کچھ لوگ چاہتے ہیں آپ بس انہیں عمران خان کے قصیدے سناتے رہیں۔ موصوف کی غلطیوں سے صرف ِنظر کر کے اچھائیوں پر واہ واہ کریں۔ وہ تین سال میں پارلیمنٹ میں کتنی مرتبہ گئے ؟ اس پر تنقید مت کریں۔انہوں نے جاندار اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا‘ اس پر بھی آنکھیں بند رکھیں۔ بس یہی کہتے رہیں‘ ان جیسا لیڈر آج تک پیدا نہیں ہوا۔ وہ غلط کریں تو اسے بھی نیکی سمجھیں اور اگر کوئی کام اچھا کردیںتو زمین آسمان کے قلابے ملا دیں۔ راقم سمیت مین سٹریم میڈیا نے دھرنے میں ان کا دیوانہ وار ساتھ دیا۔ ایک سو چھبیس دن جڑواں شہروں کو جو مشکلات پیدا ہوئیں‘ ان سے صرف نظر کیا۔ دھرنے میں جو لوگ جان سے گئے‘ ان کی ذمہ داری بھی حکومت پر ڈال دی۔ دھرنے کے دوران جو لوگ پکڑے گئے‘ وہ ڈیڑھ سال سے عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں لیکن پارٹی کا کوئی عہدیدار ان کا فون سنتا ہے نہ ان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ میڈیا نے اس ایشو کو بھی دبا دیا۔ یہ سب اس لئے کیا گیا کہ شاید یہ بندہ کچھ کرے گا۔لیکن تین چار مہینے خالی تقریروں اور ناچ گانے میں گزر گئے ‘یہاں تک کہ سولہ دسمبر آ گیا اور پارٹی کو فیس سیونگ مل گئی۔ سب جانتے ہیں آخری دو ماہ میں دھرنے میں چند سو افراد بھی نہ ہوتے تھے اور کیمرہ صرف کنٹینر اور چند سامعین پر مرکوز رہتا تھا۔ یہ بھی میڈیا کا جھکائو تھا۔ لیکن لوگوں کو ان ساری باتوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ خان صاحب کی طلسمی شخصیت کے آسیب میں مبتلا ہیں۔ سینئر صحافی رئوف کلاسرا کہہ کہہ کر تھک گئے کہ پی ٹی آئی والوں کو چاہیے کہ کبھی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی آڈٹ رپورٹس ہی پڑھ لیا کریں‘ان میں اتنے ایشوز ہوتے ہیں جن سے حکومت کو ٹف ٹائم دیا جا سکتا ہے لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جوں رینگے۔ جو کام پارٹی کے کرنے کا تھا‘ وہ صحافی کرتے رہے۔ کہنے کو پی ٹی آئی تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی لیکن وہاں کتنی گروپنگ اور کتنی لابنگ ہے اور کون فیصلہ سازی کرتا ہے ‘ کس کو معلوم نہیں؟ جاوید ہاشمی کو صدارت دے دی گئی لیکن وہ صحت کے معاملات کے باعث کچھ نہ کر سکے۔ چودھری سرور گورنری چھوڑ کر پی ٹی آئی میں گئے تو انہیں کوئی عہدہ دیا گیا نہ طاقت۔ آج چودھری سرور کہاں ہیں؟شکر ہے کبھی کبھی سنگل کالمی بیانات سے ان کی خیریت معلوم ہو جاتی ہے۔ وہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے ہوتے ہوئے کتنا کھل کر کام کر سکتے ہیںیہ انہیں ابتدائی چند دنوں میں ہی معلوم ہو گیا تھا مگریہ چیزیں لوگوں کو نظر نہیں آتیں‘ انہیں بس ایک شخص کا جادو اچھا لگتا ہے۔
آج تین سال بعد پانامہ لیکس کا مسئلہ اٹھا ہے تو وہی پارلیمنٹ جس کو پی ٹی آئی والے دو نمبر قرار دیتے تھے‘ کہتے تھے یہاں چوروں کا ٹولہ بیٹھا ہے‘ یہ جعلی پارلیمنٹ ہے‘ آج وہ پارلیمنٹ انہیں یاد آ گئی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ انہیں پتہ ہے وہ شارٹ کٹ طریقے سے اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل ہزاروں عوامی ایشوز آئے‘ لیکن یہ لوگ پارلیمنٹ میں شریک نہ ہوئے۔ اگر وزیراعظم پارلیمنٹ اجلاسوں میں نہ آئیں تو وہ ان کی غلطی لیکن خان صاحب وہاں جا کر جاندار اپوزیشن کا کردار نہ ادا کریں اور پیپلزپارٹی کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیں تو کوئی بات نہیں؟ ایک ہی کام وزیراعظم کے لئے غلط اور موصوف کے لئے درست کیسے ہو گیا؟ اپوزیشن کا صرف یہ کام
کیسے ہو گیا کہ وہ حکمران جماعت کو ہٹانے کے مواقع ڈھونڈتی رہے؟ اگر حکمران عوام کے ٹیکسوں سے چل رہے ہیں تو جناب عالی ! اپوزیشن بھی عوام کے ٹیکسوں سے ہی تنخواہیں اور مراعات لیتی ہے۔ یہ لوگ عوامی ایشوز کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا کہ یہ لوگ اسمبلی کا رخ ہی نہ کریں‘اسے گالیاں دیتے رہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ تنخواہیں اور مراعات بھی سمیٹتے رہیں۔
لوگ کہتے ہیں آپ کو آج پی ٹی آئی میں کیڑے نظر آ گئے ہیں‘میں انہیں کہتا ہوں اگر خان صاحب کو پرویز مشرف کا ساتھ دینے سے لے کر الیکشنوں کے بائیکاٹ تک ‘ اپنی غلطیاں محسوس ہوئیں اور انہوں نے اپنے یوٹرنز پر اظہار ندامت کیا تو آج یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہے۔ خان صاحب بیس سالوں میں ایسی قابل ٹیم بھی نہ بنا سکے جو ان کی عدم موجودگی میں کوئی کردار ادا کر سکے۔ شاہ محمود قریشی جس طرح چودھری سرور سے خائف ہیں‘ کیا یہ سب اندھوں کو بھی نظر نہیں آتا۔ ایک جاگیردار کو خان صاحب اتنی اہمیت دے کر پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں عمران خان پر کوئی الزام تونہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کیا لیڈر ہونے کے لئے صرف ایماندار ہونا ضروری ہے؟ اگر سادگی‘ ایمانداری اور درویشی ہی سب کچھ ہوتی تو ملک معراج خالد سے موزوں وزیراعظم یا سیاستدان اس ملک میں کون آیا؟خان صاحب تو پھر تین سو کنال کے محل میں رہتے ہیں‘ آدھی عمر یورپ کی آسائشوں میں گزاری اور اب بھی بطور اے ٹی ایم کارڈ عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کو ساتھ رکھتے ہیں اور چارٹرڈ طیاروں میں سفر کرتے ہیں مگر ملک معراج خالد نے تو ایسی زندگی قریب سے بھی نہ دیکھی تھی۔ حاکم کے لئے صرف شریف اور ایماندار ہونا کافی نہیں بلکہ سیاسی سوجھ بوجھ‘ کاروبار ِمملکت چلانے کے امور سے واقفیت اور اہم ریاستی معاملات کو حل کرنے کی اہلیت بھی ضروری ہے۔صرف موقع پرستی اور الزام تراشی آپ کو کامیاب نہیں کر سکتی۔گزشتہ دنوں اظہار الحق صاحب نے بھی یہی رونا رویا تھا۔ وہ کہیں غلطی سے ایک فقرے میں حکمران جماعت کی کسی بات کی تعریف کر بیٹھے‘ بس پھر کیا تھا‘ ان پر ای میلز اور الزامات کی بھرمار ہو گئی۔پی ٹی آئی کو جس جس نے قریب سے دیکھا ہے وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ جماعت مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی سے مختلف جماعت ہے۔ اس کا جلسہ ہو تو جتنی بھگڈر اور بدنظمی ہوتی ہے‘ کس نے نہیں دیکھی؟ ملتان جلسے میں سات لوگ شہید ہوئے‘ ان کا ذمہ دار کون تھا؟ کیا یہ ماڈل ٹائون کے شہیدوں کی طرح بے گناہ لوگ نہ تھے؟ کیا جلسے کی ذمہ داری شاہ محمود قریشی پر نہیں آتی؟ کیا ایکشن لیا گیا ان کے خلاف؟ جب پارٹی بنی تھی‘ لوگ سمجھے تھے اس میں انجینئر‘ ڈاکٹرز اور اساتذہ کو اُوپر لایا جائے گا‘ وڈیروں‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی بجائے قابل لوگوں کو ٹکٹ دئیے جائیں گے ‘ یہ لوگ تھنک ٹینک بنائیں گے اور یہ تھنک ٹینک ملکی مسائل اور ان کے حل کو سامنے لائے گا۔ لیکن کنٹینر سے اوئے اوئے کی آوازیں آتی رہیں‘ ہم اسے بھی نظر انداز کرتے رہے‘ وہی نودولتیے پارٹی پر قابض ہو گئے ‘ ہم ان سے بھی اوجھل رہے‘ کسی نے ان پر تنقید کی تو پی ٹی آئی کے ٹائیگرز نے انہیں ملک دشمن اور نواز لیگ کے ایجنٹ قرار دے دیا‘ اس کے باوجودبھی جب پارٹی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا پائی اور صرف اقتدار کے لالچ میں مبتلا رہی تو کیا اس کا محض اس لئے آنکھیں بند کر کے ساتھ دینا درست تھا کہ جی عمران خان تو پاک صاف ہیں‘ او بھائی ایسی شفافیت کا کیا فائدہ جب وہ اپنی پارٹی کو ہی لوٹوں کھوٹوں سے پاک نہ کر سکیں اور کارکردگی دکھائے بغیر صفر پر آئوٹ ہوتے رہیں۔ ایک منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ آئندہ حکومت تحریک انصاف کی ہو گی مگر تب ظاہر ہے کہ عمران خان کے دائیں جانب یہی شاہ محمود قریشی اور بائیں جانب جہانگیرترین پردھان بنے بیٹھے ہوں گے‘ تب اس ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں کس طرح بہیں گی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
تحریک انصاف نے پہلے اڑھائی سال چار حلقوں میں ووٹنگ اور دھرنے کے نام پر ضائع کر دئیے۔ اب پانامہ لیکس کا تحفہ ان کی جھولی میں آ گرا ہے۔ اللہ دے اور بندہ لے۔خیبرپی کے میں سیلاب سے تباہی آئے اور عوام بارشوں‘ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے مرتے رہیں‘ اس سے کسی کو کیا لینا دینا‘ اصل مسئلہ تو اقتدار میں آنے اور وزیراعظم بننے کا ہے‘ عوام اور عوامی ایشوز جائیں بھاڑ میں!