لگا لیجئے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی بعض اوقات بھارتی عزائم کو پورا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ فوج کی ہائی کمان کی طرف سے اس منصوبے کے تحفظ کے بارے میں بارہا بیانات آ چکے ہیں۔ یہ منصوبہ نہ صرف ملکی تاریخ بدل دے گا بلکہ خطے کی خوشحالی میں بھی اہم کردار ادا کرے گااور خطے میں سب سے سے زیادہ مستفید پاکستان ہو گا‘ یہی بات بھارت اور اس کے ایجنٹوں کو چبھتی ہے۔ کل بھوشن یادیو نے جو کارروائیاں کیں اور جو وہ کرنے جا رہا تھا‘ وہ ہوش اڑا دینے کے لئے کافی ہیں۔ جنرل صاحب اس کے انکشافات قوم کو بتا رہے تھے تو لگ رہا تھا کہ جیسے یہ ایجنٹ جاسوسی ناول عمران سیریز کا کوئی کردار ہے۔ مثلاً یہ کہ کل بھوشن نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے تکنیکی طریقہ اختیار کیا۔ اس کے لئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا، کشتیاں خریدنے اور سکریپ ڈیلر بن
کر پاکستان آیا اور یہاں سے سکریپ بھی خریدا ۔چا ہ بہار میں جیولری کا کاروبار شروع کیا اور جب اسے پکڑا گیا تو اس کے پاس سے امریکی ،پاکستانی اور ایرانی کرنسی برآمد ہوئی اور اس کے پاس بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے نقشے تھے ۔ کل بھوشن یادیو پاکستان میں مداخلت کے لیے آپریٹو نیٹ ورک بناتا تھا، ان کی فنڈنگ کرتا اور ہتھیار بھی فراہم کرتا تھا جبکہ وہ انسانی سمگلنگ میں بھی ملوث تھا ۔اسی نے گوادر ہوٹل میں دھماکہ کیاجس میں چائینز ٹھہرے ہوئے تھے ۔ مہران ائیر بیس کی فنڈنگ بھی کل بھوشن یادیو کے علم میں تھی۔ صوبے میں گیس پائپ لائن اور ٹرینوں پر حملے کرنے کا بھی اس نے اعتراف کیا ۔
یہ درست ہے کہ کسی دوسرے ملک سے کسی ملک کا اتنا بڑا انٹیلی جنس افسر پکڑنے کی مثال کم ہی ملتی ہے اور اس کا سہرا آئی ایس آئی کے سر جاتا ہے۔ تاہم قوم یہی چاہتی ہے کہ بھارتی ایجنٹ کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر بھی بھر پور طریقے سے اٹھا یا جائے۔یقینا فوج اور حکومت اس سلسلے میں بھی شریک ِمشاورت ہوں گی تاہم اس دوران میں دو افسوسناک واقعات نے حالات کو مزید گمبھیربنا دیا۔ پہلا گلشن اقبال کا سانحہ ہے جس میں 74بے گناہ لوگ جان سے گئے۔ اس جنگ میں جہاں عام لوگوں کی شہادت ہوئی ہے وہیں پاک فوج بھی اگلے مورچوں میں جان کی بازی لگا رہی ہے۔یہ درست ہے کہ ضرب عضب آپریشن کامیابی سے جاری ہے اور اسے مکمل ہونے میں وقت لگے گا‘ لیکن ایسے واقعات قوم کے عزم کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس وقت زخمیوں کو ہسپتالوں میں خون کی ضرورت تھی‘ عوام نے جس طرح کا جذبہ دکھایا اور جس طرح زخمیوں کو خون فراہم کیا‘ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کے جذبے میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ چند ہی گھنٹوں بعد جناح ہسپتال جہاں سب سے زیادہ مریض لائے گئے‘ یہ نوٹس آویزاں کر دیا گیا کہ ضرورت سے زیادہ خون جمع ہو چکا ہے۔جس روز یہ دہشت گردی ہوئی‘ اسی روز راولپنڈی میںچہلم میں شریک لوگ اسلام آباد کی طرف بڑھنے لگے۔ یوں حکومت اور سکیورٹی اداروں کی توانائیاں جو کہ را کے ایجنٹوں اور دہشت گردوں کے قلع قمع میں صرف ہونا تھیں‘ وہ مختلف جگہوں پر مرکوز ہو گئیں۔اسلام آباد کے اس تازہ دھرنے کا کریڈٹ بہر حال تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کو جاتا ہے جنہوں نے مختلف گروہوں کو یہ راہ دکھائی کہ وہ جب چاہیں‘ طاقت کے زور پر ریاستی مشینری کو جام کر دیں اور بزور بازو اپنے مطالبات منوائیں۔ جڑواں شہروں میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو دفاتر اور تعلیمی اداروںمیں نہیں پہنچ سکے۔ بچوں کے امتحانات متاثر ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ مریض ہسپتال جانے سے بیٹھے ہیں۔ایک طرف ہم کہتے ہیں‘ حکومت اس ملک سے دہشت گردی ختم کرے‘ اس ملک کو امن کا گہوارا بنائے‘ یہاں دودھ اور شہد کی نہریں جاری کرے‘ روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کرے‘ ہماری نسلوں کے لئے ایک ایسا پاکستان بنائے جہاں وہ امن و آشتی سے رہ سکیں تو دوسری طرف ہم خود ہی اس راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور یہاں احتجاج اور تحریکیں ہی ختم نہیں ہوتیں‘ جن پر ریاست کو اپنی توانائیاں بلاوجہ کھپانی پڑتی ہیں۔ پاکستان بہرحال ایک محدود وسائل رکھتا ہے۔ ہمارے پاس پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کی نفری اور انفراسٹرکچر بھی محدود ہے۔ اگر دھرنوں اور جلوسوں کی حفاظت پر ساری پولیس اور سارا زور لگائیں گے تو عوامی مقامات دہشت گردوں کے لئے خالی ہو جائیں گے۔یہی دشمن چاہتا ہے۔ ہمیں دشمن کا ایجنڈا آگے بڑھانا ہے یا اپنے وطن کو مضبوط کرنا ہے‘ یہ فیصلہ کسی اور نے نہیں ‘ ہم نے کرنا ہے۔