عمران خان کل انتہائی بدلے ہوئے نظر آئے۔ صدشکر ‘انہوں نے پارلیمان میں تہذیب اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ دھرنوں اور جلسوں میں بھی یہی انداز وہ اختیار کریں تو ان کی جماعت کی گرتی ساکھ کو سہارا ملے گا۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہ سنگار پور کے لی کوآن یواور ملائشیا کے مہاتر محمد کی مثالیں دے رہے تھے تو ساتھ میں یہ بھی بتا دیتے کہ کیا لی کوآن یا مہاتر محمد کے ساتھ ان کے دائیں بائیں ایسے ہی لوگ کھڑے ہوتے تھے جیساگھیرا خان صاحب کے گرد ڈال دیا گیا ہے۔ کیا کوئی شاہ محمود قریشی‘ کوئی شیخ رشید ان کے مصاحبین میں بھی شامل تھا؟ اپنے خطاب کے آخر میں عمران خان نے کہا۔ لاہور میں ساٹھ فیصدآبادی صاف پانی سے محروم ہے۔مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ اتنی معصومیت۔ اللہ اللہ۔ ساٹھ فیصد نہیں جناب سو فیصد۔ کسی ایک نلکے سے پینے کے قابل پانی آ رہا ہے تو دکھائیں؟
وزیراعظم نوا ز شریف جتنی زیادہ وضاحتیں دیں گے اتنا ہی پانامہ کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ سوموار کو پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں انہوں نے چند ایسے نکات اٹھائے جو خود ان کے گلے پڑچکے ہیں۔ ان کے مشیروں کی کوشش ہے کہ پاناما پران کے ہر نئے خطاب اور نئی وضاحت میں ایک دو ایسے نکات ضرور ڈال دئیے جائیں جن سے وہ مزید بیک فٹ پر جانے پر مجبور ہو جائیں۔ میاں صاحب کا کون سا ہمدرد ان کے ساتھ یہ نیکی نبھا رہا ہے یہ تو انہیں خود دیکھنا ہو گا‘ سرِدست ہم ان نکات کی جانب بڑھتے ہیں جن پر عمران خان نے کل پارلیمنٹ میں روشنی ڈالی اور یقین کیجئے اگر عمران خان کا یہ دھواں دار خطاب اگر برطانوی پارلیمنٹ میں کیا جاتا‘ اگر عمران خان برطانیہ میں اپوزیشن لیڈر ہوتے اور ہاتھ میں ثبوت لے کر ڈیوڈ کیمرون کی کرپشن آشکار کرتے تو کیمرون سر سے پائوں تک پسینے میں ڈوب جاتا ‘ وہ چلو بھر پانی میں ڈوبنا پسند کرتا لیکن ڈھٹائی کے ساتھ کبھی بھی اپنی کرپشن کا دفاع کرنا گوارا نہ کرتا‘ وہ کھڑے کھڑے استعفیٰ دے دیتا۔یہ خطاب تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے لائق ہے ۔اس خطاب سے پسینے تو ہمارے حکمرانوں کے بھی بہت چھوٹے ہوں گے جب خان صاحب نے یہ فرمایا کہ ایک طرف آپ چار سال قبل مریم صفدر کو اڑھائی کروڑ روپے دیتے ہیں اور انہیں ڈیپینڈنٹ ظاہر کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ بیس برس سے دو آف شور کمپنیوں کی مالک بھی چلی آ رہی ہیں‘ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ وزیراعظم کے دس ارب روپے ٹیکس کا پول یوں کھلا کہ اس میں سے آٹھ ارب روپے تو سیلز ٹیکس کے تھے۔ یہ ٹیکس عوام نے دیا اور میاں صاحب نے اپنے پلے ڈال لیا۔ یعنی کوئی غریب بندہ ساری عمر پیسے جوڑے‘ قرض پکڑے‘ زیور بیچے کہ گھر بنانا ہے۔ وہ پچاس ہزار روپے کا سریا خرید کر لائے اور اس پچاس ہزار میں سے آٹھ ہزار روپے سیلز ٹیکس ادا کرے تو بعد میں پتہ چلے کہ یہ آٹھ ہزار روپے ٹیکس اس نے نہیں‘ وزیراعظم نے دیا ہے۔ جب اسے یہ پتہ چلے گا کہ یہ آٹھ ہزار روپے وزیراعظم کے کھاتے میں چلے گئے ہیں تو کیا وہ اپنا سر نہیں پھوڑ ے گا؟ ٹیکس ظاہر کرنے کی ایسی تراکیب وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے بہتر کون جانتا ہے۔ لیکن ڈار صاحب کو کوئی یہ بتائے کہ اس طرح کے ٹوٹکے اسی اور نوے کی دہائی تک چل
جاتے تھے۔ تب نہ انٹرنیٹ تھا‘ نہ ٹیلیفون عام تھا نہ نجی چینل تھا نہ سوشل میڈیا تھا‘ آپ پی ٹی وی پر آ کر جو بولتے تھے لوگوں کو سچ ماننا پڑتا تھا‘ ایف بی آر کی ویب سائٹ تھی نہ ہی عالمی دستاویزات تک رسائی عام تھی۔ وہ زمانے لد گئے۔ اگر آپ نے مزید ایسے کوئی ٹوٹکے آزمائے تو آپ کی رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ خان
صاحب نے حضرت ابوبکر ؓ کی مثال دی کہ جب وہ خلیفہ بنے تو سب سے پہلے انہوں نے اپنا کاروباربند کیا۔ آج کے سیاستدان کاروبار میں آتے ہیں اور ایک دکان سے دس دکانیں بنا لیتے ہیں۔ جب انہیں کوئی حساب دینے کا کہتا ہے تو وہ الٹا کردار کشی اور الزام تراشی پر اتر آتے ہیں اور وہ بھی شوکت خانم ہسپتال پر جہاں سریا اور دودھ مرغی کا کاروبار نہیںبلکہ کینسر کے غریب لوگوں کا علاج ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ عمران خان کی آف شور کمپنی پر بات ہو سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ میڈیا نے انصاف نہیں کیا۔ مجموعی طور پر میڈیا نے اسے یوں ظاہر کیا جیسے انہوں نے ویسا ہی غلط کام کیا جس طرح کا الزام وزیراعظم کے بچوں پر ہے۔ برطانیہ سے وہاں کے ٹیکس امور کے ماہر عامر کیانی نے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے بتایا کہ اگر کوئی برطانوی شہری برطانیہ میں پراپرٹی خریدنا چاہتا ہے اور پراپرٹی کی کل قیمت یکمشت ادا نہیں کر سکتا تو بینک کے ذریعے اقساط میں وہ پراپرٹی خرید سکتا ہے لیکن کسی اور ملک کے شہری کے لئے یہ سہولت موجود نہیں۔ اس کے لئے اسے یہ قانون طور پر آفر کی جاتی ہے کہ وہ کسی فلاں فلاں جگہ آف شور کمپنی بنائے اور اس کے ذریعے وہ نہ صرف اقساط میں برطانیہ میں پراپرٹی خرید سکتا ہے بلکہ اس ٹیکس سے بھی بچ سکتا ہے جو ایک برطانوی شہری کو ادا کرنا پڑتا ہے۔برطانیہ نے یہ اقدام اس لئے اٹھایا تاکہ یہاں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے ذریعے ملکی معیشت کو مضبوط کیا جا سکے۔میاں صاحب کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کے بیانات میں تضاد ہے۔ رقوم کی ترسیلات کا ٹھوس جواب بھی وہ نہ دے سکے۔ ان کی کمپنیوں کی تعداد اور فلیٹس کے بار ے میں جو ابہام تھا وہ خان صاحب نے البتہ دور کر دیا اور دستاویزات فلور آف دی ہائوس پیش کر دیں۔ کل پانچ فلیٹس 1993ء سے 2004ء کے درمیان خریدے گئے؛ جبکہ وزیراعظم فرماتے ہیں ہم نے جدہ اور دبئی کی سٹیل ملز 2005ء میں فروخت کر کے فلیٹ خریدے ۔ ایک اور جگہ میاں صاحب بری طرح پھنس رہے ہیں وہ حدیبیہ پیپر ملز کیس ہے کہ لندن میں 1998ء میں انہوں نے اس مقدمے کی سپورٹ میں جن کمپنیوں کے کاغذات منسلک کئے وہ وہی کمپنیاں ہیں جو 1993ء سے 1998ء کے دوران بنائی گئیں۔ اس کے دستاویزی ثبوت اور رجسٹریاں وغیرہ خان صاحب نے پیش کر دیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کسی کمیشن کے سامنے یہ تمام دستاویزات درست نکلتی ہیں اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ٹی وی‘ جلسوں اور فلور آف دی ہائوس وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں نے جو حقائق پیش کئے وہ ان سے قطعی مختلف تھے تو پھر وزیراعظم کیا استعفیٰ دیں گے یا پھر کوئی نئی تقریر اور نئی وضاحت پیش کریں گے؟ کیا پھر ان کے مشیر کوئی نیا نکتہ ان کی تقریر میں ڈال کر وزیراعظم کو مزید پھنسائیں گے؟ کیا اس سے بہتر نہیں کہ وزیراعظم اور ان کے رفقا سچ بول دیں‘ وہ اپنا پیسہ بھی واپس لے آئیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کر لیں۔ یقین کریں اس سے ان کا گراف گرنے کی بجائے بلندیوں کو چھو لے گا۔ وقتی طور پر انہیں مشکلات ہو سکتی ہیں‘ لیکن مستقبل میں انہیں اس کا فائدہ ہو گا۔ دوسرا راستہ ان کے پاس کوئی ہے نہیں۔ جب ٹی وی چینلز پر ملک کے بیشتر حصوں میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے دکھائے جا رہے ہوں‘ وہاں آپ کا وزیراعظم یہ کہے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں‘ اس پر کون عقل کا اندھا یقین کرے گا؟
پاناما نے جہاں حکمران خاندان کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے وہاں عمران خان کو بھی اپنی صلاحیتیں منوانے کا بھرپور موقع ملا ہے۔ ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔ خان صاحب کی اپنی جماعت دھڑے بندیوں اور اختلافات کا شکار رہی‘ یہ شاہ محمود قریشی کا ہاتھ تھام کر خورشید شاہ کی امامت میں نماز ادا کرتی رہی‘ یہ دو شاہوں کے درمیان پھنسی رہی تو یہ حکمرانوں کا شکار کرنے کی بجائے درون خانہ سازشوں کا خود شکار ہو جائے گی۔ یہ بات خان صاحب کو سمجھانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا وزیراعظم سے پاناما پر استعفیٰ لینا!