نظام 1967ء تک دنیا کا امیر ترین شخص تھا۔ اس کا اصل نام نظام عثمان علی خان بہادر فتح جنگ آصف جاہ تھا۔ یہ ان مغل شہنشاہوں کا آخری نظام یا حکمران تھا جو درّہ خیبر کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہوئے اور سینکڑوں برس حکومت میںرہے۔ نظام آف حیدرآباد 1886ء میں پیدا ہوا ‘اس نے اسی برس کی عمر پائی اور یہ اسی برس اس نے کس طرح گزارے‘ آپ کو اس ایک جھلک سے معلوم ہو جائے گا۔ آپ نے جان ڈی راک فیلر کا نام سنا ہو گا‘ یہ بیسویں صدی میں امریکہ کا امیر ترین صنعتکار‘ سرمایہ کار اور بااثر ترین شخص تھا‘ یہ امریکہ کی پہلی پٹرولیم کمپنی کا بانی بھی تھااور یہ امریکہ کی پچاس ریاستوں کو امریکی صدر سمیت خریدنے کی طاقت بھی رکھتا تھا اور اس نظام آف حیدرآباد کے پاس اتنی دولت تھی کہ وہ جان ڈی راک فیلر اور اس جیسے سینکڑوں لوگوں کو ان کے ملکوں سمیت خرید لے۔ اس کی زندگی کتنی سہل تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے‘ چار خادم ایسے تھے جن کا فقط یہی کام تھا وہ اسے لباس پہنائیں‘ وہ سونے کی طشتریوں میں ناشتہ کرتا‘ اس کے کھانے میں بارہ قسم کی ڈشز ہوتیں‘ جن برتنوں میں وہ کھاتا وہ دنیا کے قیمتی ترین نوادرات شمارہوتے‘ وہ سفید ریشمی شیروانی پہنتاجس پر طلائی کام ہوا ہوتا‘ اس کے گلے میں موتی اور جواہرات کی مالائیں چمک رہی ہوتیں‘ اس کے استعمال میں سونے کی کرسیاں‘ سونے کی گاڑیاں اور توپیں ہوتیں جو دیکھنے والوں کو دنگ کر دیتیں۔ یہ دنیا کا امیر ترین انسان تھا لیکن یہ واحد امیر تھا جو پو پھٹنے سے پہلے اٹھتا‘ اسے جگانے کیلئے موسیقار آتے‘اس کی خوابگاہ میں مدھم سروں میں صبح کی راگنیاں بجاتے اور یوں یہ حضرت آنکھ کھول دیتے۔ ان
ساری عیاشیوں او رشاہ خرچیوں کے باوجود اس میں کئی خوبیاں تھی اور یہ خوبیاں حیران کن تھیں‘ چونکہ وہ مسلمان تھا لہٰذا سحری کے وقت اٹھ جاتا اور نماز باقاعدگی سے ادا کرتا‘ اس نے زندگی بھر کبھی صابن نہیں لگایا‘ اس کی بجائے وہ ایک خاص قسم کا سفوف استعمال کرتا جو صابن سے سستا اور زیادہ کارآمد تھا‘ وہ جب بھی عوام کے سامنے آتا تو سادہ لباس پہن کر آتا‘ اس کے دسترخوان پر کبھی چمچ اور کانٹے نہیں ہوئے‘ وہ ہمیشہ انگلیوں سے کھاتا‘ وہ چائے یا کافی بھی نہیں پیتا تھا‘ وہ سادہ پانی اور دودھ کو فوقیت دیتا اور نظام کو جو دولت ملی اس کا بڑا حصہ حیدرآباد سے نو کلو میٹر جنوب میں گولکنڈہ وادی سے ملا جو دنیا میں ہیرے جواہرات کی مشہور ترین کان ہے۔ نظام کے تمام ہیرے جواہرات اسی کان سے نکلے‘ آپ نے کوہِ نور کا نام سنا ہو گا‘ یہ ہیرا بھی اسی کان سے نکلا تھا اور کئی سال ملکہ انگلستان کے تاج کی زینت رہا۔
گزشتہ دنوں خبر آئی ‘نظام آف حیدر آباد دکن کی پاکستان کو ایک ملین پائونڈ امدادکا کیس پاکستان نے بھارت کے خلاف لندن سے جیت لیاہے ۔دفتر خارجہ کے مطابق نظام آف حیدر آباد دکن نے پاکستان کے لیے ایک ملین پائونڈ امداد کا اعلان کیا تھا۔ رقم اس وقت لند ن کے ویسٹ منسٹر بنک میں رکھی گئی‘جس پر بھارت نے دعویٰ دائر کیا کہ اس رقم پر پاکستان کا کوئی حق نہیں بنتا۔ پاکستان نے دلائل اور ثبوتوں کی بنیاد پر لندن کی عدالت میں بھارت سے یہ کیس جیت لیا ۔ عدالت نے حیدر آباد دکن کے فنڈز سے پاکستان کو بے دخل کرنے کی بھارت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے 68 سال بعد پاکستان کو اس رقم کا قانونی حقدار قرار دیا۔دفتر خارجہ کے مطابق اس رقم کی مالیت اب 35ملین پائونڈ ہو چکی ہے۔ پاکستانی روپوں میں یہ رقم تقریباً پانچ ارب روپے بنتی ہے۔ میں نے جب سے یہ خبر پڑھی ہے مجھے شریف خاندان کے مقابلے میں نظام آف حیدر آبادغریب اور مسکین شخص دکھائی دیا کیونکہ یہ رقم اتنی کم ہے کہ اس سے تو لندن کے ہائیڈ پارک میں اعلیٰ درجے کا بمشکل ایک فلیٹ ہی خریدا جا سکتا ہے جبکہ الحمدللہ میاں صاحب کے بچے وہاں پانچ پانچ فلیٹوں کے مالک ہیں۔ نہ جانے ہمارا دفتر خارجہ اتنی معمولی رقم کے لئے اتنے جتن کیوں کرتا رہا۔ اسے وہ رقم نظر نہ آئی جو آف شور کمپنیاں بنا کر پاکستان سے لوٹ کر باہر منتقل کر لی گئی‘ لیکن وہ نظام آف حیدرآباد کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔
سچ پوچھیں تو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کی بھی سمجھ نہیں آئی کہ جب ان کے اپنے شہر لندن میں وزیراعظم نواز شریف جیسی عظیم ہستی موجود تھی‘ انہوں نے ان سے استفادہ کیوں نہ کیا۔ میں انٹرنیٹ پر خبریں اور تجزیے تلاش کرتا رہا کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں‘ وہ کون سے الزامات تھے جن کی بنا پر کیمرون کو استعفیٰ دینا پڑا۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ یا اس کی حمایت صرف کیمرون نے نہیں کی تھی‘ باون فیصد لوگ اس کے حمایتی تھے لیکن اس کے مقابلے میں اڑتالیس فیصد لوگ کیمرون کے ساتھ بھی تو تھے۔ وہ یورپی یونین سے ملحق رہنا چاہتے تھے۔ کیمرون اگر ہمارے محبوب وزیراعظم کی مریدی اختیار کر لیتے‘ یہ ان سے حکمرانی کرنے کے ''آداب‘‘ سیکھ لیتے تو میاں صاحب انہیں اگلی دو دہائیاں برطانوی وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے کے گُر بتلا سکتے تھے۔ وہ اگر میاں صاحب کی شاگردی اختیار کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ حکمرانی کرنے کے لئے اصولوں ‘ ضمیر اور اخلاقیات وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘ انسان کو بس وہی کرنا ہوتا ہے جو اس کا دل ‘اس کا خاندان اور اس کا سمدھی کہتا ہے۔ وہ پاناما سکینڈل کی تازہ مثال دیتے تو کیمرون یقینا قائل ہو جاتے کہ واضح ثبوتوں کے باوجود عمران خان اور اپوزیشن حکمرانوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ یورپی یونین سے نکلنے کا مسئلہ تو لندن کے ان فلیٹس کی خریدوفروخت سے کہیں معمولی تھا جن کی تفصیل واضح طور پر عمران خان دے چکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ ان کے پاس ان کی سیل ڈیڈ بھی موجود ہے‘ اس کے باوجود نہ ہی نیب حرکت میں آئی نہ ہی عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا۔اس سیل ڈیڈ کے مطابق پہلا فلیٹ یکم جون 1993ء دوسرا31جولائی 1995ء ،مزید دو فلیٹس 1995ء اور پانچواں 29 جنوری 2004 ء کو خریدا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم کی 1981ء سے 1993 ء تک ماہانہ اوسط آمدنی 22 ہزار600 روپے تھی اور اس وقت انہوں نے 80ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔یہ تفصیل اور یہ ''الزامات‘‘اگر ہمارے ''عوامی‘‘وزیراعظم کیمرون کو قہقہے لگا لگا کر سناتے تو حیرانی سے کیمرون کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔ پھر جس طرح انہوں نے معاملے کو جوڈیشل کمیشن‘ ٹی او آرز کمیٹی میں الجھایا‘ یہ طور طریقے کیمرون کو بتائے جاتے تو وہ مستقلاً میاں صاحب کا مرید بن جاتا۔ ہمارے وزیراعظم کیمرون کو دلیلوں سے قائل کر سکتے تھے کہ دیکھو تمہارے ہاں تو ملکہ کی شکل میں علی الاعلان بادشاہت موجود ہے‘ پھر تمہیں ڈر کس کا ہے۔ ڈر تو ہمیں ہونا چاہیے کہ جہاں جمہوریت کا ڈھونگ رچا کر الیکشن کرانے پڑتے ہیں‘ عوام سے کہا جاتا ہے اپنا حق استعمال کرو ورنہ بھوکے مر جائو گے‘ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے‘ کس کے ووٹ کس کے کھاتے میں ڈال دئیے جاتے ہیں اور جمہوریت کہاں چلی جاتی ہے‘ یہ سارے گُر کیمرون چاہتے تو سیکھ سکتے تھے۔ اب جس دن ہمارے عوام دس لاکھ کی تعداد میں اپنے محبوب وزیراعظم کا وطن واپسی پر استعمال کریں گے‘ اسے دیکھ کر ڈیوڈ کیمرون یقینا ناخن چبانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ عمر بھر کا پچھتاوا انہیں لگ جائے گا کہ کاش انہوں نے جھک کر ہمارے وزیراعظم کا اسی طرح گھٹنا پکڑا ہوتا جیسا کہ وفاقی وزیر پرویز رشید نے مشکل وقت میں خورشید شاہ کا پکڑا تھا تو وہ انہیں بحران سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی رستہ ضرور بتا دیتے۔ خود نہ بتا سکتے تو اپنے پیر و مرشد آصف علی زرداری سے پوچھ کر بتا دیتے کہ یہ سارے ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں!