آف شور کمپنیوں کے بارے میں دیر سے ہی سہی ‘ مگر خان صاحب نے سچ تو بولا۔
ہر کوئی اپنے لئے چور رستے تلاش کرنے میں ماہر ہے۔ چاہے نون لیگ ہو یاتحریک انصاف ۔ وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں سوال ہوا تو فرمانے لگے: وہ تو بچوں کا نام آیا ہے‘ میرا تو نہیں آیا۔ کوئی ان سے پوچھے۔ بچوں کا آیا ہے تو بچوں کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟ کیا لاٹری نکلی تھی؟ نکلی تھی تو اس کا کوئی نمبر تو ہو گا؟ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے؟دوسری طرف داعی ٔانقلاب عمران خان ہیں‘ جو کل تک آف شور کمپنیوں کو دنیا کا سب سے بڑا جرم قراردے رہے تھے اور فرما رہے تھے‘ اللہ نے پانامہ لیکس کی شکل میں سو موٹو نوٹس لے لیا ہے ‘ اب خود ان کی آف شور کمپنی نکل آئی ہے تو وہ بھی آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔ ایک سچا اور کھرا سیاستدان کھلی کتاب کی طرح ہوتا ہے۔ وہ جب وقت آئے گا یا عقدہ کھلے گا تب دیکھا جائے گا‘ کی پالیسی پر نہیں چلتا۔سب سے پہلے وہ خود کو احتساب کے لئے پیش کرتا ہے۔ صرف جلسوں میں اعلان پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ عملی طور پر ایک دو تین کر کے سچ اُگل دیتا ہے۔ اگر اس سے کوئی غلطیاں ہوئی ہیں‘ چاہے وہ کرپشن بارے ہوں یا اخلاقیات بارے‘ وہ ایک مرتبہ خود کو عوام کی عدالت میں پیش ضرور کرتا ہے۔ جب عوام ایسے لیڈر کو ندامت کا اظہار اور غلطیوں کا اعتراف کرتے دیکھتے ہیں‘ تو مخالفین چاہے جتنا مرضی شور مچائیں‘ عوام کی نظر میں وہ ہیرو بن جاتا ہے‘ ہاں اگر اپنی غلطی دوبارہ نہ دہرائے۔ اگر ایک ہی غلطی بار بار کرے تو سمجھ لیں‘ یہ بندہ اگر بدنیت نہیں تو کچھ کرنے جوگا بھی نہیں۔ یہ صرف آپ کے جذبات کو انگیخت کر کے شہرت حاصل کر رہا ہے‘ صرف اپنا دائرئہ احباب وسیع کر رہا ہے۔ اسی سے اسے تسکین ملتی ہے۔ عمران خان کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔
جہاں تک آف شور کمپنیوں کی بات ہے‘نیازی اور نون لیگی کمپنیوں میں البتہ ایک فرق ہے۔ نون لیگی کمپنیوں کی منی ٹریل مشکوک ہی نہیں انتہائی مشکوک ہے۔ خان صاحب نے البتہ پیسہ بیرون ملک رہ کر بنایا۔ لیکن یہاں وہ بھی ڈنڈی مار گئے۔ جس ملک کا کھاتے تھے اسی کو چکر دے دیا۔ وہاں کمائے گئے پیسے پر ٹیکس پاکستان کو دینا تو ان پر لازم نہ تھا لیکن اخلاقی لحاظ سے ان کی ذمہ داری تھی وہ برطانیہ کو جتنا بھی ٹیکس بنتا‘ ادا کرتے۔ جو بچ جاتا اس پر صبرشکر کرتے۔ وہ بتائیں‘کیوں وہ دنیا بھر کے ان ساڑھے چار لاکھ لوگوں میں شامل ہو گئے جنہوں نے ٹیکس کلچر کی نفی کرنے کے رواج کو فروغ دیا؟ جواب آتا ہے‘ برطانیہ خود اجازت دیتا ہے اسی لئے لوگ آف شور کمپنیاں بنا کر ٹیکس بچاتے ہیں،اگر وہاں قانون پاس ہو جائے تو ہم ایسا نہ کریں۔سبحان اللہ! کیا دلیل ہے۔ اس دلیل کے لحاظ سے تو پاکستان میں بھی ٹیکس دینا لازم نہیں۔ یعنی جہاں چور راستہ ہو آپ اس پر چل پڑیں۔ مقصد تو ٹیکس بچانا ہے ؟ آف شور کمپنیوں کے ذریعے بچایا جائے یا پھر ٹیکس کے محکمے کو رشوت دے کر یا اپنے اثاثے کسی اور کے نام کر کے ۔خان صاحب نے برطانیہ سے کما کر اور وہاں کے مزے لُوٹ کر انہیں ٹیکس نہیں دیا تو پھر کس طرح وہ پاکستانیوں سے کہتے ہیں وہ اپنے ملک کے خزانے بھریں۔ حکمران خاندان تو دونوں جانب سے قابو آ چکا۔ یہ منی لانڈرنگ کا بھی مرتکب ہو اور یہی ان پر سب سے بڑا الزام ہے۔ یہ پیسہ عوام کا تھا‘ کک بیکس تھیں یا کرپشن سے بنایا گیا تھا‘ اس کا جواب یہ دینے کو تیار نہیں کیونکہ جواب ہے ہی نہیں۔ پھر اس خاندان کے ہر فرد کا لندن فلیٹس کے حوالے سے ایک دوسرے سے بیان بھی نہیں ملتا۔ کلثوم نواز لندن فلیٹس بارے جو کچھ گارڈین اخبار کو سولہ سال قبل بتا چکی تھیں‘ حسین نواز اور ان کے والد گرامی کے آج کے بیانات اس موقف کی چغلی کھاتے ہیں۔ تو پھر یہ بیوقوف کس کو بنا رہے ہیں ؟ عوام کو؟ کسی نے کہا‘ اپوزیشن اس مسئلے پر عوام کو سڑکوں پر لانے کی تیاری کر رہی ہے۔ میں نے کہا‘ جنہیں آپ عوام کہتے ہیں وہ دھنیا زیادہ پسند کرتے
ہیں۔ عوام وہ ہیںجو آئس لینڈ میں رہتے ہیں‘ جو برطانیہ میں رہتے ہیں۔پانامہ لیکس کا معاملہ آیا تو ہفتوں یا مہینوں نہیں‘ بلکہ گھنٹوں کے اندر اندر لوگ وزیراعظم ہائوس کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ عراق حملوں کی باری آئی تو سب سے زیادہ لندن میں بیس لاکھ افراد سڑکوں پر آئے۔ کیا عراق میں عیسائی رہتے تھے؟ کیا آئس لینڈ میں تحریک انصاف کی طرح کسی جماعت نے جلسوں کے ذریعے پہلے لوگوں کو کرپشن پر بھاشن دئیے؟ یہاں بھی ہر کوئی کرپشن سے واقف ہے کیونکہ ہر کسی کی رگ رگ میں یہ سرایت کر چکی۔ لوگ یہاں بھی کرپشن کے حوالے سے ایکشن دیکھنا چاہتے ہیں‘ لیکن کس کے خلاف؟ ہرکوئی دوسرے کو کرپٹ کہتا اور سمجھتاہے۔ خود کو تبدیل کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ سبزی والے سے لے کر فیکٹری مالک تک کو کرپشن کی دیمک چاٹ چکی تو پھر گلہ کیسا ؟ ایسے عوام کے مقدر میں یہی شہزادے اور افلاطون آتے ہیں‘ آج جو حکومت اور اپوزیشن کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
حکمران جماعت عوام کی اس کمزوری کو جانتی ہے۔ شاندار جلسہ تو تحریک انصاف اپنے دارالحکومت میں اپنے امیدوار کے لئے کرلیتی ہے لیکن وہاں ووٹ کیسے ملنے ہیں‘ یہ حکمران لیگ کو معلوم ہے۔ تحریک انصاف کے گڑھ میں بھی نون لیگی امیدوار نے ہی جیتنا ہے اور وہی لوگ جو تحریک انصاف میںگانے شانے سننے آتے ہیں‘ نون لیگ کو ووٹ دے دیتے ہیں تو پھر حکمران جماعت کو ڈر کس کا ؟ ان کی تو خواہش یہی ہے اس معاملے کو مزید ایک ڈیڑھ سال طول دے دیا جائے تاکہ انتخابی مہم شروع ہو جائے۔ حالات یہ ہو چکے کہ پانامہ لیکس کے اس گند میں پیپلزپارٹی کو اپنا احیا نظر آنے لگا ہے۔ مولابخش چانڈیو فرماتے ہیں: پیپلزپارٹی کا اچھا وقت قریب آ رہا ہے۔ لا حول ولا قوۃ ۔ یعنی پیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے کے لئے خراب ترین حالات چاہئیں اور بس۔ کوشش اس کی یہی ہوتی ہے کوئی اس سے بھی کرپٹ نکل آئے تاکہ لوگ کہیں اس سے تو پیپلزپارٹی ہی بہتر ہے۔ حالات جو بنتے دکھائی دے رہے ہیں‘ اس میں پیپلزپارٹی کے لیڈر چاہے چھت سے الٹے لٹک جائیں‘ اب اقتدار میں آنا تو دُور‘ یہ اپوزیشن میں موجودہ اکثریت بھی حاصل کر لیں تو بڑی بات ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کو کون سمجھائے‘ عوام صرف سچ سننا چاہتے ہیں۔ یہ سچ کمیشن یا کمیٹی کے ذریعے سامنے آئے‘ یہ سچ آپ ٹی وی پر آ کر بول دیں‘ یہ سچ فیس بک یا ٹویٹر پر ٹویٹ کر دیں یا پھر پارلیمنٹ میں منتخب نمائندوں کے سامنے‘ لیکن یہ سچ اب ناگزیر ہو چکا۔ صرف وزیراعظم کے لئے ہی نہیں ‘آصف زرداری ‘ عمران خان سمیت ہر سیاستدان کے لئے۔حکمران جماعت کسی غلط فہمی میں نہ رہے‘ یہ اسی یا نوے کی دہائی نہیں جب دو چار بڑے اخبارآپ کی مٹھی میں ہوتے تھے‘جہاں آپ اپنے میڈیا مینیجروں کے ذریعے کنٹرول حاصل کر لیتے تھے‘ اب یہ بے بس ہیں۔ شام سات بجے کے بعد سکرینوں پر جو طوفان اور ہیجان برپا ہوتا ہے‘ اس کے آگے ایٹم بم بھی ناچنا شروع کر دیں تو کچھ نہیں ہو گا۔ بہتر یہی ہے وزیراعظم آج پارلیمنٹ جائیں‘ آمر نہ بنیں بلکہ جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کریں اور سب سے اہم یہ کہ سچ بول دیں جیسے عمران خان نے بولا ہے۔